کھیری مورت ، کالا چٹا اور مکھڈ کے پہاڑوں میں اڑیال wild sheepہوتا ہے یہ مینڈھے سے ملتا جلتا ہے
فتح جنگ
کاتک سے پھاگن تک جاڑا پڑتا ہے پوہ میں ٹھندی ہوا چلتی ہے ۔صبح کے وقت بڑی ٹھر (سردی) پڑتی ہے ۔چیت کے مہینے میں موسم خوش گوار
ہیمٹ مسجد غفران قاضی کے گھر کے قریب مسجد ہے۔ مسلمانوں کی آبادی کم ہے۔ بہت سے لوگوں کے پاس اس کی چابیاں ہیں
گھر سے جن اور مستری نکالنا دونوں مشکل کام ہیں۔اس میں علما کا اختلاف ہے کہ زیادہ مشکل کام کون سا ہے۔
چھوئی کا علاقہ ملہو والا سے 2 کلومیٹر جنوب مغرب میں تھا۔ یہ بیری کے درختوں کے لیے مشہور تھا،
خالد مصطفیٰ کا اصل نام خالد محمود ہے جب کہ قلمی نام خالد مصطفیٰ ہے جو آپ کے دادا غلام مصطفیٰ کی نسبت سے انھوں نے اختیار کیا ۔
تازہ تازہ یحیٰ خان کا مارشل لا لگا تھا۔ اس کے مطابق بازار کھلنے اور بند ہونے کے اوقات مقرر تھے ۔ جب میں فتح جنگ پہنچا تو
خالو اختر صاحب شکار کے شوقین تھے۔ وہ خرگوش، ہرنی اور کونج کا شکار کرتے تھے۔ ہمارے پڑوس کے دو گاؤں ہرنیاں والا اور ہر نیالی کے ناموں سے اندازہ ہوتا
عجیب حسن اتفاق ہے کہ 1927ء سے 1947ء تک کے سارے وقت میں یہاں سارے ہیڈ ماسٹر صاحبان مسلمان ہی رہے۔
یہ قراداد بھی ایک دلچسب مضمون تھا جس میں برسوں پرانے فتح جنگ کی معاشرت کی جھلک ملتی ہے وہیں اس کے مکینوں کی ذہنی اپروچ کے متعلق بھی معلوم ہوتا ہے۔