سوڑی گلی، کوزہ گر اور جفت ساز

سوڑی گلی، کوزہ گر اور جفت ساز

منصوبے کے مطابق،سوچ سمجھ کر آبادی کو بسانے کا عمل ٹاؤن پلاننگ کہلاتا ہے۔ 1950 کا ملہووالا کا نقشہ ذہن میں لائیں تو بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ ہمارے حساب سے کم ترقی یافتہ لوگ بھی کمال کے سمجھدار تھے ۔
جامع مسجد گاؤں کے بالکل مرکز میں ہے۔ اس کے آس پاس ہنر مندوں کی آبادیاں ہیں۔ایک کام سے وابستہ سارے افراد آپس میں رشتے دار تھے اور ان کی مشترک گلی یا حویلی تھی۔

آوی کوزہ گروں کے کام کی اہم ترین جگہ تھی۔ اس لیے کوزہ گروں کے مکان اور آوی پلاننگ کے تحت گاؤں کے کنارے پر بنائے گئے ۔ گنڈا کس سے آتے ہوئے ملہووالا داخل ہوتے ہی پہلے آوی(kiln) آتی تھی اور ساتھ ہی ہنر مندوں کے گھر، ایسے ہنرمند جو مٹی کو بولتا ہوا برتن بنا دیتے تھے ۔

سوڑی گلی، کوزہ گر اور جفت ساز

چاچا نور محمد کا اصل نام کم ہی لوگوں کو معلوم ہے۔ وہ سونا چاچا کے نام سے مشہور ہے۔ اپنی صفات کی وجہ سے وہ واقعی بائیس قیراط سونا ہے۔ سونا چاچا اپنی فیملی کا تعارف کرواتے ہیں۔ آپ بھی سنیں! ہم لوگ جامع مسجد کے پڑوسی اور اس نسبت سے بقول غالب ہمسایہ خدا ہیں۔ ہمارا فیملی نام اعلان کر رہا ہے کہ ہم مصلے کے اصلی وارث ہیں۔ سونا فیملی کی حویلی کی دیوار مسجد کے ساتھ مشترک ہے اور حالیه تعمیر اس کا کچھ حصہ مسجد میں شامل کیا گیا ہے۔
مسجد کا گیٹ جنوب میں تھا اس سے نکلیں تو بائیں ہاتھ باربر حضرات اور دائیں ہاتھ مستری صاحبان کے گھر تھے ۔اس گلی کے آخر میں کابلرز جفت ساز فیملی کی حویلی تھی ۔ مسجد کے گیٹ کے بالکل سامنے گلی کے دوسرے سرے پر کشمیری فیملی تھی وہ روئی پنجائی کا کام کرتے تھے ۔

مسجد سے مغرب میں دو گھر چھوڑ کر ملہووالا کی سب سے تنگ سوڑی گلی ہے۔ مقامی آئین کے مطابق جس گلی سے بھار سمیت کھوتی (Loaded Donkey)نہ گزر سکے اس کو تنگ گلی کہتے ہیں۔ اس گلی میں کپڑا بننے کی کھڈیاں تھیں۔ اس گلی کو جان بوجھ کر ٹاؤن پلاننگ کے تحت تنگ رکھا گیا تاکہ مال ڈنگر تانی خراب نہ کریں۔
اہل حرفہ مسجد کے آس پاس تھے ۔ کاشتکار حضرات بھی اپنی برادری کے لحاظ سے اپنی اپنی پانڈ محلے میں آباد تھے۔ شمال مغربی کونے میں کھوکھر آباد تھے ۔میالوں کے گھر آپس میں جڑے ہوئے تھے ۔ رمتال اور ہرل حویلی نما گھروں میں آباد تھے۔
ترڈ فیملی جنوب مشرقی پڑی پر رہتے تھے۔ مسجد کے مشرق میں بہت بڑا محلہ جودڑا راجپوتوں کا تھا۔ آبادی کے لحاظ سے ملہووالا کی سب سے بڑي کاشتکار کمیونیٹی گاؤں کے مشرق میں آباد تھی۔ گاؤں کے تین طرف پہاڑ اور چوتھی سائڈ پر سرکلر روڈ تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

ادب اطفال کا چمکتا جگنو بینش احمد

جمعرات مارچ 16 , 2023
بینش احمد نے تیزی سے سرحد پار اورملکی سطح کے رسائل میں جگہ بنائی ہے۔ ان سے ہونے والی گفتگو آپ کو بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے پر مائل کرے گی۔
ادب اطفال کا چمکتا جگنو بینش احمد

مزید دلچسپ تحریریں