آوی کوزہ گروں کے کام کی اہم ترین جگہ تھی۔ اس لیے کوزہ گروں کے مکان اور آوی پلاننگ کے تحت گاؤں کے کنارے پر بنائے گئے ۔
تاریخ
دکانوں کو دو چابی والا دیسی تالہ لگاتے تھے ۔ تالے کی دونوں اطراف میں چابی کے لئے سوراخ ہوتا تھا ۔
1970 تک پورے گاؤں میں صرف دس بارہ بیٹھکیں تھیں۔ ان کی حیثیت ڈرائنگ روم سے زیادہ مردان خانے/ حجرے کی تھی ۔
بارش اور سردی کے موسم میں پسار / برانڈے میں بنی ہوئی چلھ استعمال ہوتی چھت پر جانے کے لئے سیڑھیاں بہت کم گھروں میں تھیں ۔
گھر سے جن اور مستری نکالنا دونوں مشکل کام ہیں۔اس میں علما کا اختلاف ہے کہ زیادہ مشکل کام کون سا ہے۔
واپسی پر یہ بدمعاش شغل کے طور پر اپنی ڈانگوں سے لکڑی کے پرانالوں پر وار کرکے ان کو اکھیڑ دیتے ۔
زنجیر فارسی زبان کا لفظ ہے۔ جبکہ کُنڈی ہندی زبان سے ماخوذ ہے۔ لوگ گھروں میں لکڑی کے دروازے استعمال کرتے تھے
ماہل میں رنگین پایوں والے بھاری پلنگ بچھے ہوتے ۔ لمبی دیوار پر لکڑی کی خوبصورت کانس بنی ہوتی تھی جس پر پیتل ، تانبے اور چینی کے برتن رکھے ہوتے ۔
عجیب حسن اتفاق ہے کہ 1927ء سے 1947ء تک کے سارے وقت میں یہاں سارے ہیڈ ماسٹر صاحبان مسلمان ہی رہے۔
یہ دوسری جنگ عظیم کا دور تھا۔ 1943 میں سول ڈیفنس کے عملے نے خندقیں کھودنا شروع کر دیں۔ ہوائی حملے سے بچنے کے لئے سائرن بجائے جاتے تھے۔