مرشدِ دشت کا طالب
تبصرہ نگار : سید حبدار قائم
ہے یاد مجھے نکتہ سلمانِ خوش آہنگ
دنیا نہیں مردانِ جفاکش کے لیے تنگ
چیتے کا جگر چاہیے، شاہیں کا تجسس
جی سکتے ہیں بے روشنیِ دانش و فرہنگ
الہام پر الفاظ کی برسات اور اس کی صوتی ترنگ اشعار کو جب مہمیز کرتی ہے تو قاری کے وجدان اور فکر و نظر پر گہرا اثر پڑتا ہے شعر چند الفاظ کا باوزن ہونا ہی نہیں ہے بل کہ یہ ایک قلبی واردات کا نام ہے جو قلب و روح کی امتزاجی کیفیت سے جنم لیتا ہے جو بامقصد آفاقی پیغام ہوتا ہے شاعر انسانی بیگاڑ کو درست کرنے کے لیے شعر کہتا ہے ایک اچھا شعر دل پر اثر کرتا ہے
مطلوب حسین طالب نے الہام اور جہد مسلسل سے اشعار کشید کیے ہیں جو الہام پر برسنے والی خدا کی عطا ہے
انہوں نے حیات کی تلخی سے لطف اٹھا کر درد کو شکست دی ہے جو ساری زندگی درد کے سامنے چٹان بن کر کھڑے رہے ہیں کبھی یہ درد والدین کی موت بن کر سامنے آیا تو کبھی یہ درد فالج کی صورت میں آ کر لڑا کبھی یہ درد معاشی مسائل کی گھٹن کی صورت میں آیا اور کبھی یہ درد اپنوں کی بے وفائ کی صورت میں سامنے آیا لیکن درد ہمیشہ شکست کھاتا رہا اور مطلوب حسین طالب جیت کر اس سے لطف و رعنائ کشید کرتے رہے یہی لطف وہ قرطاس پر اشعار کی صورت میں منتقل کرتے رہے جو ان کی پہچان بن گیا اور ان کا نام شعر کی صورت میں ہمیشہ زندہ ہو گیا یہی آب حیات کا جام ہے جو انہوں نے پی لیا ہے
مطلوب حسین طالب سے میری ملاقات سوشل میڈیا پر ہوئی سوشل میڈیا پر مطلوب حسین طالب نے میری کئی انعات پر کومنٹ کیا تو میں نے ان کا شکریہ ادا دیا انہوں نے مجھ سے میرا فون نمبر مانگا تو انہیں میں نے فون نمبر دیا جب وہ مجھے کال کرتے تھے مجھے ان سے بات کرنے سے تھوڑی سی دقت محسوس ہوتی تھی کیونکہ جب وہ بات کرتے تھے تو اس وقت ان کی زبان ہکلاہٹ کا شکار ہو جاتی تھی جس سے مجھے ان کے الفاظ سمجھ نہیں آتے تھے چونکہ ان کو فالج کا عارضہ تھا اور وہ بات صحیح طرح نہیں کر سکتے تھے اس چیز کا مجھ پر بہت گہرا اثر پڑتا تھا اور میں دکھی ہو جاتا تھا کیونکہ وہ فون کر کے بات نہیں کر سکتے تھے پھر بھی میں ان سے بات کرنے کی کوشش کرتا تھا لیکن وہ زبان گرفتہ تھے اور بات زیادہ دیر نہیں کر پاتے تھے شاعری کی وجہ سے ہی انہوں نے مجھ سے روابط قائم کیے
میں نے سوشل میڈیا کے بعد کتاب ھذا میں ان کی شاعری پڑھی ہے جو ان کے کلام کو جمع کر کے ندیم صاحب کتابی صورت دے رہے ہیں اس مجموعہ ء غزل میں ان کے بہت ہی اچھے اشعار پڑھنے کو ملے ہیں مجھے یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی کہ مطلوب حسین طالب کی شاعری میں بلاغت بھی ہے سلاست بھی ہے وارفتگی سے وہ جتنے شعر لکھتے ہیں وہ سہل ممتنع کا بہت عمدہ شاہکار ہوتے ہیں ان کی شاعری پڑھتے وقت مجھے محسوس ہوا کہ وہ شعر بہت سلیقے سے کہتے ہیں
کئی بار میں نے دیکھا ہے کہ وہ جب شعر کہتے ہیں تو شعر میں ان کا اپنا درد جھلکتا ہے اسی درد سے ایک نئ لذت کشید کر کے شعر میں ایک نیا رنگ بھر دیتے ییں انہوں نے نہ صرف اپنے بل کہ معاشرے کے درد بھی شاعری میں منتقل کر دیے ہیں اور اس درد کی کیفیت کو ہر کوئی سمجھ سکتا ہے ان کی شاعری میں معاشرے کا کرب ہے غریب لوگوں کا درد ہے مظلوم لوگوں کی سسکیاں اور آہیں ہیں ایسے لوگ جو اللہ تعالی کے دیے گۓ کسی امتحان کی زد میں ہوتے ہیں انہیں مطلوب حسین طالب حوصلہ دیتے ہیں اس وجہ سے وہ جب شعر کہتے ہیں تو ان کے شعر میں معاشرے کی جھلک نظر آتی ہے مطلوب حسین طالب کی شاعری میں درد کی کیفیت پائ جاتی ہے وہ جو لکھتے ہیں وہ درد نہ صرف معاشرے کا بل کہ ان کی اپنی ذات کا درد ہے معاشرے کی سسکیاں سمیٹ کر وہ شعر لکھتے ہیں ان کی شاعری میں ہجر بھی ہے اور وصال بھی ہے ان کی شاعری میں باغ بلبل پھول اور کائنات کے حسن و جمال کی جگہ حیات کی تلخی ہے ان کی شاعری ایسی شاعری ہے کہ جسے پڑھ کر انسان بور نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کو ایک عجیب سی طمانیت محسوس ہوتی ہے کیوں کہ ان کا جمالیاتی حسن اشعار میں ٹپکتا ہے ایسے شاعر کے لیے تقریظ لکھنا میرے لیے فخر کی بات ہے کیونکہ مطلوب حسین طالب ہمارے اٹک کا فخر تھے اور فخر رہیں گے کیونکہ انہوں نے کسی کی محتاجی کو برداشت نہیں کیا بلکہ وہ ہمیشہ ڈٹ کر کھڑے رہے اور انہوں نے اپنی تکالیف کو اپنے سخن کے بیچ میں آڑے نہیں آنے دیا اور انہوں نے زندگی کا سرکٹ چلانے کے لیے ملازمت کی ہے وہ جی پی او اٹک میں کام کرتے رہے ہیں روزانہ سفر کر کے آنا اور جانا ان کا معمول تھا وہ درد سے لڑتے رہے اپنی تکالیف سے لڑتے رہے لیکن انہوں نے اپنے ہاتھ کسی کے آگے نہیں پھیلائے بلکہ حلال رزق اپنے بچوں کے لیے کمایا ہے اپنے خاندان کے لیے کمایا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سخن وری کا خوب صورت سفر طے کرتے رہے ہیں جس میں ان کے اساتذہ نے ان کی بھرپور مدد کی ہے جس کی وجہ سے وہ بہت اچھا شعر کہنے لگے اور کئی مشاعروں میں انہوں نے شرکت کی ہے
فتح جنگ کی دھرتی علم و ادب کی وجہ سے بہت زرخیز ہے اور اس میں کئی ایسے شاعر اور ادیب پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے ملکی سطح پر اپنی پہچان کرائی اور اپنی دھرتی کا نام روشن کیا اسی دھرتی کے اوپر مطلوب حسین طالب بھی آۓ اور انہوں نے اپنا لوہا منوایا ان کی شاعری اور ان کی ادب کے ساتھ وابستگی ان کے شعور کو بلند تر مقام پر لے گئ مجھے یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ مطلوب حسین طالب نے اپنے شعر کی وجہ سے اپنی پہچان بنائی ہے اور ان کا حلقہ احباب نہ صرف فتح جنگ تک محدود تھا بل کہ راولپنڈی اور اٹک میں دور دور تک ان کا شہرہ تھا اٹک کے کئی مشاعروں میں ان کو مدعو کیا گیا ہے بعد میں جب ان کی زبان اور جسم پر فالج کا اٹیک ہوا تو اس وقت ان کی زبان میں ہکلاہٹ پیدا ہو گئی اور وہ شعر کہنے سے معذور ہو گئے اس پریشانی کے ساتھ بھی مطلوب حسین طالب سوشل میڈیا پر متحرک رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر انہوں نے کافی لوگوں کے ساتھ تعلقات بھی بنائے سوشل میڈیا پر لوگ جتنی نگارشات لگاتے تھے ان پر آپ داد دیتے تھے اور کسی معاملے میں کنجوسی نہیں کرتے تھے مجھے مطلوب حسین طالب صاحب نے نعتوں پر کئی دفعہ بہت داد دی ہے اور مجھ سے بات کرنے کی بھی کوشش کی ہے لیکن بیچ میں ان کی مجبوری آڑے آگئی میں ان سے ذاتی طور پر ایک بار ہی ملاقات کر سکا مجھے ایسے افراد پر خوشی ہوتی ہے اور فخر محسوس ہوتا ہے کہ جو اپنی پریشانیوں اور اپنی تکالیف کو شکست دیتے ہیں مطلوب حسین طالب نے بہت جرات کا مظاہرہ کیا ہے اور اپنی تمام تکالیف کو شکست دے کر انہوں نے اپنا نام پیدا کیا ہے یہ ان کا دوسرا شعری مجموعہ ہے جو کہ شائع ہونے کے لیے بے تاب ہے اور شائع ہونے جا رہا ہے مطلوب صاحب کا جتنا حلقہء احباب ہے ان کو یہ شعری مجموعہ پسند آئے گا مجھے اس وقت بہت خوشی ہوئی ہے جب مجھے حاجی داؤد تابش صاحب نے اس پر تقریظ لکھنے کے لیے کہا میں نے کہا کہ میں اس قابل تو نہیں ہوں کہ مطلوب حسین طالب جیسے عظیم شخص کے لیے لکھ سکوں لیکن پھر بھی میرا یہ حق بنتا ہے کہ اپنے چند الفاظ ان کی شاعری پر لکھ دوں تاکہ میرے الفاظ بھی گواہی دیں کہ مطلوب حسین طالب کی خدمات کیا ہیں؟
عقیل ملک صاحب اور داؤد تابش صاحب دونوں ایسے افراد ہیں کہ جنہوں نے ان کی شاعری کو دیکھا پرکھا اور اس کی کمپوزنگ میں جو غلطیاں سرزد ہوئیں وہ درست کی ہیں اور ان کے کلام کو کتاب کی صورت میں یکجا کیا ہے اب ان شاءاللہ العزیز جلد ہی یہ کتاب منصہ ء شہود پر آ جائے گی اور اس میں جتنے اشعار یا غزلیں لکھی گئی ہیں ان کو اگر پڑھیں تو مطلوب حسین طالب کی بالیدگی ء افکار سامنے آ جاتی ہے ماشاءاللہ انہوں نے بہت اچھی کتاب لکھی ہے ان کے شعر میں ندرت بھی ہے اور چاشنی بھی ہے ان کے اشعار بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ جہان علم و قلم میں جلوہ افروز ہو رہے ہیں جو ادب شناس لوگوں کو لطف دیں گے ان کی شاعری میں میں نے خصوصا یہ دیکھا ہے کہ جب آپ شعر کہتے ہیں تو اس میں نئے نئے ردیف استعمال کرتے ہیں ایسے نئے نئے ردیف دیکھ کر میرا بھی من چاہتا ہے کہ میں بھی یہی ردیف لے کر اپنی شاعری میں خوب صورتی لاؤں اور چاشنی پیدا کروں مطلوب حسین طالب کے طرح مصرع پر کلام لکھ کر میں فخر محسوس کروں گا ان شاءاللہ العزیز میں ماضی قریب میں ان کے طرح مصرع استعمال کروں گا اور اپنے شعری مجموعوں میں شامل کروں گا تاکہ مطلوب حسین طالب کا فن میری کتابوں میں بھی زندہ رہے اور بہت سارے لوگوں تک پہنچتا رہے بہرحال مجھے ان کی شاعری مہک افروز نظر آئی ہے اور اس مہک کو میں ختم نہیں ہونے دوں گا اور ان کے طرح مصرع اپنی شاعری میں استعمال کروں گا اور مجھے بہت خوشی ہوگی مطلوب حسین طالب کا طرح مصرع استعمال کر کے میں پوری دنیا کو بتاؤں گا کہ ہمارے اٹک میں ایسے قابل فخر شعرا پیدا ہوئے ہیں مطلوب حسین طالب کے بھائی ندیم صاحب میرے پاس آئے ہیں انہوں نے مجھ سے کتب بھی اپنی لائبریری کے لیے لی ہیں میں نے ان کو کتب پیش کی ہیں انہوں نے مطلوب حسین طالب کا وہ درد اور پیغام تمام دنیا تک پہنچایا ہے اور ان کا شعر و سخن دنیا تک پہنچانے کے لیے ان کی کتابیں شائع کی ہیں اور ان کا نام ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا ہے ویسے تو مطلوب صاحب نے اپنے دور میں ہی اپنا نام زندہ کر لیا تھا کئی رسائل اور اخبارات میں کلام شائع ہونے کی وجہ سے بھی ان کا نام زندہ رہتا لیکن جو کوشش ندیم صاحب نے کی ہے اور ان کے ساتھ حاجی داؤد تابش اور عقیل ملک نےکی ہے یہ میرے لیے فخر کی بات ہے کیونکہ وہ ایسے افراد ہیں کہ جن کا علم و ادب کے ساتھ گہرا تعلق ہے اور ساری دنیا ان کی ادب پروری کو جانتی ہے فتح جنگ میں حاجی داؤد تابش صاحب نعت کا بہت بڑا اور معتبر نام ہے ان کی بہت ساری کتابیں آ چکی ہیں اور ان شاءاللہ العزیز مستقبل میں بھی آتی رہیں گی ان کا نام پڑھتے ہوئے مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے وہ ادبی مجلے "میرے لفظ” کے مدیر اعلی بھی ہیں جس کی گونج بہت دور دور تک ہے اور اس مجلے میں بہت بڑی بڑی شخصیات کا کلام ہوتا ہے پی ایچ ڈی ڈاکٹرز اور اساتذہ اس ادبی جریدے میں لکھتے ہیں تو مجھے یہ کہتے ہوئے بڑی خوشی محسوس ہوتی ہے کہ ہمارے اٹک کی سرزمین پر ایسے پھول اگے ہیں جن کی خوشبو پوری دنیا میں پھیل رہی ہے مطلوب حسین طالب انہی چند خوش نصیبوں میں سے ایک ہیں جن کی خوشبو رہتی دنیا تک قائم رہے گی
کتاب ھذا میں مطلوب حسین طالب نے جو خوبصورت ردیف استعمال کی ہیں ان میں:
نعت ہوتی ہے، منگتوں میں، تھے، سے، نہیں ہے، کے روپ میں، کی طرح ہوں، شیشے کا ہے، سے فائدہ، تو ہوئی، جاۓ، ہوگۓ تھے، نہیں گرتا، ہوں، دیکھا نہ جاۓ، کے لیے، کی طرح، بنتی گئی، آتا ہے، والا، رہے ہیں، سے مجھے، ہے خدا جانے، کے کیا کریں، لگے مجھے، بیٹھے ہیں، کیا پوچھتے ہو دوستو، کر دیکھتے ہو دور سے، دو ہم کو، ملے، ہوتی ہے، نہیں میں، ایسا کبھی سوچا نہ تھا، کی، ملتا نہیں، ہے موت کی دہلیز پر، ایسا تھا، میرے، نہیں ہوتا، ہونا چاہیے، بٹھا دیا، ہوں گے، ہے، رہے ہیں، کی، سے، رہا ہوں میں، ہو گئے، تھامے ہوئے، موجود ہے۔ شامل ہیں
ردیف کو نبھانا مشکل کام ہے لیکن مطلوب حسین طالب نے انہیں جس طرح نبھایا ہے اس نے خیال سخن پر ایک خوشکن تاثر چھوڑا ہے جس کے لیے وہ داد کے مستحق ہیں
آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق و وارفتگی بھی ان کا خاصہ ہے وہ جب نعت رقم کرتے ہیں تو ان کے جذبات و احساسات یہی محسوس کرتے ہیں کہ:۔
اگرچہ کہہ چکا ہوں نعت آقا اس سے پہلے بھی
مگر ہر مرتبہ لگتا ہے پہلی نعت ہوتی ہے
جب سلام کی بات آتی ہے تو ان کا کلام قاری کو رونے پر مجبور کر دیتا ہے اس شعر میں صنعت تلمیح استعمال کر کے کربلا کی جنگ کو ایک مصرع میں بند کر دیا ہے ملاحظہ کیجیے:۔
کس طرح نو میل چل کر کوفے تک عابد گئے ایک تو بیمار تھے اور پاؤں میں زنجیر تھے
اپنی محرومیوں کا ذکر کرتے ہوۓ کچھ اس طرح کہتے ہیں:۔
کچھ اس لیے احباب میں معیار نہیں ہے حاصل مجھے شیرینی ء گفتار نہیں ہے
معاشرے کے رویے انسان کو کرچی کرچی کر دیتے ہیں کیونکہ دنیا والے خود عمل کرتے نہیں ہیں لیکن دوسروں کو سمجھاتے نظر آتے ہیں لیکن مطلوب حسین طالب معاشرے کا یہ گھناونا روپ پہچان لیتے ہیں اور اس کو شعر کے دھنک رنگ میں یوں ڈھالتے ہیں:۔
جو اپاہج گھومتے تھے شہر کی گلیوں میں روز
پاس میرے آگئے ہیں اک عصا کے روپ میں
ہمارا معاشرہ حسد اور کینے سے بھرا پڑا ہے کسی کا گھر جلنے پر ہنستے ہیں اور جب اجڑا ہوا وہی شخص سامنے آتا ہے تو ساتھ رونا شروع کر دیتے ہیں ایسے کرداروں کی پہچان اور فعل شعر میں یوں بیان کرتے ہیں:۔
میری بربادی پہ جن کے قہقہے تھمتے نہ تھے دیکھے تو آگئے ہیں آشنا کے روپ میں
اپنی سسکیوں اور آہوں کو شعر کے سینا پر یوں پیوست کرتے ہیں:۔
وہ جس کا جواں سال پسر ہو گیا رخصت اس روتی سسکتی ہوئی مادر کی طرح ہوں
مطلوب حسین طالب کا حسن تخیل انہیں دوسرے شعرا سے ممتاز کرتا ہے ان کا رعنائ ء خیال دل کو چھوتا ہوا ذہن کی زنبیل میں میں اتر جاتا ہے قاری پڑھتا جاتا ہے اور حسن تخیل میں ڈوبتا جاتا ہے ان کے نگار خانہ ء شعر میں سلاست سے لبریز دھنگ رنگ مندرجہ ذیل اشعار میں ملاحظہ کیجیے:۔
تنکے بکھریں گے مگر جلنے نہ پائے گا کبھی برق آئے گی تو میرا آشیاں شیشے کا ہے
جب زیست ظلمتوں کی بسر ہو گئی تو اب مرکز پہ آ کے دیپ جلانے سے فائدہ
اب جو طالب ہے گرد رہ ان کی
یعنی اب خاک کیمیا تو ہوئی
جس کے آنے سے غلامی کا ہے سورج ڈوبا کیسے اس ذات کا احسان بھلایا جائے
لکھ گئے حسن پر جو قصیدے
لوگ وہ بھی ادیب ہو گئے تھے
جی کر نہیں گرتا کبھی مر کر نہیں گرتا
سر سے میرے افلاس کا خنجر نہیں گرتا
یا رب سر مسلم کو یہ اعزاز مبارک
کٹ جائے تو کٹ جائے یہ جھک کر نہیں گرتا
باطل ہے عدو میرا تو میں سینہ سپر ہوں میں ظلم کی اس رات میں امید سحر ہوں
حق کو حق باطل کو باطل آج میں نے کہہ دیا
جھوٹ کیوں آئے لبوں پر سر بچانے کے لیے
مطلوب حسین طالب ہمیشہ راہنما کی صورت میں راہزن، درد بٹانے والے کی صورت میں درد دینے والا، خلوص کے پیکر لگنے والے کو بے اعتنا دیکھ کر دکھی ہو جاتے ہیں بھرتے ہوۓ زخم پھر ہرے دیکھ کر اپنا خون جگر اشعار کی کونپلوں پر چھڑک کر ایسے مہک افروز پھول کھلا دیتے ہیں:۔
جو خود بھٹکتا رہا دن میں پاگلوں کی طرح
وہ اجنبی مجھے ملتا ہے راہبروں کی طرح
چھوڑ جاتا ہے ساتھ سایہ بھی
جب کسی پر زوال آتا ہے
لے گیا لوٹ کے وہ زیست کی ہر ایک خوشی یعنی دن رات میرے درد بٹانے والا
بس وہ ایک شخص ہی طالب تھا بھری دنیا میں
مجھ کو ہر گام پہ گرنے سے بچانے والا
چھڑا لے آ کے کوئی ایسے رہبروں سے مجھے جو آشنا نہیں کرتے ہیں راستوں سے مجھے
پگھل جاتے ہیں پتھر داستان سن کر
ترا دل کیسا پتھر ہے خدا جانے
چہرے جو خلوص کے پیکر لگے مجھے
رہزن تھے راہ رو تھے جو راہبر لگے مجھے
میرا تبصرہ طوالت کی راہوں پر گامزن ہے مطلوب حسین طالب کے ایسے بہت سارے اشعار ہیں جن پر بحث کی جا سکتی ہے کئ اشعار میں مختلف صنعتیں استعمال ہوئ ہیں جیسے صنعت تکرار صنعت تلمیںح وغیرہ جن کا ذکر مزید طوالت کا باعث بنے گا ہم یہاں کچھ اشعار قارئین کی سماعتوں کی نذر کرتے ہیں جن پر قارئین کی راۓ کا انتظار کریں گے کیوں کہ مطلوب حسین طالب کے فکر و نظر کی گلرنگ برساتیں جب قلم کی نوک پر برستی ہیں تو ایسے ایسے فرخندہ بخت اشعار موتیوں کی طرح کاغذ کی زرخیز زمین پر بکھرتے چلے جاتے ہیں کہ جن کا نور دل و روح کی کائنات کے حسن کو دوبالا کر دیتا ہے مطلوب حسین طالب کے نگار خانہ ٕ شعر میں ڈھلے فن پاروں کے عکس ہائے جمیل کو ان اشعار میں ملاحظہ فرمائیں:۔
ایک دفعہ طالب کے پاس آ کر سنو رو داد غم پردہ چہرے سے ہٹا کر دیکھتے ہو دور سے
یہ نہ ہو تم بھی غریبی کی سزا دو ہم کو یعنی ایک روز نگاہوں سے گرا دو ہم کو
جو درویش ملے ہیں مجھ کو سارے ذی عرفان ملے
ہاتھ میں جن کے کاسا تھا کچھ ایسے بھی سلطان ملے
میری پیشانی جو سجدے میں پڑی ہوتی ہے صد شکر وہ شاہوں سے بڑی ہوتی ہے
ٹھنڈی چھاؤں تو مقدر ہے بڑے لوگوں کی
بے کسوں کے لیے بس دھوپ کڑی ہوتی ہے
جب دھماکوں سے بکھر جاتی ہیں ہر سو لاشیں
وہ حقیقت میں قیامت کی گھڑی ہوتی ہے
زندگی بےچارگی اور بے بسی کے حال میں بانہیں پھیلائے پڑی ہے موت کی دہلیز پر
تمہارے وصل کا موسم گزارا اس کے تلے
ہرا بھرا ترے غم کا درخت ایسا تھا
ان میں شامل تھی بناوٹ بھی دکھاوٹ بھی کہیں
وہ جو گاتے تھے صبح و شام ترانے میرے
نہ جانے کیا خطا سرزد ہوئی ہے مجھ سے اے ہمدم
کہ میرے دکھ میں بھی وہ شخص اب شامل نہیں ہوتا
یوں تجھ کو اپنے دل میں اے دل دلبر بٹھا دیا
شیشے کے گھر میں جیسے یہ پتھر بٹھا دیا
میرے احساس پہ اک برق سی آ گرتی ہے جب بھی سنتا ہوں صدا میں کسی شہنائی کی
اتنے برے نہیں تھے کبھی ہم خدا گواہ
جتنے تمہارے عشق میں مشہور ہو گئے
آخر میں دعا کے طالب سید حبدار قائم کو اجازت دیجیے میرا اللہ پاک ہمیشہ مطلوب حسین طالب کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں سکون عطا فرماۓ۔ آمین
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |