یہ قراداد بھی ایک دلچسب مضمون تھا جس میں برسوں پرانے فتح جنگ کی معاشرت کی جھلک ملتی ہے وہیں اس کے مکینوں کی ذہنی اپروچ کے متعلق بھی معلوم ہوتا ہے۔
تاریخ
ہمارے اوّلین مدّرس محترم طالب حسین بھٹی صاحب تھے۔ وہ ہمارے مُرشد اوّل ہیں۔جنہو ں نے ہمیں قلم پکڑنا اور الف، ب اور پ لکھنا سکھایا۔
گودڑ سنگھ نامی سکھ کی طرف سے درخواست دی گیٗ کہ اسکو ٹیکس میں چھوٹ دی جاےٗ۔کہ اس نے سراےٗ لدھا رام کرایہ پر لی ہویٗ ہے۔جس کا کرایہ ڈیڑھ سو روپے سالانہ ہے۔
کالج کے اساتذہ کو برق صاحب کی طرف سے مرزا صاحب کا مذاق اڑانا پسند نہ تھا۔ لیکن سب خاموش تھے۔ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے
مباحثے اور مشاعرے اولڈ ہوسٹل میں ہوا کرتے تھے ۔ کالج کے پاس پانی کی فراہمی کے لئے اپنا کنواں تھا جہاں بیل جوت کر روائیتی طریقے سے پانی حاصل کیا جاتا تھا
کالج میں قدم رکھا ہی تھا کہ انجمن اتحاد طلباء یعنی اسٹوڈنٹس یونین کے الیکشن آگئے ۔ طلباء برادری تین واضح دھڑوں میں بٹ گئی ، چھاچھی گروپ ، قاضی خالد , احسن خان
اس زمانے میں سرگودھا کا معروف بدمعاش اور خوف کی علامت چراغ بالی کیمبل پور جیل میں بند تھا ۔ جیلر نے ملک صاحب کو بتایا کہ چراغ بالی ہمیں بہت تنگ کرتا ہے
اس اسٹیشن کی آخری بار لپائی اور مرمت شاید آخری وائسرائے ہند لارڈ ماونٹ بیٹن نے کروائی ہوگی ورنہ بارش کا پانی دھار باندھ کر ہم پر نہ گرتا
قلعے کے دروازے میں لگی کھڑکی کھولی تو اپنے وقت کی مشھور اور خوفناک رائفل 303 (تھری ناٹ تھری) کی بیرل نے ہمارا استقبال کیا
میں نے ضلع کچہری جاکر مبلغ 10 روپے کا اسٹامپ پیپر خریدا ، میں اور عاشق کلیم ، اپنے وقت کی معروف سواری ، تانگے میں بیٹھ کر ، امیدوار صاحب کے گاؤں پہنچے ۔