زنجیر فارسی زبان کا لفظ ہے۔ جبکہ کُنڈی ہندی زبان سے ماخوذ ہے۔ لوگ گھروں میں لکڑی کے دروازے استعمال کرتے تھے
تاریخ
ماہل میں رنگین پایوں والے بھاری پلنگ بچھے ہوتے ۔ لمبی دیوار پر لکڑی کی خوبصورت کانس بنی ہوتی تھی جس پر پیتل ، تانبے اور چینی کے برتن رکھے ہوتے ۔
عجیب حسن اتفاق ہے کہ 1927ء سے 1947ء تک کے سارے وقت میں یہاں سارے ہیڈ ماسٹر صاحبان مسلمان ہی رہے۔
یہ دوسری جنگ عظیم کا دور تھا۔ 1943 میں سول ڈیفنس کے عملے نے خندقیں کھودنا شروع کر دیں۔ ہوائی حملے سے بچنے کے لئے سائرن بجائے جاتے تھے۔
یہ قراداد بھی ایک دلچسب مضمون تھا جس میں برسوں پرانے فتح جنگ کی معاشرت کی جھلک ملتی ہے وہیں اس کے مکینوں کی ذہنی اپروچ کے متعلق بھی معلوم ہوتا ہے۔
ہمارے اوّلین مدّرس محترم طالب حسین بھٹی صاحب تھے۔ وہ ہمارے مُرشد اوّل ہیں۔جنہو ں نے ہمیں قلم پکڑنا اور الف، ب اور پ لکھنا سکھایا۔
گودڑ سنگھ نامی سکھ کی طرف سے درخواست دی گیٗ کہ اسکو ٹیکس میں چھوٹ دی جاےٗ۔کہ اس نے سراےٗ لدھا رام کرایہ پر لی ہویٗ ہے۔جس کا کرایہ ڈیڑھ سو روپے سالانہ ہے۔
کالج کے اساتذہ کو برق صاحب کی طرف سے مرزا صاحب کا مذاق اڑانا پسند نہ تھا۔ لیکن سب خاموش تھے۔ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے
مباحثے اور مشاعرے اولڈ ہوسٹل میں ہوا کرتے تھے ۔ کالج کے پاس پانی کی فراہمی کے لئے اپنا کنواں تھا جہاں بیل جوت کر روائیتی طریقے سے پانی حاصل کیا جاتا تھا
کالج میں قدم رکھا ہی تھا کہ انجمن اتحاد طلباء یعنی اسٹوڈنٹس یونین کے الیکشن آگئے ۔ طلباء برادری تین واضح دھڑوں میں بٹ گئی ، چھاچھی گروپ ، قاضی خالد , احسن خان