جنگ عظیم ،کیمبل پور اور ٹڈی دل

1942 میں میری والدہ، ڈاکٹر دلجیت کور کو سول اسپتال کیمبل پور میں تعینات کیا گیا تھا (اس زمانے میں سول اسپتال اس جگہ تھا جہاں اب خواتین کا گورنمنٹ کالج ہے) اسپتال میں دو ڈاکٹروں کے گھر تھے، ایک مرد، ایک خاتون۔  یہ کشادہ صحنوں والے بڑے گھر بہت  اچھے بنے ہوئے تھے ، ان کے ساتھ “باغ” بھی  تھے۔ قریب ہی سول سرجن (ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر) کا دفتر تھا۔

ہماری رہائش “چیچک وارڈ” کے قریب تھی۔ چیچک کے مریضوں کے کیس  کبھی کبھار سامنے آتے تھے جن میں سے بیشتر پر صرف مرض کے حملے کا شک ہوتا تھا۔ ہمیں، یعنی خاندان کے بچوں کو ہر سال ٹیکے لگائے جاتے تھے۔

یہ دوسری جنگ عظیم کا دور تھا۔ 1943 میں سول ڈیفنس کے عملے نے خندقیں کھودنا شروع کر دیں۔ ہوائی حملے سے بچنے کے لئے سائرن بجائے جاتے تھے۔ 1943 ہی میں بنگال میں قحط پڑا۔ پنجاب میں بہت سی چیزوں شدید قلت ہو گئی  تھی چنانچہ آٹا اور چینی راشن کے نظام کے تحت ملتے تھے۔ گھریلو استعمال کے لیے بھی شہر میں گندم، مکئی اور چینی کی درآمد پر پابندی لگا دی گئی تھی۔

قحط بنگال 1943 (Photographer:William Vandivert)

 کاغذ کی بھی شدید کمی تھی۔ اس سے اسکول میں مضامین وغیرہ لکھنا مشکل ہو گیا۔ لیکن ریاضی کا مضمون اس کی زد میں اس طرح سے  نہ آیا چونکہ اس زمانے میں اسکول میں “سلیٹ” استعمال کرنے کا رواج تھا۔ ہم “سلیٹ ” پر سلیٹی سے لکھتے تھے  جسے مٹا کر دوبارہ لکھا جا سکتا ہے۔ اردو، دیوناگری، گورمکھی، یا فارسی لکھنے کے لیے، ہم تختی کا استعمال کرتے تھے۔ تختی دفاع کا ایک مفید ہتھیار بھی تھا۔ تختی پر لکھنے کے لیے سرکنڈے کے قلم کے ساتھ سیاہ سیاہی کا استعمال کرتے تھے اور کاغذ پر اردو میں لکھنے کے لیے “زیڈ” نب استعمال ہوتی تھی۔

گوپال پیپر مل کا کاغذ بہت نفیس ہوتا تھا لیکن اس کی سپلائی جنگ کی وجہ سے متاثر ہوئی اور سیاہی بھی کم پڑ گئی ۔ ہم لوگ روایتی طریقوں سے مختلف اجزاء کو ملا کر سیاہی تیار کرتے تھے۔ بازار میں دستیاب صابن بھی نایاب ہوگئے تھے ، ہمارے والدین نے کاسٹک سوڈا اور سرسوں کا تیل ملا کر دیسی صابن تیار کیا، اسی طرح پسے ہوئے کوئلے میں نمک ملا کر ایک سفوف تیار کیا گیا جس سے ہم دانت صاف کرتے تھے اور یوں ٹوتھ پیسٹ کی کمی پوری کی گئی۔

جنگ عظیم ،کیمبل پور اور ٹڈی دل
جنگ عظیم دوم – تصویر از ویکیپیڈیا

میں 7ویں جماعت  میں  تھا جب ہم کیمبل پور گئے۔ اسکول میں ، میں نے ہندی اور سنسکرت کے برعکس فارسی اور اردو زبانوں کا انتخاب کیا جو کہ دوسرا آپشن تھا۔ ہمارے ریاضی کے استاد گاندھی صاحب  تھے۔ اسکول کا نام گورنمنٹ ہائی سکول (موجودہ پائلٹ اسکول) تھا۔ . ہسپتال کے کیمپس اور سکول کے کھیل کے میدان کے درمیان ایک چھوٹا سا برساتی نالہ تھا (بوائز کالج اور پائلٹ اسکول کے درمیان والا نالہ)۔ یہ نالہ عموما خشک ہی رہتا تھا لیکن برسات کے دنوں میں یہ ایک بپھرے ہوئے دریا کی مانند ہو جاتا تھا۔ ان دنوں اسے پار کرنا خطرناک ہوجاتا تھا لھذا ہم اسپتال سے باہر نکل کر سڑک پر آتے اور بڑے ڈاک خانے کی طرف سے جا کر بائیں مڑتے اور وہاں سے سیدھا اسکول کے مرکزی دروازے ( بلدیہ اٹک کے دفتر کے سامنے والا گیٹ) سے اندر جاتے تھے۔

اسکول کے بچے زیادہ تر مسلمان تھے جو آبادی کے تناسب کو ظاہر کرتے تھے۔ مجھے چار مسلمان لڑکے یاد ہیں جو میرے بہت گہرے دوست تھے۔ وہ میرے باقی ہم جماعتوں سے چار سال بڑے تھے۔ ایک بار انہوں نے مجھے اپنے گاؤں ( کامل پور سیداں) میں مدعو بھی  کیا تھا۔

ہمارے ہیڈ ماسٹر سردار سی ایس گل تھے۔ ان کا بیٹا ایئر فورس اسکول چکلالہ میں کیڈٹ تھا۔ ایک دن وہ کیمبل پور اسکول کے اوپر سے بہت نیچی پرواز کرتے گزرا۔ اگلے ہی لمحے ایک دھماکا ہوا اور جہاز غائب ہوگیا۔ بعد میں، ہمیں معلوم ہوا کہ وہ جہاز گر  گیا تھا۔

pilot school
پائیلٹ اسکول

ہمارے اسکول میں اسکاؤٹس تھے۔ ان دنوں سکاؤٹس کی تین قسمیں تھیں۔

بھارت اسکاؤٹس – ہندو اسکولوں میں

مسلم اسکاؤٹس – اسلامیہ اسکولوں میں

بوائے اسکاؤٹس – سرکاری اسکولوں میں۔

بوائے سکاؤٹس کے طور پر، سکھ لڑکےسکھ طرز کی پگڑی پہنتے تھے۔ ہندو اور مسلمان مسلم طرز کی کلہ پگڑی پہنتے تھے۔

پنجاب کے مغربی حصوں میں، ہندو یا تو گول، بھوری ٹوپی، یا مسلم طرز کی پگڑی پہنتے تھے – اسکول کی عام زندگی میں، تمام لڑکے ننگے سر ہوتے تھے۔ سکھ پگڑی باندھتے تھے۔ زیادہ تر لڑکوں نے مغربی پنجاب کی ثقافتی طرز کی  شلوار قمیض پہن رکھی ہوتی  تھی۔ ہم میں سے کچھ نے وسطی پنجابی پاجامہ کرتہ پہنا ہوا ہوتا تھا – جس نے ہمیں فوری طور پر “دوسروں سے الگ” کا لقب دیا۔

کیمبل پور میں برف باری

1943 کے موسم سرما میں ایک بارش ہوئی۔ پھر، میں نے بہت ہی غیر معمولی بات دیکھی.  میں نے دیکھا کہ اوپر بادلوں  میں سے جیسے  روئی گر رہی ہو۔ یہ تھے برف کے گالے ۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ پچاس سالوں میں پہلی بار کیمبل پور میں برف باری ہوئی ہے ۔

کیمبل پور میں ٹڈی دل

1944 میں، ایک وقت ایسا بھی آیا جب بنا بادل چند گھنٹوں کے لیے سورج چھپ گیا اور اندھیرا چھا گیا۔  یہ تھے ٹڈیوں کے جھنڈ، کہتے تھے کہ یہ  افریقی نسل کی ٹڈیاں تھیں، جو بحیرہ عرب کو پار کر کےمغربی ہندوستان میں داخل ہوئیں فصلوں اور درختوں کے پتوں کو تباہ کر دیا۔ کھانے پینے کی اشیاء کی تو ویسے ہی قلت تھی چنانچہ  دیہاتیوں نے انہیں مزے سے بھون کر کھایا۔

1945 کے موسم گرما میں، میری ماں کےتبادلے کا حکم آیا۔ یہ کسی ایک شہر میں اسکول کے تعلیمی دور  کا سب سے طویل عرصہ تھا جو میں نے پہلے اور بعد میں  کبھی نہیں گزارہ تھا اس عرصے میں ، میں نے بہت سے دوست بنائے۔

یہ مضمون جناب ڈاکٹر عبدالسّلام صاحب نے (Memories of 1940s Campbellpore) کے عنوان سے ہمارے انگریزی سیکشن کے لئے انگریزی میں لکھاتھا جو کہ ڈاکٹر جوگیندر آنند صاحب کے مضمون کی تلخیص تھی۔ میں نے اسے اردو کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔

آغا جہانگیر بخاری

Courtesy: India of the Past

www.indiaofthepast.org

بانی مدیر و چیف ایگزیکیٹو | تحریریں

فطرت مری مانند نسیم سحری ہے

رفتار ہے میری کبھی آہستہ کبھی تیز

پہناتا ہوں اطلس کی قبا لالہ و گل کو

کرتا ہوں سر خار کو سوزن کی طرح تیز

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

نماز شب پڑھنے کا طریقہ

جمعہ جولائی 15 , 2022
دین رسولؐ مبین میں اتنا زیادہ مقام عرفان عطا کرنے والی نمازِ شب صرف گیارہ رکعت پر مشتمل ہے جس کا وقت نماز عشاء کے بعد سے صبح کی اذان سے پہلے تک ہے۔
نماز شب پڑھنے کا طریقہ

مزید دلچسپ تحریریں