بعض حضرات کی رائے یہ تھی کہ یہ توت چونکہ کامل پور سیداں کے شاہ صاحبان کی ملکیت تھے اس لئے شاہ توت کہلاتے تھے۔
ثقافت
گاؤں کی دکانیں نقدی اور بارٹر سسٹم دونوں بنیادوں پر چلتی تھیں۔ لوگ دکان پر غلہ لے جاتے تھے ۔
چھوئی کا علاقہ ملہو والا سے 2 کلومیٹر جنوب مغرب میں تھا۔ یہ بیری کے درختوں کے لیے مشہور تھا،
لنچ باکس نام کی مشین ان دنوں ایجاد نہیں ہوئی تھی ۔ پرائمری سکول کے بچے آدھی چھٹی کے وقت گھر آکر لنچ کر لیتے ۔
تازہ تازہ یحیٰ خان کا مارشل لا لگا تھا۔ اس کے مطابق بازار کھلنے اور بند ہونے کے اوقات مقرر تھے ۔ جب میں فتح جنگ پہنچا تو
خالو اختر صاحب شکار کے شوقین تھے۔ وہ خرگوش، ہرنی اور کونج کا شکار کرتے تھے۔ ہمارے پڑوس کے دو گاؤں ہرنیاں والا اور ہر نیالی کے ناموں سے اندازہ ہوتا
ملہو والا کے آئین کے مطابق مرغی صرف تین مواقع پر پکانے کی اجازت تھی۔
باجرے کے سٹوں کا اپنا لطف تھا۔ کچا سٹا یا چھلی کی طرح بھونا ہوا سٹا تلی پرمروڑا جاتا ، پھونک مار تے تو بھوسی اڑ جاتی تلی پر دانے رہ جاتے
گندم کٹائی ، گہائی اور بھوسا کھلیان ( کھلواڑے) سے گھر پہنچانے کےلئے زیادہ بندوں کی ضرورت ہوتی تھی۔اس کے لئے مزدور نہیں ملتے تھے
ہمارے گاؤں میں چیبڑ کی کمیابی کی وجہ سے اس کا رواج نہیں تھا ۔پتہ چلا کہ یہ سوغات لاری اڈا فتح جنگ سے ملتی ہے۔