شاہراہ پہلوی، جی ٹی ایس اور رعایتی کارڈ

شاہراہ پہلوی، جی ٹی ایس اور رعایتی کارڈ

 ہم لوگوں نے 1974 میں ایف ایس سی کی اس وقت رعایتی بس کارڈ دیکھنا / استعمال کرنا یاد نہیں پڑتا ۔ بھٹو صاحب ہی کے دور میں طلباء کو بسوں پر رعایتی کرایے کی سہولت مل گئی تھی اس رعایت سے ہم نے بھی 1975 سے 1981 تک کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کے قیام کے دوران خوب فائدہ اٹھایا ۔آد ہے کرائے میں اٹک سے لاہور پہنچ جاتے تھے۔

 ناناجی کی کاغذات والی صندوقچی میں ماموں عرفان اور غفران کے بس کارڈ نظر آئے تو پرانی یادوں کا دریچہ کھل گیا ۔

شاہراہ پہلوی، جی ٹی ایس اور رعایتی کارڈ

یہ ایک تفصیلی کارڈ تھا اس کے چھ صفحات اور تین پرت تھے ۔پہلے صفحے پر لکھا ہے

 شناخت نامہ طالب علم۔  پھر کالج کا لوگو بنا ہوا ہے اور نیچے لکھا ہوا ہے ، گورنمنٹ کالج کیمبلپور

 دوسرے صفحے پر دو تصدیقات ہیں

دستخط مع مہر ،نمائندہ پنجاب روڈ ٹرانسپورٹ بورڈ،یہ گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس GTS کی طرف سے تصدیق ہے ۔یہ مہر 1976 کی لگی ہوئی ہے اور مہر کنندہ ڈسٹرکٹ مینیجر LOS (Local Omnibus Service)ہیں۔ اور اس کے نیچے دستخط مع مہر ،نمائندہ روڈ ٹرانسپورٹ فیڈریشن ۔ یہ پرائیویٹ بسوں میں سفر کرنے کی تصدیق تھی ۔ یعنی کام بہت  پکا کیا ہوا تھا مہر کنندہ ہیں

Pakistan Motor Transport Federation

25. Shahrah-e-Pehlvi Rawlpindi

تیسرے صفحے پر طالب علم کے کوائف لکھے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ یہ تیس اپریل 1978 تک کار آمد ہے۔

چوتھے صفحے پر طالب علم کی تصویر  ہے

پانچویں صفحے پر صرف ایک لائن لکھی ہے ،لقمان آرٹ پریس  کیمبلپور۔

چھٹے صفحے پر  طالب علموں کیلئے رعایت   کے عنوان سے لمبی چوڑی تفصیلات ہیں۔

1- اومنی بس میں تعلیمی اداروں میں آنے جانے کیلئے رعایتی کارڈ دکھانے پر طلباء اور طالبات سے یکطرفہ کرایہ  دس پیسے  لیا جائے گا۔

2-سرکاری اور نجی بسوں میں بین الاضلاعی سفر کیلئے عام شرح کا نصف کرایہ وصول کیا جائے گا ۔یہ رعایت تمام دنوں کے تمام اوقات کیلئے ہے۔

3- کسی طالب علم کو اس کی نشست سے اٹھایا نہیں جائے گا ۔بہر حال طالب علموں سے امید ہے کہ عورتوں اور ضعیفوں کیلئے جگہ چھوڑ دیں گے۔

4- کسی طالب علم کو رعایت کے متعلق شکایت ہو تو ضلعی مجسٹریٹ ( ضلع کچہری) سے رجوع کرے ۔

  اب یہ کارڈ تاریخ کا حصہ بن گیا ہے ۔۔کیمبلپور کا نام 1978 میں اٹک بن گیا۔ شاہراہ پہلوی پرانے زمانے میں مری جاتی تھی اور اس نسبت سے مری روڈ کہلاتی تھی۔ سنا ہے جب اس کا نام شاہراہ پہلوی رکھا گیا تو اس نے احتجاج کے طور پر مری جانے سے انکار کردیا بس خاموشی سے لیٹی رہتی تھی سوتی رہتی تھی . 1979 میں ایران میں انقلاب آیا تو اس کے شور رستاخیز سے اس کی آنکھ بھی کھل گئی اور یہ مری کی طرف دوبارہ رواں دواں ہو گئی۔اومنی بس سروس اور گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس کو سنا ہے کہ باڑ کھا گئی ۔اب لاھور اچھرہ میں اس کی یادگار ایل او ایس بس سٹاپ کے طور پر موجود ہے  ۔

[email protected] | تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

کیفی ؔ اعظمی اور بہرائچ

اتوار جنوری 14 , 2024
ہندو نیپال سرحد پرکوہستان ہمالیہ کی مینوسوادوادی میں آباد ایک چھوٹا سا ضلع بہرائچ علاقہ اودھ کا ایک تاریخی علاقہ ہے
کیفی ؔ اعظمی اور بہرائچ

مزید دلچسپ تحریریں