ڈاکٹر جہانگیر خان پی ایچ ڈی قسط نمبر2

ڈاکٹر جہانگیر خان پی ایچ ڈی کرکٹر / ماھر تعلیم / پرنسپل گورنمنٹ کالج اٹک قسط نمبر 2

ڈاکٹر جہانگیر باقاعدہ ڈائری لکھتے تھے۔ انہوں نے تدریسی زندگی کا سفر زمیندارہ کالج گجرات کے پرنسپل کے طور پر کیا۔ان کی ڈائری نمبر چار سے سات تک میں ان کے کیمبل پور کالج میں بطور پرنسپل کام کرنے کے واقعات ھیں۔موصوف 1942 سے 1945 تک کیمبلپور کالج کے پرنسپل رھے۔

ڈاکٹر جہانگیر خان پی ایچ ڈی قسط نمبر2
ڈاکٹر جہانگیر خان پی ایچ ڈی کرکٹر / ماھر تعلیم / پرنسپل گورنمنٹ کالج اٹک

ڈاکٹر عبدالقدوس ھاشمی صاحب واہ کینٹ نے ڈاکٹر جہانگیر کے عقیدے کے بارے میں پوچھا ھے کہ کیا ڈاکٹر جہانگیر صاحب احمدی ہیں کہ نہیں ۔اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب کی ڈائری سے سند مل گئی۔ ڈاکٹر جہانگیر صاحب صحیح العقیدہ سنی اور مسلم لیگی مسلمان تھے..سات سالہ برطانیہ قیام کے دوران بھی شراب تو دور کی بات سگریٹ سے بھی بچے رہے ۔ڈاکٹر صاحب نے اپنی ڈائری میں جمعہ پڑھنے یا قضا ہونے کا اہتمام سے ذکر کیا ہے

گجرات جمعہ 9 اگست 1941 ۔میں ( ڈاکٹر جہانگیر) قیوم صاحب اور شریف جمعہ کی نماز کو نماز کو گئے۔ شریف مرزائیوں کی مسجد میں گیا. اس سے ثابت ھوا کہ ڈاکٹر جہانگیر صاحب احمدی نہیں تھے فروری 1942 میں ڈاکٹر جہانگیر صاحب کی شادی اپنے گاؤں میں نعیمہ مبارک بنت احمد حسن خان برکی سے ھوئی ۔ احمد حسن سول سرونٹ تھے

16 اپریل گجرات میں مبارک سرجن کے کھانے پر ساڑھی پہن کر گئی میں نے کہا یہ ھندوانہ لباس کیوں پہن لیا ھے۔( یاد رہے کہ احمدی خواتین حجاب اور پردے کا مسلمان خواتین سے بھی زیادہ اہتمام کرتی ہیں۔) 25 مارچ 1942 گجرات ۔اعظم علی ۔ سب جج اور ملک عبدالرحمن خادم چائے پر آ گئے ۔ملک خادم احمدیت پر چھڑ گیا پھر بند ھونے کا نام نہ لے ۔شام سے ذرا پہلے پیچھا چھوڑا ۔اس سے ثابت ھوا کہ ڈاکٹر جہانگیر صاحب احمدی نہیں تھے نو اپریل 1942 لاھور گیا تاکہ پروفیسر گیان سنگھ کا گیس پیپر guess paper لائوں۔ (اس کا مطلب ھے کہ گیس ٹربل پرانی بیماری ھے ۔1974 میں invincible guess paper کا رواج تھا) دو جون 1942..ایک ماہ پہلے سٹاف نے فیصلہ کیا تھا کہ زمیندارہ کالج گجرات کے سٹاف ممبر اچکن اور شلوار میں کالج آئیں گے۔اج سے دیسی لباس شروع ھو گیا ۔

29 ستمبر 1942 کو فرنٹیئر میل سے کیمبل پور روانہ ھوا۔ زمیندارہ کالج گجرات کے سارے استاد اور بہت سے لڑکے الوداع کہنے گجرات سٹیشن پر ائے۔ سوا آٹھ بجے کیمبل پور پہنچا روزہ رستے میں کھولا ۔سٹیشن پر فیض خان،فضل خان ،فاضل اور کالج سٹاف کے آدمی موجود تھے۔فیض خان کی بیوی جالندھر گئی ھوئی تھی۔ انہوں نے میرے رھنے کا انتظام اپنے گھر میں کیا۔ 30

ستمبر فضل محمد خان مجھے کالج کے گئے پرنسپل شیخ چراغِ دین سے ملایا چھوٹے سے قد کے آدمی تھے انہوں نے کالج اور بورڈنگ کی سیر کرائی اور سٹاف کے بارے میں بہت سی باتیں بتائیں ۔یونیورسٹی سے 130 پرچے چیکنگ کے لیے وصول ھوئے۔

یکم اکتوبر دس بجے کالج گیا شیخ صاحب سے چارج لیا ۔حساب کے رجسٹر دیکھے دو بجے مکان واپس آیا پرچے دیکھتا رھا ۔ کیمبل پور میں ریت ھی ریت ھے ۔پانی کی کمی ھے ۔میونسپلٹی کے نلکے سے تمام شہر کو پانی ملتا ھے نلکہ ایک گھنٹہ صبح آدھا گھنٹہ دوپہر اور ایک گھنٹہ شام چلتا ھے۔سڑکیں بری حالت میں ھی ۔فیض خان کے پاس ایک ریڈیو ھے جو کیمبل پور کی بجلی سے نہیں چلتا۔ رات کو فارسی کے لیکچرر برق نے شیخ چراغ کو دعوت طعام دی مجھے بھی بلایا تھا

3 اکتوبر کو گجرات سے سامان والی گاڑی کیمبلپور پہن۔ گئی کالج کے نوکروں کو سامان اتارنے کے لئے بھیجا ۔ سامان کا ریل کا کرایہ 43 روپے تھا ۔ شیخ صاحب کو افطاری کے وقت سٹاف کی طرف سے چائے کی دعوت تھی 4 اکتوبر شام کو قاضی محمد شفیع نے شیخ چراغ دین کو کھانا دیا۔کھانے پر بیس لوگ مدعو تھے 5

اکتوبر کو ممتاز وکیل نے شیخ صاحب کو کھانا کھلایا.6 اکتوبر شام کو کلب نے شیخ صاحب کو کھانا دیا ۔میں بھی کلب کا ممبر ھو گیا تھا اور کھانے میں شریک ھوا۔7

اکتوبر تین بجے شیخ صاحب کو الوداع کہنے سٹیشن گیا ۔کالج کا سٹاف ، طلباء اور شہر کے لوگ بھی موجود تھے ۔ 8 اکتوبر آدھی چھٹی کے وقت تمام کالج کو ایڈریس کیا

9 اکتوبر نماز جمعہ کے لیے شہر گیا۔ شہر میں سنا ھے ایک ھی مسجد ھے ۔یہ تمام بھر گئی تھی ۔باھر سڑک پر صفیں بچھائی ھوئی تھیں۔میں بھی وھیں بیٹھ گیا ۔شام کو اے ڈی ایم کو ملنے گیا ھوشیار پور کے نیازی پٹھان کیپٹن منظور سے ملاقات ہوئی وہ یہاں ایڈجوٹنٹ لگا ھوا ھے۔ 19

اکتوبر کو لاھور میں ڈی پی آئی سے ملا اس سے کالج کے متعلق بات کی اور کہا کہ سنسکرت کے میرے پاس دو لیکچرر ھیں اور طالب علم صرف ایک ھے۔ وہ کہنے لگا تم مضمون وار لڑکوں کی تعدادِ بھیج دو۔20

اکتوبر کو بیگم سمیت کیمبل پور پہنچا سیدھا اپنی کوٹھی میں گیا اس میں دھونی اور سفیدی ھو چکی تھی ۔ کالج میں مہاویر سے ملاقات ھوئی یہ ٹرنٹی ھال کیمبرج میں میرے ساتھ تھا اب لائل پور سے یہاں آیا ھے۔ 21

اکتوبر کی شام کو ( تولا رام بلڈنگ والے) جنجیرا سکھوں کے ھاں چائے پر گیا تیس کے قریب آدمی ھوں گے۔ کہتے ھیں جنجیرا سکھوں کا باپ چھابڑی لگاتا تھا پہلی جنگ عظیم میں ٹھیکے لئیے اور لکھ پتی ھو گیا دوسری جنگ عظیم میں کروڑ پتی ھو گیا۔ رات کو قاضی شفیع اور چودھری اصغر آ گئے۔ دونوں یہاں وکیل ھیں اصغر صاحب جالندھر کے رھنے والے ھیں عمر بھر یہیں پریکٹس کرتے رہے ۔ان کو فالج کے اثرات ھیں ۔میں نے مالش کے لئے ریچھ کی چربی بھیجی 24 اکتوبر ھاکی ٹیم کو گھر پر چائے پلائی 12 آنے فی پاؤنڈ بسکٹ ملے ۔شام کا کھانا افسر مال کے پاس کھایا

[email protected] | تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

ارشاد ڈیروی کی عَلم توں قَلم تک

منگل فروری 27 , 2024
صوتی ترنگ سے آشنا ارشاد ڈیروی نہ صرف بہترین شاعر ہیں بل کہ ایک اچھے نثر نگار بھی ہیں جن کی نثر نگاری شوقِ مطالعہ کو فروغ دیتی ہے
ارشاد ڈیروی کی عَلم توں قَلم تک

مزید دلچسپ تحریریں