خیالات کی تجسیم یا نفسیات کا مرض
شائد یہ تجربہ آپ کو بھی ہوا ہو کہ بعض دفعہ آپ کو ایسی آوازیں سنائی دیتی ہیں یا ایسا کچھ دیکھائی دیتا ہے، جو کسی خاص موقعہ پر آپ کے علاوہ کسی دوسرے کو سنائی دے رہا ہوتا ہے اور نہ ہی دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ عام طور پر انگریزی زبان میں اسے "ہالوسینیشن” (Hallucinations) کہتے ہیں جس کا اردو زبان میں ترجمہ "ہذیان” سے کیا جاتا ہے۔ جبکہ بار بار واقع ہونے والے ایسے تجربے کو "شیزوفرینیا” (Schizophrenia) کی نفسیاتی بیماری کہا جاتا ہے جس میں آپ ایسی کچھ چیزوں کو نہ صرف دیکھتے اور سنتے ہیں بلکہ انہیں چھوتے اور محسوس وغیرہ بھی کرتے ہیں، جو درحقیقت آپ کے اردگرد موجود نہیں ہوتی ہیں۔
اس کے باوجود کہ ہذیان کو اگرچہ نفسیاتی بیماری یا فریب نظر کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے، تاہم فریب نظر بھی دو قسم کی ہوتی ہے جسے مثبت اور منفی ہذیان کہتے ہیں۔ اگر ہذیان کو نفسیاتی بیماری ہی کے طور پر سمجھا اور پرکھا جائے تو اسے "جن چمٹنا” بھی کہتے ہیں۔
ممکن ہے آپ یہ جانتے ہیں یا نہیں کہ آج تک ایسا کوئی کیس سامنے نہیں آیا جس میں کسی اندھے آدمی کو جن چمٹے ہوں یا نظر آئے ہوں۔ دراصل، اس کی وجہ یہ ہے کہ جن چمٹنا یا جن لگ جانا نامی بیماری حقیقتا ایک نفسیاتی بیماری ہے جسے شیزوفرینیا کے نام سے جانا جاتا ہے جس میں ہمارے دماغ کا کیمیکل لیول غیرمتوازن ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے ہمارا دماغ خیالات کو صحیح طریقے سے "پراسیس” (Process) نہیں کر پاتا ہے اور ہم ظاہری دنیا کے بارے میں غلط ادراک کرنا شروع کر دیتے ہیں یا ہمارے اندر کچھ مبہم اور غلط خیالات و تصورات "فریب نظر” یعنی Hallucinations کی شکل میں ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ لیکن
اس غلط ادراک کے لئے ہمارے دماغ کے پاس دنیا کے بارے میں پہلے سے موجود ڈیٹا یا مواد وغیرہ کا ہونا بہت ضروری ہے اور اندھے شخص کے پاس یہ ڈیٹا اور مواد سرے سے موجود ہی نہیں ہوتا ہے۔ لھذا اس ڈیٹا کی کمی کی وجہ سے اندھے لوگوں کا دماغ دنیا کے بارے میں غلط ادراک یا Perception قائم نہیں کر سکتا اور یوں اندھے لوگ شیزوفرینیا یا پھر عرف عام میں جن چمٹنے کی بیماری سے بچ جاتے ہیں۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہذیان یعنی شیزوفرینیا یا پھر جن چمٹنا کیا ہے؟ یہ وہ بیماری ہے جس میں انسان کو ایسی چیزیں دکھائی دیتی ہیں جو حقیقت میں وجود نہیں رکھتی ہیں۔ یہ چیزیں انسان سے باتیں کرتی ہیں اسے حکم دیتی ہیں اور کبھی کبھار اس کی بات مانتی بھی ہیں (اسے یہی لگتا ہے کہ میری بات مانی جا رہی ہے جبکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوتا ہے)۔
اس نفسیاتی بیماری کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ انسان اپنے دماغ میں بننے والے شبہات یا مغالطے (یعنی اپنے ہی فریب نظر) کے تابع ہو جاتا ہے اور اس مرض کو بیماری نہ سمجھنے والا اور اسکے گھر والے ایسے غیرمنطقی کام کرنے لگتے ہیں جو ان کی بیماری ان سے کروانا چاہتی ہے۔ میڈیکل سائنس میں اس بیماری کا کسی حد تک علاج ممکن تو ہے لیکن بہت ہی مشکل ہے کیونکہ اس بیماری میں دو باتیں خاص ہیں کہ ایک تو یہ کہ انسان اس سے مکمل طور پر کبھی بھی نکل نہیں پاتا ہے یعنی آسان لفظوں میں یہ بیماری ناقابل علاج ہے۔ لیکن ڈاکٹر سالوں کی محنت سے شییزوفرینیا سے متاثرہ انسان کو اس قابل بنا دیتے ہیں کہ وہ حقیقی اور غیر حقیقی افعال میں تمیز کر سکے، اس بیماری کی دوسری خاص بات یہ ہے کہ اس کے کسی بھی مریض کا ذاتی تجربہ اسی بیماری کے شکار دوسرے تمام مریضوں سے مختلف ہوتا ہے اور یہ چیز اس کے علاج کو اور بھی مشکل بنا دیتی ہے کیونکہ ڈاکٹرز کو ہر مریض پر بیماری کے اثرات کا تعین کر کے ایک بالکل نئے طریقے سے ڈیل کرنا پڑتا ہے-
معروف ماہر معاشیات اور ریاضی دان جان نیش کو بھی اس بیماری کا سامنا کرنا پڑ گیا تھا۔ زمانہ طالب علمی میں وہ ایک ایسے شخص سے دوستی کرتے ہیں جو کہ نہایت ہی ذہین و فطین ہوتا ہے اور بعد میں وہ شائد ہاورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر لگ جاتا ہے۔ ایسے میں جان کی اہلیہ اسے اس دوست سے ملوانے کا مطالبہ کرتی ہیں اور جان اسکو بلاتا ہے مگر اسکی اہلیہ کو وہ دوست نظر ہی نہیں آتا۔ جبکہ جان کو وہ اپنی بیٹی کے ساتھ نظر آتا ہے۔ یہاں آ کر جان نیش کی اہلیہ کو پتا چلتا ہے کہ وہ نارمل نہیں ہے۔
یاد رہے کہ جان نیش نے اپنے تصوراتی ایجنٹس کو بہت سے کوڈ توڑ کر دئہے جن کی مدد سے امریکہ نے انٹیلی جنس کی جنگیں جیتی تھی لیکن ان کے بارے میں بعد میں پتا چلا کہ وہ وجود ہی نہیں رکھتے تھے۔ جان نیش نے انہیں کئی سو خط بھی لکھے تھے جو کہ بعد میں لیٹر باکس میں ایسے ہی پڑے ملے تھے۔ جان نیش اس بیماری سے تاعمر لڑتے رہے اور صحتیاب نا ہو سکے۔
آج تک کی تحقیقات کے مطابق جن چمٹنے کی بنیادی وجوہات میں جینیٹکس کا بھی بہت عمل دخل ہے یعنی یہ بیماری ایک ہی خاندان کے کئی افراد کو بھی ہو سکتی ہے اور نسل در نسل بھی چل سکتی ہے۔
جبکہ اس بیماری سے چھٹکارہ پانا مکمل طور پر ممکن نہیں ہے کیونکہ اس بیماری کے علاج کے طور پر مریض کو اس بات کا ادراک کرانا ضروری ہے کہ کیا چیزیں حقیقی ہیں اور کیا نہیں ہیں۔ شیزوفرینیا کے موضوع پر بہت سی فلمیں بھی بنی ہیں جن میں ایک "ایک خوبصورت زہن” (A Beautiful Mind) سب سے زیادہ مشہور ہے جو
ایک سچے واقعہ پر مبنی ہے جس نے چار آسکر ایوارڈز جیتے۔ البتہ مثبت فریب نظر کا ایک کمال یہ ہے کہ اس کے ذریعے انسان کے اندر "مافوق الفطرت” صلاحیتوں کے بیدار ہونے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے یعنی آپ ان چیزوں کو دیکھ سکتے ہیں، سن سکتے ہیں اور محسوس کر سکتے ہیں جو درحقیقت موجود نہیں ہوتی ہیں۔
ہالوسینیشن یا شیزوفرینیا اور فریب نظر کا یہ تجربہ ایسا ہی ہے کہ آپ اپنے دماغ سے چیزوں کو مجسم کرنے کا تجربہ کرتے ہیں یا اپنے خیالات کو اپنے ہی سامنے، دیکھتے، سنتے اور محسوس کرتے ہیں۔ آپ بے شک اسے نفسیاتی بیماری قرار دیں جیسا کہ بعض انتہائی غیرمعمولی انسانیت نواز شخصیات پر بھی یہ الزام لگایا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان ابھی اپنے دماغ کی بہت سی مخفی صلاحیتوں کو سمجھنے سے قاصر نظر آتا ہے جن میں اپنے ہی خیالات و چیزوں کی تجسم اور غائب کو اپنے سامنے حاضر کرنا بھی شامل ہے۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |