قارئین کرام کی بے حد ممنون ہوں جنہوں نے پہلے مضمون پر حوصلہ افزائی کرتے ہوئے تاریخ سے اپنی دلچسپی کا اظہار کیا۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے آج قلعہ اٹک کے متعلق چند قیمتی معلومات آپ کے حوالے کرتی چلوں۔ جیسا کے اٹک قلعہ کی کچھ تاریخ پہلے مضمون میں بیان کی جا چُکی ہے جسے پڑھ کر یقیناٌ قلعہ کے بارے میں مزید جاننے کا اشتیاق پیدا ہوتا ہے۔ آج کی یہ تحریراسی تشنگی کو مٹانے کی معموم سی ایک کوشش ہے۔ قلعہ کی تعمیر میں دو سال اور دو ماہ کا وقت لگا ۔لاہوری دروازے پر قلعہ کی بنیاد رکھنے کی افتتاحی تختی لگی ہوئی ہے لیکن اسے دیکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی جگہ پہلے کوئی اور تھی۔
اٹک قلعہ میں تعمیر فن کا ایک بہترین نمونہ دیواروں کی تعمیر ہے۔ دیواریں تقریباً ایک میل سے زیادہ گولائی میں ہیں۔
ان کے اندر ساتھ ساتھ ایک راہداری تعمیر کی گئی ہے جس کے نیچے لاتعداد گارڈ رومز ہیں ۔ اسی طرح کے گاارڈ رومز میناروں کے نیچے بھی موجود ہیں۔ دہلی گیٹ کے پاس ایک بڑا گاڑڈ روم موجود ہے جو قیام پاکستان سے پہلے تک کوارٹر گارڈ کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے۔
مغل حمام میں داخلے کا راستہ دہلی گیٹ کے نزدیک ہے جس سے متصل کمرے تعمیر کئے گئے ہیں۔
ان کمروں کی دیواروں میں ایسی جگہ دیکھی جا سکتی ہے جہاں گرم پانی تیار ہوتا تھا۔
اسلحہ خانہ 1857 میں بنایا گیا تھا جو کہ پرانے لاہوری دروازے کی جگہ پر تھا۔
دہلی دروازے کے اندر سے گزرتے ہوئے قلعہ کے نیچے والے حصے میں داخل ہوا جا سکتا ہے،
پھر یہاں سے نئے لاہوری دروازے کو سڑک نکلتی ہے۔
سڑک کی دوسری شاخ جرنیلی سڑک (جی ٹی روڈ) کا حصہ تھی۔
یہ ملاحی ٹولہ دروازے کی طرف جاتی ہے۔
ملاحی ٹولہ اور خیرآباد کے درمیان دریا کا جو حصہ ہے اس کو عبور کرنا مشکل ہے کیونکہ یہاں دریائے کابل اور سندھ کے ملاپ سے بھنور پیدا ہوتا ہے، اس ملاپ سے نیچے داہنے کنارے پر دو چٹانیں کمالیہ اور جلالیہ کے نام سے موجود ہیں جو دریا کے اندر تک گئی ہوئی ہیں جن کی وجہ سے یہ راستہ مزید خطرناک ہو جاتا ہے۔
کمالیہ بلکل قلعہ کے پانی والے دروازے کے مخالف ہے اور جلالیہ چند سو گز پر نیچے کی طرف ہے۔
1883 میں اٹک خُرد کے پُل کی تعمیرسے پہلے دریائے سندھ کو پار کرنے کے لیئے سرائے تا خیرآباد کشتیوں کا ایک پل تھا اس پل کے ستون ابھی بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ سرائے ایک محفوظ مقبرے کی قسم ہے جو مغل بادشاہ جہانگیر کے عہد میں تعمیر کی گئی تھی۔
اٹک قلعہ کے گردو نواح میں خوبصورت ترین مقامات میں سے ایک مقام باغ نیلاب ہے جہاں جہاں دریائے ہرو سندھ میں شامل ہوتا ہے۔ پانی کے پھیلاؤ اور کالا چٹا کی سر سبز پہاڑیاں جن کی بلندی 3800 فٹ ہے، اس علاقے کی خوبصورتی میں خاطر خواہ اضافہ کرتی ہیں۔
اکبر بادشاہ کے فرزند ارجمند شہنشاہ جہانگیر نے اپنے دور حکومت میں تین بار قلعہ اٹک میں وردو کیا، پہلی مرتبہ 1016 ہجری میں کابل جاتے ہوئے جس کا زکر تزک جہانگیری میں کچھ یوں ہے “17 محرم کو میں نے دریائے نیلاب کے کنارے قیام کیا”.
دوسری بار کابل سے واپسی پر اور تیسری مرتبہ 1626 میں کابل جاتے ہوئے قیام کیا۔ سب سے دل کی اتھاہ گہرائیوں میں جا کر اثر کرنے والی جگہوں میں بلند قلعہ، پرانی سرائے اور وہ جگہ جہاں پہاڑ اور دریائے سندھ ملتے ہیں غروب و طلوع آفتاب خوبصورت نظارہ پیش کرتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی “اٹک قلعہ” کے متعلق دلچسپ معلومات پر یہ مضمون تمام ہوا۔ اس کےبعد ہمارا اگلا موضوع تحصیل اٹک کو تحصیل فتح جنگ سے ملانے والے انتہائی خوبصورت مقام “کالا چٹا” پہاڑ پر ہوگا انشاءاللہ۔ آپ تمام احباب کی حوصلہ افزائی کے پیش نظر ضلع اٹک کی تاریخی اور سیاحتی مقامات کی سیر جاری رہے گی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
One thought on “اٹک قلعہ”
Comments are closed.