جگر شناسی کا اہم نام :پروفیسرڈاکٹر محمد اسلام (بہرائچی)مہاجر کراچی
از: جنید احمدنور
بہرائچ ، اتر پردیش
موبائل : 919648176721+
بہرائچ ہی وہ سرزمین ہے جس کوحضرت سیدسالار مسعود غازی رحمہ اللہ(خواہر زادے سلطان محمود غزنوی)نے اپنے قیمتی خون کے قطروں سے سیراب کیا اور اپنے ہزاروں ساتھوں کے ساتھ اس سرزمین کو شہیدوں کا مسکن بنا دیا اور تاریخ میں بہرائچ کا نام درج کرادیا۔ اکابرصوفیا و علما ء نے یہاں کی سرزمن کو اپنی خاک سے منور کیا۔اس طرح یہاں پر خاص طور پر اردو ادب نے بہت ترقی پائی۔بہرائچ زمانہ قدیم سے ہی علم کا گہوارہ رہا ہے۔ سرزمین بہرائچ ادب اور شعر و شاعری کے سلسلے میں اس قدر مردم خیز ہے کہ یہاں ہر دور میں متعدد اساتذۂ اکرام اپنے اطراف میں تلامذہ کی ایک بھیڑ کے ساتھ نظر آتے تھے۔یہ سرزمین وہ زمین ہے جہاںشہنشاہ غزل میر تقی میرؔنے اپنی مثنوی’’ شکار نامہ‘ تصنیف کی تھی۔ میر ؔنے بہرائچ کا ذکرکرتے ہوئے اپنی تصنیف میں لکھاہے ؎
چلے ہم جو بہرائچ سے پیش تر
ہوئے صید دریا کے واں پیش تر
(کلیات میرؔ ،۱۹۴۱ء، ص۸۷۲)
انشاءاللہ خاں انشا ؔبھی بہرائچ آئے تھے اور بہرائچ کی مقدس سرزمین پر اپنی قلم کا جادو بکھرا ہے۔ آپ کا یہ شعربہت مشہور ہے جس میں آپ نے بہرائچ کی سرزمین کی اہمیت کو بیان کیا ہے۔ ؎
دل کی بہرائچ نہیں ہے ترک تازی کا مقام
ہے یہاں پر حضرت مسعود غازی کا مقام
(کلیات انشا اللہ خاں انشاؔ انشا۔۱۸۷۶ء،ص۸۶)
ایک دوسرے شعرمیں ا نشا ءاللہ خاں انشا ؔلکھتے ہیں ؎
یوں چلے مژگان سے اشکِ خوں فشاں کی میدنی
جیسے بہرائچ چلے بالے میاں کی میدنی
(کلیات انشا اللہ خاں انشاؔ۱۸۷۶ء،ص۱۵۷)
ضلع بہرائچ خطہ اودھ کا ایک ایسا مردم خیز ضلع ہے جس کی ذرخیزی کی ایک طویل تاریخ رہی ہے۔ تین صدیوں پر محیط ضلع بہرائچ کی تاریخ اردو ادب اپنے میں سمیٹے ہوئےجو حضرت مرزا مظہر جان جاناں شہید رحمہ اللہ کے خلیفہ مجاز و اولین سوانح نگار حضرت مولانا شاہ نعیم اللہ بہرائچی رحمہ اللہ سے شروع ہوتی ہے۔میری تحقیق کے مطابق شاہ نعیم اللہ صاحب بہرائچیؒ کوبہرائچ کا پہلا اردو شاعر ہونے کا شرف حاصل ہے۔شاہ نعیم اللہ بہرائچیؒ کا کلام آج بھی آپ کے خانوادے کے پاس محفوظ ہے۔اس بہرائچ کو مرزا غالبؔ کے شاگرد بے صبرؔ کاٹھوی کی آخری آرام گاہ ہونے کا شرف بھی حاصل ہے ۔ مولوی ضامن علی خاں انیقؔ بہرائچی بہرائچ کے اس عظیم المرتب شاعر کا نام ہے جو میر انیسؔ کے صاحبزادے اور شاگرد رشید میر نفیسؔ کے شاگرد تھے ۔ جن کے ذریعہ بہرائچ میں میر انیسؔ کا فیض بہرائچ میں پہونچا ۔ حضرت انیقؔ مشہور استاد شاعر حضرت عبدالرحمٰن خاں وصفی ؔکے حقیقی پردادا تھے۔انیق ؔصاحب موجودہ وقت کے مشہور و معروف شاعر فرحتؔ احساس کے جد اعلیٰ ہیں۔مسعود حسن رضوی ادیب کی جائے ولادت،منشی پریم چند نے بھی یہاں اپنے دن گزارے ہیںا س کے علاوہ مشہور ترقی پسند شاعر کیفیؔ اعظمی نے اپنے بچپن کے کئی سال یہاں گزارے اور اپنی پہلی غزل یہیں کہیں تھی جس کا تذکرہ کیفیؔ نے اپنے مجموعہ ’’سرمایہ‘‘میں اس واقعے کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔کیفی ؔ اعظمی ہمارے پرنانا اور اپنے وقت کے معروف تاجر اور شاعر حاجی شفیع اللہ شفیعؔ بہرائچی اور رافتؔ بہرائچی کے قریبی دوستوں میں سے تھے اور جب بھی بہرائچ آتے تھے شفیعؔ صاحب کی دکان جو ادبی مرکز تھا وہاں تشریف رکھتے تھے۔دبستان بہرائچ کے ساتھ ساتھ ضلع کے مشہور دبستانوں جرول اور نان پارہ نے بھی اردو ادب کی خدمت میں اہم کردار ادا کیا ہے جہاں شیخ مشیرؔ جرولی ، جرول کے تعلقہ داران سید ظفر مہدی اثیم ؔجرولی،ان کے صاحب زادوں سید حیدر مہدی شمیمؔ جرولی ،مولوی حکیم سید باقر مہدی بلیغؔ جرولی،اثیمؔ کے پسر زادے،شمیم ؔکے صاحب زادےسید فضل مہدی نسیمؔ جرولی نے براہ راست مرزا سلامت علی دبیرؔ اور ان کے صاحب زادے مرزا اوجؔ لکھنوی سے شرف شاگردی حاصل کی ۔اسی طرح نان پارہ میں شمسؔ لکھنوی، اصغریؔ رشیدی(شاگر د پیارے میاں رشیدؔ لکھنوی)،واصفؔ القادری نان پاروی نے شمع ادب کو جلایا۔
ہر دور میں اپنے اپنے فن کے جواہر پاروں نے بہرائچ کا نام روشن کیا ہے انہیں جواہر پاروں میں سے ایک اہم نام ڈاکٹر محمد اسلام کا ہے جنہوں نے شہنشاہ تغزل حضرت جگرؔ مرادآبادی کی حیات و خدمات پر لکھنؤ یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کی اور جگرؔ مرادآبادی اور اردو ادب کی خدمات پر اپنی تصانیف کا ایک طویل سلسلہ شروع کیا اور آپ کی تصانیف مقبول خاص و عام ہوئی اور برصغیر ہند و پاک سے ایک ساتھ شائع ہوتی رہیں۔
ڈاکٹر محمد اسلام کی ولادت ۲۷؍اکتوبر ۱۹۳۰ء کو ضلع بہرائچ کی تاریخی سابق ریاست نان پارہ کے قریب واقع گاؤں امبوا مولوی گاؤں کے ایک معزز گھرانے میں حاجی محمد رحمت اللہ مرحوم کے یہاں ہوئی تھی۔آپ کا خاندان اپنے علاقہ کا ایک معزز علمی گھرانہ تھا ۔علاقہ کے لوگوں سے معلوم ہ واس دور میں بھی آپ کے اطراف کے گاؤوں میں واحد پختہ مکان آپ کے خانوادے کا تھا جو آج بھی الحمد للہ موجود ہے۔گاؤں میں آپ کے بہت سےعزیز آج بھی قیام کرتے ہیں ۔آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم بہرائچ میں مقامی طور پر حاصل کی اس کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے لکھنؤ یونی ورسٹی میں داخلہ لیا اور وہاں سے ایم۔ اے، ایل ایل بی اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں اور لکھنؤ مین رہائش اختیار کی۔ آپ نے۱۹۶۰ء میں لکھنؤ یونی ورسٹی سے ’’جگر مرادآبادی:حیات اور شاعری‘‘ پرمقالہ لکھ کر پی۔ایچ۔ڈی کی اور اس کے کچھ سالوں بعد پاکستان ہجرت کر گئے جہاں آپ ایک کالج میں پروفیسر ہوئے ۔ جگرؔ صاحب کی حیات اور خدمات پر آپ کے تحقیقی کاموں کو ادبی شخصیات نے بہت پسند کیا اور اپنی تحریروں میں لکھا جن میں سے کچھ یہاں نقل کئے جاتے ہیں :۔
حضرت عبد الماجد دریابادی ؒ آپ کی تصینف ’’ یادگار جگر‘‘ کے لئے لکھتے ہیں:۔
’’یہ جگرؔ کے ایسے کلام مجموعہ ہے جو اب تک غیر مطبوعہ تھا۔ جامع اور مرتب کی تلاش اور ان کا حسن ذوق دونوں قابل داد ہیں۔‘‘ (نگارشات جگر(محمد اسلام،۱۹۶۵ء، بیک کور) بہ شکریہ ریختہ)
رشید احمد صدیقی(علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی) آپ کی جگرؔ سناشی پر لکھتے ہیں:۔
’’مسٹر محمد اسلام نے جگرؔ کی حیات و شاعری پر جتنا کثیر اور مستند مٹیریل جس محنت، قابلیت اورسلیقے اکٹھا کر دیا ہے وہ میعاری اور قابل تحسین ہے۔ اب تک اس موضع پراتنا مفید مواد کہیں اور یکجا نہ ملے گا۔جگرؔ پر آئندہ کام کرنے والوں کو اس زخیرۂ معلومات سے بہت فائدہ پہنچے گا اور ان کے تحقیقی کاموں میں سہولت پیدا ہوگی۔ (جگر مرادآبادی حیات اور شاعری(محمد اسلام،۱۹۶۶ء،ص ۵)
ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی (لکھنؤ یونی ورسٹی) لکھتے ہیں:۔
’’محمد اسلام صاحب قابل مبارکباد ہیں کہ انہوں نے جگرؔ کی حیات اور شاعری پر تحقیقی کام کرنے کے سلسلہ میں جگرؔ کو زیادہ سے زیادہ سمجھنے کی کوشش کی اور انہوں نے یہ راز پالیا کہ کہ جگرکی شاعر اور شخصیت کی مکمل تصویر اسی وقت ممکن ہے جب شاعری کے علاوہ مرحوم کی نثر کا بھی جائزہ لیا جائے ۔ اس سلسلہ میں مرتب(ڈاکٹر محمد اسلام)نےبڑی محنت اور کاوش سے کام کیا ہے ۔ڈاکٹر اسلام نے جگرؔ کے غیرمطبوعہ اور قلمزدکئے ہوئے کلام کوبھی فراہم کیا اور جگرکی تمام تحریروں، تقریظوں،دیباچوں وغیرہ کو بھی، یہ دونوں مجموعہ ’’یادگارجگر‘‘ اور ’’نگارشات جگر‘‘کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ (جگرؔ کے خطوط(محمد اسلام، ۱۹۶۵ء، ص ۱۱-۱۲)
آپ ممتازماہر تعلیم،محقق، ادیب، استاد اردو شپ اونرز کالج کراچی۔ ’’جگر مرادآبادی:حیات اور شاعری‘‘پر مقالہ لکھ کر لکھنؤ یونی ورسٹی۱۹۶۰ء میں پی۔ایچ۔ڈی کی۔جگر مرادآبادی پر عمر بھر تحقیق کی اور ان پر اتھارٹی سمجھے جاتے تھے۔ (بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ،ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ،مطبوعہ۲۰۱۸ء،لاہور،ص۳۵۶)
آپ کی تصانیف:۔(۱)یادگارِ جگر(۲)جگر کے خطوط(۳)نگارشات جگر(۴)جگر معاصرین و مخلصین کی نظر میں(۵)اردو غزل کی مختصر تاریخ (۶) بیسویں صدی کے چند اکابر غزل گو (وفیات ناموران پاکستان،ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ،مطبوعہ۲۰۰۶ء،لاہور،ص۶۹۳)
ڈاکرمحمد اسلام کی وفات کے بعد ان پر لکھے سوانحی خاکے میں ڈاکٹر اسلم فرّی صاحب لکھتے ہیں:۔
ڈاکٹر اسلام شکلاً اور طبعاً ایک شریف آدمی تھے۔نان پارہ کے رہنے والےتھے۔ وہاں سے لکھنؤ آ گئے تھے۔ تحقیق کا شوق تھا۔جگرؔ صاحب کو موضوعِ تحقیق بنایا اور حق یہ ہے کہ حق ادا کر دیا۔ ان کا تحقیقی مقالہ جگرؔ صاحب کے بارے میں شائع ہوا۔ڈاکٹر صاحب نے اس کا مواد بڑی محنت سے جمع کیا تھا اور حلقۂ جگرؔ کے تمام لوگوں سے وہ یا تو باذات خود ملے یا خط و کتابت کے ذریعے رابطہ پیدا کیاتھا۔میرے علم میں ہے کہ وہ اس سلسلے میں شہروں شہروں پھرتے رہے۔میرے بزرگ کرم فرما مظہر جلیل شوقؔ کبھی کبھی ڈاکٹر اسلام کے علمی انہماک کا تذکرہ کرتے تھے تو یہ بھی کہتے تھے کہ اس شخص نے مجھے ڈھونڈ نکالا اور جگرؔصاحب کے بارے میں میری معلومات سے پورا پورا فائدہ آٹھایا۔ڈاکٹر صاحب نے ستمبر ۱۹۶۱ء سے ستمبر ۱۹۶۵ء تک کے دوران پاک وہند کے ۴۶ مختلف اشخاص سے جو جگرؔ صاحب کے حلقے سے تعکلق تھے ملاقاتیں کیں اور’’ حیات جگرؔ ‘‘کاخاکہ مرتب کیا۔ (ہماری زبان،اکتوبر ۱۹۸۷ء، ص ۷)
ڈاکٹر اسلام بڑے محنتی انسان تھے ۔جگر ؔکے خطوط جمع کیے اور انہیں کتابی شکل میں شائع کیا۔ اس کے علاوہ بعض کتابیں دوسری کتابیں بھی لکھیں ۔ڈاکراسلام صاحب کی وفات ۲۲؍ ستمبر ۱۹۸۷ء کو کراچی میں ہوئی اور آپ کی تدفین قبرستان بلاک- II ، نارتھ کراچی صوبہ سندھ (پاکستان) میں ہوئی۔آپ کی اہلیہ بھی کراچی کے ایک کالج میں پروفیسرتھی اورماشاء اللہ ابھی بقید حیات ہیں۔آپ کے ایک صاحب زادے جناب ضیاء اسلام صاحب کراچی میں مقیم ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔