ناکامی کے خلاف حوصلہ مند ردعمل
خود کو اپنے سامنے شرمندہ نہ کریں۔ کامیابی کا تعلق آپ کی خودداری اور از سرنو جدوجہد شروع کرنے سے ہے۔ اگر زندگی میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو اپنے اندر نیچے گر کر دوبارہ اٹھ کھڑا ہونے کا اعتماد اور حوصلہ پیدا کریں، اور خود کو یقین دلائیں کہ آپ اس بار ضرور کامیاب ہونگے۔
کامیابی کے مقابلے میں ناکامی انسان کے اندر شرمندگی پیدا کرتی ہے۔ لیکن ناکامی کا مثبت اور تعمیری پہلو یہ ہے کہ یہ ایک چیلنج کو قبول کرنے کا موقع پیدا کرتی یے جس سے آگے چل کر آپ سرخرو ہوتے ہیں۔ ناکامی کے خلاف دو قسم کا ردعمل دیا جا سکتا ہے کہ ایک کوشش کرنے کی بجائے ہمت ہار دی جائے جو ایک قسم کی بزدلی ہے جبکہ ناکامی کے خلاف دوسرا ردعمل یہ دیا جا سکتا یے کہ ناکامی کی کیفیت میں پیدا ہونے والی انرجی کو طاقت بنا لیا جائے اور دوبارہ کوشش کر کے کامیابی حاصل کی جائے۔
ایک ہندوستانی فلاسفر کا قول ہے کہ کامیاب ہونا ناکامی کے خلاف ایسا ردعمل ہے، جس کی مثال اس سپرنگ کی مانند ہے کہ جب اسے جتنا زور سے نیچے دبایا جاتا ہے اسے چھوڑنے کے بعد وہ اتنا ہی بلندی کی طرف اچھلتا ہے۔ ناکامی کی صورت میں بھی ابتداء میں جو ذہنی کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ بھی دباؤ کی شکل میں ہوتی ہے کہ اگر اسے اپنی قوت میں بدل لیا جائے تو بڑے پیمانے پر کامیاب ہونا آسان ہو جاتا ہے۔ دنیا کے عظیم لوگوں کی کہانیوں کی ابتداء ناکامیوں سے ہوتی ہے جنہیں وہ خود پر دباو یا کمزور ہو جانے کے طور پر قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔
امیر تیمور کے بارے ایک قصہ مشہور ہے کہ وہ ایک جنگ میں شکست کھانے کے بعد اپنے دشمن کے خوف سے ایک غار میں چھپ کر بیٹھ گیا۔ اس نے ایک چیونٹی کو اپنے منہ میں دانہ لیئے ایک دیوار پر چلتے دیکھا کہ وہ ناہموار دیوار کے آخری کونے پر پہنچ کر گر جاتی ہے۔ اس نے دیکھا کہ اس چھوٹی سی چیونٹی نے بیس دفعہ کوشش کی مگر وہ کامیاب نہیں ہوئی۔ البتہ اس نے ہمت اور حوصلہ نہیں ہارا۔ امیر تیمور نے دیکھا کہ وہ چیونٹی اکیسویں مرتبہ دانا لے کر دیوار پر چڑھ گئی جس سے امیر تیمور نے حوصلہ پکڑا اور سوچا کہ کیا وہ اس ننھی چیونٹی سے بھی کمزور ہے۔ بلآخر اس نے دشمن سے ایک اور جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا اور وہ اس دفعہ کامیاب ہو گیا۔
کامیابی انسان کے حوصلے سے بہت چھوٹی ہوتی ہے جسے قائم رکھا جائے تو ناکام ہونے کے بعد کامیاب ہونا ایک فطری عمل ہے کہ جس طرح دھوپ کے بعد چھاو’ں، اور اندھیرے کے کے بعد اجالا آتا ہے، اسی طرح ناکام ہونے والا خود کو قائم رکھے تو اس کی کامیابی کا سورج بھی ضرور طلوع ہوتا ہے۔
آج تک کے سب سے بڑے سائنس دان آئن سٹائن کا بھی ایک قول ہے کہ کامیابی ناکامی کے درمیان موجود ہوتی ہے۔ دراصل ناکامی اس عمل کا اظہاریہ ہے کہ جس کے اندر وہ ساری ترکیب و ترتیب موجود ہوتی ہے جس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں ناکامی اور اس پر عمل کرنے سے کامیابی حاصل ہوتی یے۔ یعنی کامیابی کا کلیہ یہ ہے کہ پہلے زیر انجام عمل کو سمجھا جائے تاکہ اسے درستگی کے ساتھ کرنے سے کامیاب ہوا جا سکے۔
اس طرح کامیابی دو اور دو چار کی طرح ایک حسابی مساوات ہے کہ جس پر صحیح طریقے سے کام کیا جائے تو کامیابی ہر قیمت پر حاصل ہوتی ہے یعنی کہ کامیابی کوشش یا عمل کے زریعے نکلنے والا ایک حسابی اور مساواتی نتیجہ ہے جو ہر حال میں نکلنا ہوتا یے۔ مثال کے طور پر آپ کسی سمت میں ایک ڈسک پھینکتے ہیں تو اس نے لازم حرکت کرنی ہے اور پھینکی جانے والی سمت میں اتنا ہی فاصلہ طے کرنا ہے جتنی اس پر قوت لگائی گئی ہو۔
بعض اوقات آپ کسی کام میں کم کوشش سے زیادہ نتائج حاصل کر لیتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کام کی انجام دہی میں کوئی خاص مہارت یا ٹیکنیک استعمال کرتے ہیں جو دوسرے عام لوگ استعمال کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ ان مہارتوں کی بھی بہت سی اقسام ہیں جو پہلے سے طے شدہ اور مستعمل ہوتی ہیں اور بعض کو آپ خود ایجاد یا تخلیق کر لیتے ہیں۔
اس لحاظ سے دنیا کی سب سے بہترین کامیابیاں تخلیق سے حاصل کیئے جانے والے نتائج ہیں جنہیں آپ کے سوا کوئی دوسرا حاصل نہیں کر سکتا ہے کیونکہ اس میں صرف اور صرف آپ کا دماغ استعمال ہوتا ہے جس کے طریقہ کار کو محض آپ خود جاننے کا اعزاز حاصل کرتے ہیں۔
سائنسی زبان میں ایسی کامیابی کو “پیٹنٹ” کہتے ہیں جو آپ کے نام سے تاحیات رجسٹر ہو جاتی ہے۔ اس میں سائنسی ایجادات بھی آتی ہیں جس سے سائنس دانوں کو ان کی ایجادات کی رویلٹی ملتی ہے اور وہ انہیں بیچ کر دولت اور نام کماتے ہیں جیسا کہ وائرلس کے موجد مارکونی کو زندگی میں بھی فائدہ ہوا اور لوگ اسے آج بھی جانتے ہیں۔
ناکامی کے بعد کامیابی کا کیمیائی عمل ایک ایسا چیلنج ہے جسے وہی لوگ قبول کرتے ہیں جن کی شخصیت میں انا اور خود اعتمادی ہوتی ہے۔ ایسے لوگ اپنے ارادے اور اختیار سے اپنا مدافعتی نظام مضبوط کر لیتے ہیں جس سے ایسے ہارمونز پیدا ہوتے ہیں جو انہیں کامیاب ہونے کے لیئے مدد فراہم کرتے ہیں۔ ورنہ بزدل دل لوگ حوصلہ ہار جاتے ہیں اور اندر سے ٹوٹ جاتے ہیں۔ ان کے لیئے ناکامی ایک روگ ہے جو عمر بھر کے لیئے بھی ان کا پیچھا کر سکتا ہے۔ اسی ناکامی کو عظیم لوگ اپنے حق میں قوت و طاقت کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور وہ جتنے زیادہ ناکام ہوتے ہیں اس سے دگنا وہ کامیاب ہوتے ہیں۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ “خبریں: اور “نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ “اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ “جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔