زنجیر فارسی زبان کا لفظ ہے۔ جبکہ کُنڈی ہندی زبان سے ماخوذ ہے۔ لوگ گھروں میں لکڑی کے دروازے استعمال کرتے تھے
بعض حضرات کی رائے یہ تھی کہ یہ توت چونکہ کامل پور سیداں کے شاہ صاحبان کی ملکیت تھے اس لئے شاہ توت کہلاتے تھے۔
گاؤں کی دکانیں نقدی اور بارٹر سسٹم دونوں بنیادوں پر چلتی تھیں۔ لوگ دکان پر غلہ لے جاتے تھے ۔
چھوئی کا علاقہ ملہو والا سے 2 کلومیٹر جنوب مغرب میں تھا۔ یہ بیری کے درختوں کے لیے مشہور تھا،
لنچ باکس نام کی مشین ان دنوں ایجاد نہیں ہوئی تھی ۔ پرائمری سکول کے بچے آدھی چھٹی کے وقت گھر آکر لنچ کر لیتے ۔
ماہل میں رنگین پایوں والے بھاری پلنگ بچھے ہوتے ۔ لمبی دیوار پر لکڑی کی خوبصورت کانس بنی ہوتی تھی جس پر پیتل ، تانبے اور چینی کے برتن رکھے ہوتے ۔
تازہ تازہ یحیٰ خان کا مارشل لا لگا تھا۔ اس کے مطابق بازار کھلنے اور بند ہونے کے اوقات مقرر تھے ۔ جب میں فتح جنگ پہنچا تو
خالو اختر صاحب شکار کے شوقین تھے۔ وہ خرگوش، ہرنی اور کونج کا شکار کرتے تھے۔ ہمارے پڑوس کے دو گاؤں ہرنیاں والا اور ہر نیالی کے ناموں سے اندازہ ہوتا
ملہو والا کے آئین کے مطابق مرغی صرف تین مواقع پر پکانے کی اجازت تھی۔
باجرے کے سٹوں کا اپنا لطف تھا۔ کچا سٹا یا چھلی کی طرح بھونا ہوا سٹا تلی پرمروڑا جاتا ، پھونک مار تے تو بھوسی اڑ جاتی تلی پر دانے رہ جاتے