موسیٰؑ نے کہا: اے میرے رب! میرے لئے میرا سینہ کھول دے اور میرے لئے میرا کام آسان کر دے اور میری زبان کی گرہ کھول دے
ہم نے جن ترجیحات کا تعین اگلے کم و بیش 200 سالوں میں کرنا ہے، انہی نے ایک ‘نوع’ کے طور پر ہماری زندگی کی تقدیر کو بنانے یا تباہ کرنے کا فیصلہ کرنا ہے۔
یہ دو فریقین کے درمیان دو بدو خوفناک جنگ ہے جس کو آئین، جمہوریت یا ‘سول بالادستی’ کی جدوجہد نہیں کہا جا سکتا۔
ہم اس ساری غیر یقینی سیاسی صورتحال کا ذمہ دار کس کو ٹھہرائیں، 13 جماعتوں پر مبنی متحدہ حکومت کو یا تحریک انصاف اور تن تنہا عمران خان کو؟
یہ متغیر پزیر علم ہے جس کی جگہ بلآخر کسی روز اس سے کسی بہتر علم نے لے لینی ہے، جبکہ مذہب ایک مستقل اور غیر متبدل علم ہے۔
جمہوریت کی تعریف کے مطابق یہ طرز حکومت عوام سے اور عوام کے لئے ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں تو معاملہ بلکل الٹ ہے۔ بقول اقبال بندوں کو گننا اور تولنا
حکومت اور پی ٹی آئی دونوں کو جھکنے پر مجبور کر دے۔ بصورت دیگر، خدا نہ کرے، ملک کسی بھی ناخوشگوار سانحہ میں داخل ہو سکتا ہے۔
واضح طور پر اگلی وزارت عظمی کی جنگ عمران خان اور موجودہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے درمیان ہے۔
انبیاءؑ کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ چھوٹے سے چھوٹا کام کرنے سے بھی نفرت نہیں کرتے تھے۔
اس نے ابتداء میں ٹیویشن پڑھا کے گزر بسر کرنی شروع کی۔ جب وہ 19 برس کی ہوئی تو اسے ایک امیر خاندان کی 10سالہ بچی کو پڑھانے کا موقعہ ملا