سناھی،سنداری اورسرنائی

سناھی،سنداری اورسرنائی

 بکری کی کھال کی مضبوطی سے سلائی جاتی ہے .اسے منہ سے ہوا سے بھرا جاتا ہے۔ پھر رسی سے ھوا بھرنے والی جگہ کو باندھ دیا جاتا ہے ۔ اس مشک نما چیز کو  اٹک میں سناھی کہتے ھیں ۔ ملتان اور سندھ میں اس کو  سنداری  کہتے ھیں ۔اس کا ذکر خواجہ فرید کے کلام میں بھی ملتا ھے۔

 اس کو دریا پار کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ھے۔ بعض مہم جو اور شوقین جوان انجوائے کرنے کے لئے  موج کرنے کے لئے ۔منہ زور دریائی موجوں اور لہروں میں تیرتے ھیں ۔سناھی کو چھاتی اور پیٹ کے نیچے رکھا جاتا ھے اور بندہ تیرنے کے لئے اپنے ہاتھوں اور ٹانگوں کا استعمال کرتا ھے۔

  800 قبل مسیح کی عراق کی تصویر میں آشوری سپاہی کو سناھی سے تیراکی کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔  قدیم زمانے کے سپاہی پانی رکھنے کے لیے بکریوں کی کھالیں لے جاتے تھے۔ اور بوقت ضرورت اس کو فلوٹیشن ڈیوائس  سناھی  بنا لیتے تھے۔

جالاکشتی (hide float raft) ایک خاص قسم کی کشتی ھوتی ھے جس میں چند لکڑیاں باہم پیوست ہوتی ہیں اور اس کے نیچے ہوا سے مشکیں بھری ہوئی لگی ہوتی ہیں، یہ مشکیں اس جالے کو تیراتی ھیں .جالا کشتی کا استعمال شمالی علاقہ جات میں کیا جاتا ھے۔

سناھی،سنداری اورسرنائی

  1971 کی برسات میں راقم ماموں غفران کے ساتھ ان کے کھیت دیکھنے  کچھی  گیا۔ یہ کھیت دریائے سواں کے کنارے تھے۔ ہم دریا کی موجوں کا نظارہ کر رھے تھے۔ مقامی زبان میں لہروں کو کپر کہتے ہیں۔ کاف پر زبر  ۔ جب دریا تنگ جگہ سے گزرتا ھے یا موڑ مڑتا ھے تو ایسے موقع پر  کپر پڑتے ہیں۔

عام آدمی تو ساحل سے ان کو دیکھ کر ھی خوش ہوتا رھتا ھے ۔ لیکن مہم جو تیراک کپروں پر  جُھوٹے  کھاتے ہیں۔ سناھی پر لہروں کے ساتھ اوپر جاتے ہیں ۔۔نعرے مارتے ہیں اور لہر 🌊 کے ساتھ ہی نیچے آتے ہیں اور اگلی لہر پر سوار ہو جاتے ہیں۔

 ابھی ہم دریا کا تماشا دیکھ رھے تھے کہ قاضی حکمداد ایک اور ساتھی کے ساتھ  آتا دکھائی دیا ۔  دونوں نے لنگوٹے باندھے ہوئے تھے اور اپنی اپنی  سناھی  اٹھا رکھی تھی۔وہ جس جگہ  کپر  دیکھتے دریا میں چھلانگ لگا دیتے تھے اور جہاں دریا پرسکون ہو جاتا باھر نکل آتے اور اگلے کپر کی تلاش میں دریا کے کنارے چلتے رھتے ۔اس طرح پتہ نہیں کتنے کلومیٹر چلے ہوں گے ۔

 ملھوالہ کےحکمداد جودڑا بڑے پکے نمازی تھے اور اپنی دینداری کی وجہ سے قاضی کے نام سے پکارے جاتے تھے۔

  سنداری والا دوسرے بندے کا بازو پکڑ کر اس کو بھی دریا پار کرا دیتا تھا۔اس عمل کو ڈیرہ اسماعیل خان میں موھڈے لاون ( کندھے کے ساتھ لگانا ) کہتے تھے۔ سنداری کو ڈیرہ اسماعیل خان میں  سرنائی بھی کہتے ھیں۔

  دیہاتی پیتل کے برتن ( ولٹوئی) میں دودھ ڈال کر اس کا منہ چمڑے سے بند کر دیتے ۔سنداری والا ولٹوئی کو سنداری کے ساتھ باندھ لیتا اور دریا پار دودھ پہنچا دیتا۔

  1870 میں حکومت نے ڈیرہ اسماعیل خان میں سنداری رکھنے کا لائسنس پانچ آنہ سالانہ کے حساب سے شروع کیا۔اس وقت پانچ ہزار بندوں نے لائسنس بنوایا۔

 ناصر خان ناصر فرماتے ہیں ہمارے ننھیال کا تعلق میلسی کے نزدیک موضع پنہ اور کنڈ پنہ سے تھا۔ کنڈ کا مطلب ہی دریا کا کنارا ہوتا ہے۔ یہ موضع جات ستلج کے کنارے میلسی کے نزدیک ہیں۔ پرانے زمانوں میں ستلج دریا اتنا خشک نہیں ہوتا تھا۔ ہماری نانی اماں اور دیگر خواتین بکری کی کھال کے بنے مشکیزہ کے ساتھ آرام سے دریا پار کرتی رہتی تھیں۔ گاؤں کے پاس کشتیاں لیے ماہی گیر بھی ہوتے تھے مگر ماہی گیر دریا پار کروانے کے پیسے لیا کرتے تھے۔ زیادہ تر لوگ گھڑوں یا بکری کی کھال کے ذریعے ہی دریا پار کیا کرتے تھے۔

  میجر کرافٹ کی راول پنڈی سیٹلمنٹ رپورٹ 1865 کے مطابق اٹک قلعے کے جنوب میں گھوڑامار کے مقام پر مویشی چوری کرنے اور کھتری تاجروں کو اغوا کرنے کا wholesale کاروبار ہوتا تھا۔ ۔ جنڈالی بیلوں، گھوڑوں یا کھتریوں کو پکڑ کر دریا سندھ پر لے جاتے۔پھر انہیں پھولی ہوئی کھالوں (شرنائی / سناہی ) Shurnaees کے ذریعے دریا پار کراتے اور دوسرے کنارے پر ان کو آفریدیوں کے حوالے کر دیتے ۔اود وہ تاوان لے کر کھتریوں اور جانوروں کو چھوڑتے۔

  ,ڈاکٹر ارشد ناشاد صاحب فرماتے ھیں ‘چھچھ اور اٹک کے شمالی علاقوں میں س مبدل بہ ش ہو جاتا ہے اور یہ سرناہی سے شرناہی بن جاتا ہے۔کامرا کے ایک پنجابی شاعر بابا گلاب نے اپنی ایک نظم میں اسے یوں استعمال کیا تھا:

 کوا شہر شریف ڈٹھا جو تردے باجھ شرناہیاں

بابا گلابا کی یہ نظم ہرو River Haro میں طغیانی سے ہونے والی تباہی کے حوالے سے ہے۔ شاعر نے نہایت قدرت کلام کے ساتھ یہ نظم لکھی ہے۔ پنج کٹھہ سے تباہی کا آغاز ہوا اور راستے میں آنے والے مختلف دیہات میں ہونے والی تباہی کو پیش کیا گیا ہے..۔ کوا Kawa ..بولیانوال کے قریب ایک گاؤں ہے جہاں شیر شاہ سوری کے عہد کی ایک چوکی کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ یہ گاؤں ہرو کے کنارے پر ھے ۔وہاں کے رہنے والے اکثر و بیشتر لوگ تیراک ہوتے ہیں۔

  یہاں طنزا انھیں شریف کہا گیا ہے کیونکہ وہ ریل کے تختے جو پانی پر بہتے چلے آتے تھے ان کو پکڑنے کے لیے شرناہیوں کے بغیر ہی پانی میں اتر گئے تھے۔

 نظم بہت سال ہوئے میں نے پنجاب یونیورسٹی کے پنجابی تحقیقی مجلے میں ہرو نامہ کے عنوان سے پہلی بار متعارف کرائی تھی۔ تشبیہ کی ایک عمدہ مثال دیکھیے:

 لوٹیاں گھن ماہلاں ٹریاں جیوں کونجاں بنھنن قطاراں…..( لوٹے لے کر ماھل ( کنویں کی) چلی تو یوں لگا۔۔جیسے مرغابیاں قطار باندھ کر اڑ رھی ھوں )

[email protected] | تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

ماہر تعلیم دانشور اور شاعر محمد بشیر جعفر

منگل جون 20 , 2023
بشیر جعفر صاحب 14 جنوری 1951ء کو تلہ گنگ کے معروف گاؤں تھوہا محترم خان ڈھوک کھوڑ میں پیدا ہوئے
ماہر تعلیم دانشور اور شاعر محمد بشیر جعفر

مزید دلچسپ تحریریں