ہندو نیپال سرحد پرکوہستان ہمالیہ کی مینوسوادوادی میں آباد ایک چھوٹا سا ضلع بہرائچ علاقہ اودھ کا ایک تاریخی علاقہ ہے
بہرائچ
میرے سامنے تقریباً پانچ سو صفحات پر پھیلی ہوئی اردو کی ایک ضخیم کتاب ہے جو ’’بہرائچ ایک تاریخی شہر‘‘ کے عنوان والی ایک مطبوعہ تصنیف
سید سالار مسعود غازیؒ کی درگاہ جو شمالی ہندوستان کی سب سے قدیم اور بڑی درگاہ ہے جس کی تاریخ ایک ہزار سال قدیم ہے
منشی پریم چند سے لے کر کرشن چند اور سعادت حسن منٹو سے ہوتا ہوا افسانہ نگاروں کا یہ قافلہ ابھی بھی رواں دواں ہے
شفیق ؔ صاحب کو چھوٹے بڑے سب احترام سے ’’ماسٹر صاحب‘کہتے تھے۔وہ ایک مقبول اسکول ٹیچر تھے
بہرائچ شروع سے ہی علمی ،روحانی اورادبی مرکز ہونے کے ساتھ شعر و ادب کا گہوارہ رہا ہے؛
یہاں بیٹھنے والے بزرگ شخص کوئی معمولی شخص نہیں بلکہ وہ شہر بہرائچ کے عظیم الشان شاعر حضرت اظہار وارثی صاحب تھے
جنید احمد نور کا قلم تاریخی شہر کے ساتھ تاریخی شخصیت سازی کا کام کر رہا ہے جنہوں نے صدیوں کی داستان کو لمحوں میں پیش کرکے سمندر کو کوزے میں بھر دیا ہے
بابا جمالؔ علوم ادبیہ پرماہرانہ قدرت رکھتے تھے۔عروض وبیان سے مل کر شعر کہتے تھے۔آپکے یہاں لفظوں کے ذخیرے تھے۔آپ کے یہاں قحط لفظی نہیں تھا۔
کیفی صاحب کا ہمارے تاریخی شہر بہرائچ سے گہرا تعلق تھا۔آپ کے بچپن کے دن بھی بہرائچ میں گزرے ہیں۔