تہذیبی کردار سازی کی ضرورت
ہمارے نزدیک یورپ اور مغربی ممالک سماجی زندگی سے محروم ہیں۔ گو کہ مغربی تہذیب و کلچر کی اپنی الگ حرکیات ہیں مگر ہم یہ دعوی نہیں کر سکتے کہ اہل مغرب کے پاس سوشل لائف نہیں ہے۔ البتہ ان کا معاشرہ کام کے دنوں میں واقعی ایک دوسرے سے گھلنے ملنے کے تصور سے تہی دامن ہے۔ لندن جیسے میٹروپولیٹن (عالمگیر) شہر میں ایک کرائے کے گھر میں رہتے ہوئے کبھی آپ کو یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ ساتھ والے کمرے میں کون رہتا ہے۔ میں نے لندن میں نو سال ایک چار بیڈ روم کے فلیٹ میں گزارے۔ اس فلیٹ کے باقی تین کمروں کے بندوں سے میری صرف ویک اینڈ پر ملاقات ہوتی تھی جب میں ان سے کرایہ لینے کے لیئے ان کا دروازہ کھٹکھٹاتا تھا۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے ایک دوسرے سے گپ شپ کی ہو، کھانا اکٹھے کھایا ہو یا کسی دوسری سماجی سرگرمی میں ایک ساتھ حصہ لیا ہو۔ میرے کرائے داروں میں ایک لوکل گورا بھی شامل تھا اور دو افراد دوسری قومیتوں کے تھے۔ اس دوران کسی کرائے دار نے مجھے ایک بار بھی یہ نہیں کہا کہ ” کرایہ لینے کل آنا۔” میں جونہی ہفتہ وار ڈور ناک کرتا وہ ستر یا اسی پونڈ میری ہتھیلی پر رکھ دیتے تھے۔ میرا کرایہ داروں سے کبھی جھگڑا ہوا اور نہ کبھی ان سے بحث ہوئی۔ جیسا ہم مشرقی لوگ خصوصا پاکستانی روزانہ یا ہر دوسرے دن اکٹھے بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں، گل چھرے اڑاتے ہیں اور کلکاریاں مارتے ہیں ان جگہوں پر ایسا ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کے پاس اس کام کے لیئے ضائع کرنے کو کوئی وقت بچتا ہے۔
اس کے باوجود اہل یورپ کی سماجی یا سوشل لائف کا ایک اپنا مخصوص انداز ہے، وہ ہفتہ کے پانچ دن خوب محنت اور ایمانداری سے کام کرتے ہیں اور ویک اینڈ پر انجوائے بھی اسی خوبصورت تناسب سے کرتے ہیں کہ جتنا زیادہ وہ افورڈ کر سکتے ہیں۔ یورپی دنیا میں ویک اینڈ ہفتہ اور اتوار کو منایا جاتا ہے، جمعہ کی شام اور ہفتہ اتوار کے روز مارکیٹوں، کلبوں اور دکانوں کی خوب سیل ہوتی ہے۔ اس روز عام دنوں کے مقابلے میں خرید و فروخت دگنی اور تگنی ہو جاتی ہے۔ ویک اینڈ ان کے لیئے کسی عید سے کم نہیں ہوتا، نوجوان عموما جوڑوں کی شکل میں اکٹھے ہوتے ہیں اور گھروں، کلبوں اور دوسری مخصوص جگہوں پر خوب موج مستی کرتے ہیں۔ جب اتوار کی شام آتی ہے تو سیل دوبارہ کم ہونے لگتی ہے، اور سوموار تک عام دنوں کی طرح نارمل ہو جاتی ہے۔ ویک اینڈ گزارنے کے بعد یورپی لوگ دوبارہ کام پر جت جاتے ہیں۔ اس عرصہ میں نے سیکورٹی آفیسر کے طور پر سینٹرل لندن، کناری وارف، لندن ایرینا، گلنگل برج، ایسٹ لندن اور الفورڈ وغیرہ میں مختلف محکموں پر فرائض انجام دیئے اور کبھی یہ نہیں دیکھا کہ ملازمین وقت پر دفتر نہ پہنچتے ہوں یا پھر کام سے جی چراتے ہوں اور وقت ضائع کرتے ہوں۔
میں نے لندن کے قیام میں سفر کے دوران بھی کسی شخص کو فارغ بیٹھے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اگر میں سنٹرل لائن، میٹرو، جوبلی لائن، ڈی ایل آر یا کسی دوسری ٹرین وغیرہ میں سفر کرتا تو ہر دوسرے مسافر کو کوئی اخبار، میگزین یا کتاب پڑھتے دیکھتا۔ وہاں میٹرو، ٹرینوں، ٹرامز اور بسوں وغیرہ میں اخبار کو پڑھ کر رکھ دیا جاتا ہے جو کوئی دوسرا مسافر اٹھا کر پڑھ لیتا ہے۔
وہاں کام پر لندن کے گوروں، آئیرش، آسٹریلین اور ایک آدھ جاپانی سے بھی دوستی ہوئی۔ کچھ مقامی گوروں کے گھروں اور پارٹیوں میں بھی جانے کا اتفاق ہوا۔ ان میں بہت سوں کی گفتگو بھی سنی مگر میں نے انہیں ایک دوسرے کی غیبت کرتے، دوسروں کی ٹانگیں کھینچتے یا جھوٹ بولتے ہوئے ایک بار بھی نہیں دیکھا۔
اہل یورپ کی ان خوبیوں کے باوجود وہاں سوشل لائف اور خاندانی نظام تو ہے مگر 17 سال کی عمر کے بعد جب بچے "انڈر ایج” نہیں رہتے تو انہیں اپنے فیصلے خود کرنے کی مکمل آزادی دے دی جاتی ہے یعنی وہاں کے نوجوان اپنا تعلق کسی محرم یا نامحرم سے جوڑنے، اپنا کاروبار کرنے، روزگار تلاش کرنے اور اپنے جمع خرچ کا حساب رکھنے میں مکمل طور پر آزاد ہوتے ہیں۔ یورپی لوگوں کے بچے اس عمر میں شادی یا شادی کے بغیر اپنے دوستوں کے ساتھ علیحدہ اور اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ اس یورپئین کلچر کے کچھ اپنے فائدے اور نقصانات ہیں۔ جو پاکستانی اور ایشیائی لوگ یورپ منتقل ہوتے ہیں ان کو مشرقی اور مغربی تہذیب کے دو پاٹوں کے درمیان پستے ہوئے بھی دیکھا۔ کچھ پاکستانیوں کے بچے یورپی کلچر کو اپناتے ہوئے کافی کشمکش کا شکار ہو جاتے ہیں۔ میں نے وہاں بہت سی پاکستانی فیملیوں کو اس شعر کے مصداق، "گئے دونوں جہان کے کام سے ہم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے،
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے،”
اپنے سامنے گڑ گڑا کر روتے ہوئے دیکھا جو یہ کہتے پائے گئے کہ ہمارے پاس کار، ویلا، بنک بیلنس اور دیگر سب کچھ ہے مگر اولاد ہونے کے باوجود، ہمارے پاس نہیں ہے یعنی پاکستانی فیملیوں کی بہت سی اولادیں اپنے "جنسی پارٹنرز” کے ساتھ رہتی ہیں!
مغربی اور اسلامی تہذیب کا بنیادی فرق ہی اخلاقی اقدار کا فرق ہے کہ ہماری مسلم امہ اور خصوصی طور پر اپنے پاکستانی "شریعت” اور ان بنیادی اخلاقی اصولوں کی پابندی نہیں کرتے ہیں جن کا مسلمان ہونے کے ناطے وہ دعوی کرتے ہیں مثال کے طور پر قرآن پاک میں جھوٹ، غیبت، وعدہ خلافی اور منافقت وغیرہ جیسی اخلاقی برائیوں سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے مگر یہی برائیاں اہل مغرب کے ہاں کم اور ہمارے ہاں زیادہ پائی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ قرآن کریم غیبت کرنے کو اپنے سگے بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیتا ہے مگر ہماری شائد ہی کوئی ایسی محفل ہو جو کسی کی "غیب” کیئے بغیر سجتی ہو۔ اسی طرح جھوٹ بولنے والوں کے بارے قرآن کریم میں "لعنتہ اللہ علی الكاذبين” کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ قرآن پاک میں "لعنت” واحد سخت لفظ ہے جو دروغ گوئی کرنے والوں کے بارے آیا ہے۔ حتی کہ قرآن مقدس میں منافقین کے بارے ارشاد ربانی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہونگے حالانکہ منافقین مسلمانوں ہی میں سے ہوتے ہیں جو قرآن اور رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کا دعوی کرنے کے باوجود منافقت کرنے سے باز نہیں آتے ہیں۔
آج تک دنیا میں لگ بھگ 35 عالمی اور مقامی تہذیبیں گزری ہیں جن میں آثار قدیمہ کی ثقافتیں، ابلا، یونانی، اسلامی، افریقی تہازیب، بابل، سمیری، بازنطینی ثقافت، رومی، گندھارا، وادی سندھ کی تہذیب، اور مغربی تہذیب زیادہ مشہور ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں تین سب سے بڑی تہذیبیں اپنے عروج پر ہیں جن میں مغربی تہذیب، اسلامی تہذیب اور لادینی تہزیب سرفہرست ہیں۔ تہذیبوں کے بارے کہا جاتا ہے کہ، "دنیا میں صرف حکمران قوموں کی تہذیبیں بچتی ہیں۔” جبکہ دنیا پر ٗحکمرانی صرف علم اور کردار کی طاقت سے کی جاتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ مصر میں اہرام مصر کی شکل میں فرعون خاندان کی تہزیب کے آثار تو موجود ہیں مگر دنیا میں اس خاندان کی وراثت کا کوئی دعوی دار نہیں ہے کیونکہ "فرعونیت” کو اخلاق و کردار سے عاری تہذیب سمجھا جاتا ہے جس کی بنیاد ظلم اور جبر پر مشتمل تھی۔
فرعون کسی خاص شخص کا نام نہیں تھا بلکہ یہ شاہان مصر کا لقب تھا۔ جس طرح چین کے بادشاہ کو خاقان، روس کے بادشاہ کو زار، روم کے بادشاہ کو قیصر اور ایران کے بادشاہ کو کسریٰ کہتے تھے اسی طرح مصر کے بادشاہ کو "فرعون” کہا جاتا تھا۔
مسلم تہذیب کے پیروکار موجود ہیں اور اسلام اپنی اخلاقی اقدار اور تعلیمات کی طاقت سے دنیا بھر میں پھیل بھی رہا ہے مگر مسلمانوں کی اکثریت کی سیرت اور کردار وہ نمونہ پیش نہیں کر پا رہے ہیں جو زندہ تہذیبوں کا خاصا ہوتا ہے۔ آج ماضی کی ترقی یافتہ تہذیبوں کے آثار تو موجود ہیں مگر وہ تہذیبیں جو اپنی اخلاقی اقدار اور کردار کھو بیٹھی ہیں وہ کہیں نظر نہیں آتی ہیں۔ کلچر یا ثقافت ایک مخصوص وقت میں معاشرے کے افراد کی زندگی گزارنے کے طور طریقے، روایات اور رسم و رواج ہیں جبکہ تہذیب، تمدن اور ثقافت وسیع تصورات ہیں جس میں کسی قوم یا معاشرے کے آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کا عنصر بھی شامل ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو اسلامی تہذیب و تمدن کو مغربی تہذیب اور کلچر سے کماحقہ خطرات لاحق ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں اخلاقی زوال کے ساتھ تعلیمی اور علمی زوال بھی موجود ہے جس وجہ سے وہ خاطر خواہ ترقی کی راہ پر آگے نہیں بڑھ رہے ہیں۔
اسلامی ممالک میں درپردہ مسلمان بھی لادینی عقائد رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت جس مغربی کلچر کو "فحاشی” سے تعبیر کرتی ہے اندرون خانہ وہ خود اس کی دلدادہ ہے۔ اب پاکستان کے بڑے شہروں میں اہل مغرب کی طرح جنسی تعلق قائم کرنے کو اگرچہ چھپایا جاتا ہے مگر اسے تیزی سے اپنایا جا رہا ہے۔ بڑے بڑے امراء، بیوروکریٹس اور حکمران طبقہ کے افراد پارٹیاں کرتے ہیں جو مغربی اور لادینی تہذیب کی طرز پر ہوتی ہیں۔ اگر اسلامی تہذیب کو بچانا ہے تو روزمرہ کی زندگی میں اس اخلاقی اقدار اور کردار و سیرت کو اپنانا ہو گا جو نبی مکرم محمدالرسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنائے رکھی۔ لیکن بدقسمتی سے مسلم دنیا میں اسلامی تہذیب کو بچانے کے لیئے ایسی کوئی نمایاں اور متحرک تحریک موجود نہیں ہے۔
انگلینڈ کے قیام کے دوران میں نے اس فرق کو واضح طور پر محسوس کیا اور اب یہاں پاکستان میں اسے پروان چڑھتے دیکھ رہا ہوں۔ اگر ہم مغربی تہذیب کی اخلاقی خوبیوں کو ہی اپنا لیں تو مسلم تہذیب کے اخلاق و کردار کو بچایا جا سکتا ہے۔ حالانکہ خود الحاد اور مغربی تہزیبوں نے یہ اخلاقی اقدار دین اسلام سے سیکھی ہے۔
ایک ملک اور قوم کی تہذیب اس کی تعمیرات کے علاوہ ان کے فنون لطیفہ، ادب، فلسفیانہ خیالات، طرز معاشرت اور مادی ترقی پر استوار ہوتی ہے۔
ہر ملک و قوم کا کوئی نہ کوئی تہذیبی سرمایہ ہوتا ہے، چاہے وہ قوم بہت زیادہ متمدن نہ کہی جا سکے پھر بھی وہ اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے کچھ بنیادیں رکھتی ہے، جس سے وہ آڑے وقتوں میں خود کو سنبھالتی ہے، اس کے گیت، رقص، موسیقی، قصے، کہانیاں اور ضرب الامثال سب اس کے وجود کا جز ہوتے ہیں۔
طبقاتی یا جابرانہ سماج میں تہذیب کے پنپنے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ اٹلی اور جرمنی کا وہ ادب جو مسولینیؔ اور ہٹلر کی خوں آشام خواہشات کا آئینہ تھا، اپنے ملک میں بھی مٹ چکا ہے، بین الاقوامی ادب کا جز بننا تو بہت دور کی بات ہے۔ یہاں تک کہ مسولینیؔ اور ہٹلرؔ کی آپ بیتیاں دیکھنے کا شوق صرف تاریخ کے طالب علم رکھتے ہیں، کیونکہ جابرانہ معاشروں میں دانش و حکمت کو پھلنے پھولنے میں دشواری محسوس ہوتی ہے۔ تہزیب سے ایک مراد کسی قوم یا ملک کی داخلی یا خارجی زندگی کے تمام اہم پہلوؤں سے مجموعی طور پر پیدا ہونے والی وہ امتیازی خصوصیات مراد لی جاتی ہیں جن پر ان کی ترقی کا انحصار ہوتا ہے۔ اس حوالے سے بھی خاص کر پاکستان میں ان تمام شعبوں میں تہذیبی ترقی کی رفتار انتہائی سست ہی نہیں بلکہ کردار سازی کے حوالے سے تضادات کا شکار ہے۔
اسلامی تہذیب کو بچانے اور پروان چڑھانے کے لیئے ادیبوں اور دانشوروں کو اپنی راہ منتخب کرنا ہو گی اور قومی زندگی کے ان تہذیبی عناصر کو ابھارنا ہو گا جو تہذیب کو بچانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ یہ فیصلہ ان حقائق کی روشنی میں کرنے کی ضرورت ہے جو تاریخ فراہم کرتی ہے اور جس سے منہ موڑ کر ادیب و محقق اور لکھاری محض کھوکھلی انفرادی خواہشات کا ترجمان بن کر رہ جاتے ہیں۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب اہل فکر کو حوصلہ افزاء ماحول ملے اور وہ اس مد میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ چہ جائیکہ کہ اسلامی تہذیب کے عناصر قرآن و سنت میں آج بھی زندہ و جاوداں ہیں جن کو صرف متحرک اور فعال کرنے کی ضرورت ہے۔
Title Image by Anonymous Traveller from Pixabay

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |