رِنگ سائیڈ – Ring Side
ڈاکٹر نسیم اشرف سے دسمبر 2010ء میں پہلی ملاقات ابوظہبی میں "ایمریٹس پیلس ہوٹل” میں ہوئی جب پی ٹی آئی پنجاب کے سابق جنرل سیکریٹری فاروق ملک اور راقم سابقہ صدر جنرل پرویز مشرف سے ملنے گئے تھے۔ اس کے بعد تین بار انہیں جنرل صاحب کے دبئی مال کے ساتھ واقع اپارٹمنٹ میں بھی دیکھا۔ جنرل پرویز کے عروج کے دنوں میں نسیم اشرف صاحب کا شمار جنرل پرویز مشرف کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ اسی بنیاد پر ڈاکٹر نسیم اشرف صاحب 6سال صدر جنرل پرویز مشرف کے کینٹ منسٹر اور آخری دو سال وہ "پاکستان کرکٹ بورڈ” (پی سی بی) کے چیئرمین بھی رہے۔ جب صدر جنرل پرویز مشرف نے 18اگست 2008ء کو استعفی دیا تھا تو اس کے چند گھنٹوں بعد ڈاکٹر نسیم اشرف نے بھی اپنے عہدے سے استعفی دے دیا تھا۔ اب چوتھی بار ان سے غائبانہ ملاقات ان کی کتاب "رِنگ سائڈ” کے توسط سے ہوئی ہے جس میں انہوں نے اپنے ذاتی تجربے، پاکستان کے سیاسی, جغرافیائی اور عالمی حالات کے تناظر میں پاکستان کے مستقبل کے بارے اپنا تجزیہ پیش کیا ہے۔
پاکستان قائم رہنے کے لیئے بنا ہے اور تب تک قائم رہے گا جب تک پاکستان کا وفاق مضبوط بنیادوں پر قائم ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی یہ کتاب سرمد خان کے توسط سے ہاتھ لگی جسے "بک کارنر جہلم” نے جنوری 2025ء میں شائع کیا۔ بنیادی طور پر ڈاکٹر نسیم اشرف پیشے کے اعتبار سے ایک گائنالوجسٹ ڈاکٹر ہیں اور آجکل امریکہ میں مقیم ہیں۔ انہوں نے اس کتاب کو کئی سالوں کی محنت اور عرق ریزی کے بعد لکھا ہے جسے لکھنے کا مشورہ انہیں اقوام متحدہ امریکہ میں پاکستان کے لئے خدمات انجام دینے والے محترمہ ڈاکٹر ملیحہ لودھی اور ان کے کولیگ ڈاکٹر سید امجد حسین نے دیا جنہوں نے اس کتاب کا دیباچہ بھی لکھا ہے۔
"رِنگ سائیڈ” کتاب 320 صفحات پر مبنی ہے جس میں وار آن ٹیرر، پاکستانی ڈائسپورا (پاکستانی تارکین وطن)، یو ایس پولیٹیکل سسٹم، پریذیڈنٹ کلنٹن وزٹ ٹو پاکستان، یو ایس پاکستان ریلشن شپ، وائی امیریکہ کڈ ناٹ ون ان افغانستان (امریکہ افغانستان میں کیوں نہ جیت سکا) اور "دی جناح” (فلم) سمیت کل 14 ابواب شامل ہیں۔ اس کتاب میں 9/11 حملوں کے پس منظر پر خصوصی بحث کی گئی ہے، اس مد میں امیرکن پاکستان فاونڈیشن، ایسوسی ایشن آف فزیشن آف پاکستانیز، سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن، سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی( سی آئی اے)، ڈیپارٹمنٹ آف انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ (یو کے)، یورپئین یونین، انٹیلیجنس بیورو، انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، ملٹری انٹیلی جنس، یونائیٹڈ نیشنز اور یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ پر لکھی گئی کتابوں اور مضامین سے خصوصی مدد لی گئی ہے جس سے کتاب کو پڑھنے سے اس کی بے لاگ وسعت اور حقیقت پسندی کا احساس ہوتا ہے۔
انگریزی زبان میں لکھی گئی اس کتاب میں پاکستان کے سیاسی حالات و واقعات اور سیاست دانوں کی کارکردگی اور تجزیہ کاروں و دانشوران کی آراء کی روشنی میں پاکستان کے سیاسی ماضی کا تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے کہ پاکستان کو ماضی میں اور اس وقت جن عصری چیلنجز کا سامنا ہے انہیں کس طرح ایڈریس کیا جا سکتا ہے۔ یہ کتاب پاکستان کے جغرافیائی اور عالمی محل وقوع کی اہمیت کے حوالے سے ایک کارآمد اور متحرک بائیوگرافی ہے جس میں پاکستان اور امریکہ کی مشترکہ سٹریٹیجک کارکردگی اور آئیندہ کی سیاسی و انتظامی حکمت عملیوں کے حوالے سے بھرپور رہنمائی کی گئی ہے۔ ڈاکٹر نسیم اشرف صاحب جنرل پرویز مشرف کے دور میں 6سال تک سٹیٹ منسٹر کے عہدے کے برابر "نیشنل کمیشن فار ہیومین ڈویلپمنٹ” (این سی ایچ ڈی) کے سربراہ رہے اور پھر آخری 2سال تک "پاکستانی کرکٹ بورڈ” کے چیئرمین کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹر صاحب کو پاکستان کی پولیٹیکل پوٹینشل اور ترقی کے امکانات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا جس بناء پر اس کتاب کے اقتباسات عام قارئین اور خصوصی طور پر پولیٹیکل سائنس کے طلباء کے لیئے ایک "گائیڈ بک” کی حیثیت رکھتے ہیں۔
کتاب کی لانچ کے وقت پشاور میں سابق چیئرمین پی سی بی ڈاکٹر نسیم اشرف نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ یہ بات درست نہیں کہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے چیف جسٹس سے باتھ روم میں جا کر نواز شریف کی سزا سے متعلق بات کی تھی۔ لیکن کتاب کے صفحہ نمبر 163 اور 164 پر یہ لکھا ہے کہ کلنٹن کھانے کے دوران باتھ رومز کی کی طرف گئے، ان کا اور پاکستان کا سیکورٹی عملہ ان کے پیچھے پیچھے ہو لیا تو تھوڑی دیر بعد پاکستان کے اس وقت کے چیف جسٹس ارشاد حسن خان بھی اٹھ کر باتھ رومز کی طرف چلے گئے۔ سیکورٹی عملے نے بتایا کہ کچھ دیر بعد کلنٹن اور جسٹس ارشاد نے زور دار قہقہہ لگایا۔ البتہ نسیم اشرف صاحب نے کتاب میں تسلیم کیا ہے کہ یہ سچ ہے کہ کلنٹن نے واضح کیا تھا کہ نواز شریف کو سزائے موت نہیں ہونی چایئے۔ اسی طرح کتاب میں انہوں نے پیش گوئی کی کہ
ٹرمپ کے آنے سے پاک امریکہ تعلقات بہتر ہونگے، اور پاک افغان تعلقات میں بھی ٹرمپ کا کردار اہم ہو گا۔ کتاب میں پاک امریکہ تعلقات پر گہرائی سے روشنی ڈالی گئی ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو افغان جنگ کی وجہ سے کیا چیلنجز رہے۔ اس کتاب میں مصنف نے وہی کچھ لکھا ہے جو انہوں نے دس پندرہ سال تک پاکستان کے بارے دیکھا اور محسوس کیا۔ ان کی رائے میں سابق امریکی صدر کلنٹن اس وقت پاکستان آئے جب یہاں فوجی حکومت تھی اور ہم پر بہت سی پابندیاں تھیں۔ نسیم اشرف نے کتاب میں لکھا ہے کہ پاکستان کو سوشل انڈیکیٹر پر خطرات لاحق ہیں اور ملکی بقا کو قائم رکھنے کے لیئے بہت عقل مندی سے چلنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کتاب میں لکھا ہے کہ ایک نجی ٹی وی کے مطابق سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے امریکی صدر بل کلنٹن کو دورہ پاکستان سے منع کر دیا تھا لیکن صدر بل کلنٹن نے محض اس لئے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا کہ برطرف وزیراعظم میاں نواز شریف کو پھانسی سے بچا سکیں۔ جنرل پرویز مشرف کی جانب سے یقین دہانی کے بعد وہ چند گھنٹوں کے لئے پاکستان آئے تھے۔
امریکی صدر نے چیف جسٹس آف پاکستان سے بھی ایک خفیہ ملاقات کی تھی تاکہ یہ یقین دہانی حاصل کی جا سکے کہ نواز شریف کو پھانسی نہیں دی جائے گی۔ بل کلنٹن کے دورہ پاکستان کے بارے میں انہوں نے انکشاف کیا کہ صدر پرویز مشرف کی یقین دہانی کے باوجود انہوں نے صدارتی ظہرانے کے دوران چیف جسٹس ارشاد حسن خان سے تنہائی میں ملے اور یہ خفیہ ملاقات پانچ منٹ تک جاری رہی۔ صدر کلنٹن نے چیف جسٹس آف پاکستان سے استفسار کیا کہ نواز شریف کو پھانسی کی سزا تو نہیں ہو گی جس پر جسٹس ارشاد حسن خان نے انہیں یقین دلایا تھا کہ ایسا نہیں ہو گا، یہ واقعہ اپنی نوعیت کا ایک تاریخی اور چشم کشا واقعہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر نسیم اشرف نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ شہباز شریف کی کابینہ میں شامل ڈاکٹر مصدق ملک نے ملک و قوم کی خاطر امریکہ میں لاکھوں روپے ماہانہ کی ملازمت چھوڑ کر پاکستان آنے اور یہاں انسانی ترقی کے شعبہ میں کام کرنے کا فیصلہ کیا وہ ایک انتہائی محب وطن پاکستانی ہیں۔
اسرائیل کو تسلیم کرنے سے متعلق ڈاکٹر نسیم اشرف صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں کہ جنرل مشرف کے دور میں اسرائیل کو تسلیم کرنے سے متعلق کام ہوا تھا اور مرحوم ڈاکٹر اسرار احمد نے بھی اسرائیل سے مکالمہ کرنے کی حمایت کی تھی۔
انہوں نے 2019ء میں عمران خان کے دورہ امریکہ کو کامیاب قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس دورہ کے نتیجے میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات مستحکم ہوئے تھے۔
ڈاکٹر نسیم اشرف کے مطابق جنرل پرویز مشرف کے دورہ ہندوستان کے موقع پر انہوں نے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے ملاقات کی اور ان سے ایک واقعہ کے بارے میں اسرار کیا جس کے جواب میں من موہن سنگھ نے تصدیق کی کہ انہوں نے بھارتی بوئنگ طیارے میں دو ٹن سونا بنک آف برطانیہ کے لئے بھیجا تاکہ قرضہ حاصل کیا جا سکے، وہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے حق میں نہیں تھے، بینک آف انگلینڈ سے لئے جانے والے قرض سے انہوں نے ہندوستان میں نئی اقتصادی پالیسی کا آغاز کیا۔
ڈاکٹر نسیم اشرف نے عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائما خان کے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے اپنا سب کچھ پاکستان پر قربان کر دیا تھا، وہ ایک قابل فخر اور ہمدرد خاتون ہیں۔ کتاب میں مصنف "قومی کمیشن برائے انسانی ترقی” کو اپنا ایک عظیم کارنامہ قرار دیتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ اس ادارے نے تعلیم کے فروغ اور لوگوں کو غربت کی لکیر سے نکالنے میں قابل ذکر کردار ادا کیا تاہم انہیں چیئرمین کی حیثیت سے کئی محاذوں پر شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور ایک بار تو انہوں نے استعفی دینے کا فیصلہ بھی کر لیا تھا۔
ڈاکٹر نسیم اشرف اپنی کتاب میں کہتے ہیں کہ جنرل مشرف کے دور میں ان کی کوششوں سے وزیراعظم برطانیہ ٹونی بلیئر کے صاحبزادے نکولس بلیئر خاص طور پر انٹرن شپ کے لئے پاکستان آئے تھے۔
پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے ڈاکٹر نسیم اشرف نے کئی امور پر خامہ فرسائی کی ہے، ان کے خیال میں نائن الیون کے واقعہ نے امریکہ کو ہلا کر رکھ دیا تھا، یہی وجہ تھی کہ امریکہ نے افغانستان کو نشانہ بنایا تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ صدر پرویز مشرف نے امریکی صدر جارج بش کو ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا مگر جنرل مشرف نے 7 میں سے 5 مطالبات تسلیم کر لئے تھے۔ نسیم اشرف کی رائے میں اگر پاکستان امریکی مطالبات نہ مانتا تو پاکستان کو معاشی طور پر تباہی سے دوچار ہونا پڑتا جو ملکی سلامتی کے لئے بھی نقصان دہ ثابت ہوتا۔
ڈاکٹر نسیم اشرف نے کتاب میں یہ بھی واضح کیا ہے کہ امریکہ میں مقیم پاکستانی جمہوریت کے داعی اور محب وطن پاکستانی ہیں جنہوں نے ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیا اور یہی وجہ تھی کہ جب نواز شریف کو ہٹایا گیا تو پاکستانیوں نے ان کی بحالی کے لئے مظاہرے کئے اور اخبارات میں اشتہارات بھی دیئے جبکہ کانگریس اراکین سمیت امریکی صدر کو خط بھی لکھا جس کے نتیجہ میں صدر کلنٹن نے پاکستان کا دوہ کیا تھا۔
ڈاکٹر نسیم اشرف خود بھی بہترین فرسٹ کلاس کرکٹر تھے جس وجہ سے انہیں پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بنایا گیا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی حیثیت سے انہوں نے کتاب میں اپنی مشکلات کا ذکر کیا ہے جن کا انہوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ انہوں نے ملک بھر میں 19 سٹیڈیم بنوائے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کرکٹ اور مشہور کرکٹر انضمام الحق کے بارے میں کچھ سنسنی خیز اور دلچسپ واقعات بھی لکھے ہیں۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |