ادب اطفال کا چمکتا جگنو بینش احمد

دنیائے ادب اطفال کا چمکتا جگنو بینش احمد

۔۔۔۔۔۔
تحریر و ملاقات: ذوالفقار علی بخاری

ایک زمانہ تھا جب ادب اطفال میں نئے لکھنے والے خال خال نظر آتے تھے لیکن 2021 کے بعد کئی نوجوان ادیبوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا یوں منوایا ہے کہ نام ور ادیب انھیں سراہنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ یہ حیران کن بات ہے کہ گزشتہ دو سالوں میں ادب اطفال میں جتنے نئے لکھنے والے نظرا ٓئے ہیں وہ اس سے قبل دکھائی نہیں دیے ہیں۔ ان میں سے کئی منفرد موضوعات کی بدولت قارئین اور نام ور ادیبوں کی نظروں میں قابل تعریف ہیں۔
بینش احمد کا شمار بھی انھی قلم کاروں میں ہوتا ہے۔ بینش احمد نے تیزی سے سرحد پار اورملکی سطح کے رسائل میں جگہ بنائی ہے۔ ان سے ہونے والی گفتگو آپ کو بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے پر مائل کرے گی۔
آپ نے قلم کو کس سوچ کے ساتھ تھاما ہے؟آپ کو لگتا ہے جس مقصد کے تحت قلمی جہاد شروع کیا ہے وہ آہستہ آہستہ پورا ہو رہا ہے؟ بینش احمد:کبھی سوچا نہیں تھا کہ جو اخبارات اور رسائل کبھی میں پڑھا کرتی تھی۔ایک دن ان میں میری تحریریں شائع ہوں گی-نویں جماعت میں ڈائری میں تھوڑا بہت کچھ نا کچھ لکھتی رہتی تھی۔ اس کے بعد پڑھائی کی وجہ سے پیچھے ہٹ گئی۔ایک دن ایک تحریر لکھی تو وہ شائع ہو گئی۔ اس دن مجھے لگا کہ میں بھی لکھ سکتی ہوں تو بس لکھنا شروع کر دیا۔میرے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر میری ذرا سی بات سے بھی کسی کو ہمت، حوصلہ، سبق اور تحریک ملتی ہے تو بس مجھے لگے گا کہ میرے لکھنے کا مقصد پورا ہو گیا ہے، بس اسی مقصد کے ساتھ لکھ رہی ہوں۔میرا رجحان ذیادہ تر معاشرتی کہانیوں کی طرف ہے۔ میں چاہتی ہوں جو بھی لکھوں پڑھنے والوں کو اس سے ایک مثبت پیغام یا تحریک ملے۔ انشاء اللہ ابھی ابتدا ہے آگے مزید ایسی چیزیں لکھوں گی جس سے پڑھنے والوں کو بہت اچھا سبق ملے گا۔
بچپن میں کس نوعیت کی کہانیاں پسند تھیں۔آج کیسی کتب پڑھنا پسند کرتی ہیں؟
بینش احمد:بچپن میں ہر قسم کی کہانیاں پڑھا کرتی تھی۔ مجھے آج بھی یاد ہے ہر اتوار کو اخبار آتا تھا جہاں بچوں کا صفحہ ہوتا تھا۔ میں سب سے پہلے وہاں موجود تمام کہانیاں پڑھتی تھی۔اور اب میں ذیادہ تر تجسس سے بھرپور کہانیاں پڑھنا پسند کرتی ہوں۔اس کے علاوہ معاشرتی، اخلاقی اور جاسوسی کہانیاں بھی پڑھتی ہوں۔
مطالعہ کا شوق کیسے ہوا، کن ادیبوں کے لکھے کو اپنے لیے مشعل راہ بنا رہی ہیں؟ بینش احمد:مطالعہ کا شوق بچپن سے تھا۔اپنے اسکول میں،میں لائبریری ڈیپارٹمنٹ کی انچارج ہوا کرتی تھی۔ اس کا فائدہ مجھے یہ تھا کہ میں اپنی مرضی سے کوئی بھی کتاب پڑھ سکتی تھی۔ مجھے جیسے ہی وقت ملتا تھا تب میں لائبریری جا کر کوئی نا کوئی کتاب پکڑ کر بیٹھ جاتی تھی۔جہاں تک ادیبوں کی بات ہے تو میں بہت سے ادیبوں سے متاثر ہوں۔ایک وقت تھا جب میں بہت ذیادہ ناول پڑھا کرتی تھی۔ وہ ایسے ناولز ہوتے تھے جن میں ذیادہ تر حب الوطنی، اور اللہ سے تعلق بتایا جاتا تھا۔ میں ایسے ناولز پڑھ کر بہت متاثر ہوتی تھی۔بہت سے ادیب ہیں سب کا نام لینا مشکل ہے۔ سب سے ذیادہ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ ایک بہترین مثال ہیں۔

ادب اطفال کا چمکتا جگنو بینش احمد


آپ کو کہاں تک تعلیم کا موقع ملا ہے، کیا لڑکیوں کی تعلیم دورحاضر میں اہمیت کی حامل ہے؟
بینش احمد :الحمدللہ۔ میں نے پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کی ہے اور اب علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم-ایڈ کر رہی ہوں۔لڑکیوں کی تعلیم ہر دور میں بہت اہم ہے لیکن آج کے دور میں لڑکیوں کی تعلیم ایک بہت اہم ضرورت بن گئی ہے۔ تعلیم حاصل کرنا عورت کا بنیادی حق ہے لیکن اْسے ہمیشہ محروم رکھا گیا ہے۔ بچیاں پیدا ہوتی ہیں اوروالدین اْن کی تعلیم کی فکر کرنے کی بجائے ان کی شادی کی فکر کرنے لگتے ہیں۔لوگ اکثر کہتے ہیں لڑکیوں کو تعلیم دلوا کر کرنا ہی کیا ہے۔جب انہوں نے آگے جا کر ہانڈی روٹی ہی کرنی ہے اور گھر سنبھالنا ہے۔جو خرچہ اِس کی پڑھائی لکھائی پر ہونا ہے اْسی میں اِس کو بیاہ دیں گے۔میں یہ نہیں کہتی ہوں کہ عورت گھر نہ سنبھالے۔ گھر کی وجہ سے ہی تو عورت کی عزت ہوتی ہے گھر تو اسے سنبھالنا ہی ہوتا ہے۔لیکن اِس کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی تو عورت کے لیے ضروری ہے۔اگر معاشرے میں خواتین تعلیم یافتہ ہوں گی تو اس سے سب سے زیادہ بھلا معاشرے کا ہوگا۔ کیوں کہ ایک تعلیم یافتہ خاتون پورے خاندان کو تعلیم یافتہ بنا سکتی ہے۔ تعلیم سے انسان میں شعور پیدا ہوتا ہے۔ تعلیم کی وجہ سے عورت اپنے گھر کے ساتھ ساتھ اپنی نسلوں کو بھی اچھے سے سنبھال سکتی ہے۔ اب جس نے نئی نسل کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ آگے چل کر اس معاشرے کو سنبھال سکیں، جو اس ملک و قوم کی خدمت کر سکیں جب وہ خود کسی قابل نہیں ہو ں گی تو وہ نئی نسل کی تربیت عمدہ انداز میں کیسے کریں گی۔
والدین کی مرضی سے تعلیم، روزگار اور شادی جیسے معاملات کے حق میں ہیں؟ بینش احمد:جہاں تک میری بات ہے تو تعلیم کے معاملے میں میرے والدین نے ہم سب بہن بھائیوں پر کوئی زبردستی نہیں کی۔میرے والد نے ہمیشہ مجھے یہ کہا ہے کہ:”اگر تمہیں لگ رہا ہے کہ تم یہ پڑھ کر سکتی ہو، تمہاری اسی چیز میں دلچسپی ہے تو ضرور کرو۔“میرے والدین نے کبھی بھی ہم بہن بھائیوں پر اپنی مرضی مسلط نہیں کی اور میرا خیال بھی یہی ہے کہ آپ اپنے بچوں کو وہی پڑھنے دیں جس چیز میں ان کا دل ہے۔ وہ اس چیز میں ذیادہ نکھر کر سامنے آئیں گے۔روزگار کے حوالے سے میں یہ کہنا چاہوں گی کہ اول تو روزگار ہمیں ہماری قابلیت کی بنا پر ہی ملتا ہے۔ ہمارے ملک کے حالات تو آپ جانتے ہی ہیں کہ بہت قابل انسان ان دنوں فارغ بیٹھے ہیں۔ ایسے میں اگر آپ کے والدین آپ کو کہیں کہ:”بیٹا! فی الحال یہ ہی کام مناسب لگ رہا ہے“ تو آپ ان کی بات مان لیں۔ آپ کے والدین کے پاس آپ سے ذیادہ تجربہ موجود ہے اس لیے والدین کی بات ماننا ہی بہتر ہے۔شادی کے بارے میں، جہاں تک میرا خیال ہے کہ بیشک کوئی بھی والدین اپنی اولاد کے لیے برا نہیں سوچتے، وہ یہی چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد ہر حال میں سکھی رہے۔ یہاں بھی یہی بات آ جاتی ہے کہ ہمارے والدین کا تجربہ ہم سے ذیادہ ہے۔ والدین اچھا ہی سوچتے ہیں باقی کھیل قسمت کا ہوتا ہے تو بیشک والدین کی مرضی کو اپنی مرضی سمجھنا ہی بہتر ہوتا ہے۔
ادبی دنیا میں کیا دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے؟
بینش احمد:ادبی دنیا میں جب سے قدم رکھا ہے ایک چیز بہت ذیادہ دیکھنے کو ملی ہے کہ یہاں فیورٹزم، رشتہ داریاں اور دوستیاں بہت چلتی ہیں۔ بس اسی چیز کو دیکھ کر اکثر دکھ ہوتا ہے۔ اگر یہ رشتہ داریاں ہماری ادبی دنیا سے نکل جائیں تو بہت سے نئے قابل بندے سامنے آئیں گے-
کن ادیبوں کے کام کو بے حد پسند کرتی ہیں؟ بینش احمد:اشفاق احمد،بانو قدسیہ ہاشم ندیم، عمیرہ احمد۔بچوں کے ادیبوں میں ابن آس محمد، نوشاد عادل، ذوالفقار علی بخاری مجھے پسند ہیں۔
پاکستان کے کن مسائل کا فوری حل چاہتی ہیں؟
بینش احمد:مہنگائی۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا حل میں فوری چاہتی ہوں۔ مہنگائی قابو میں ہو گی تو ملک کا تمام نظام بہتر رہے گا-

award


لڑکیاں خود کو کیسے بہادر بنا سکتی ہیں؟ بینش احمد:لڑکیوں کا بہادر اور مضبوط بننا وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔ وقت اور حالات بہت بدل چکے ہیں – ہمیں اس تیزی سے بدلتے وقت کے ساتھ چلنا ہے اور کامیاب بھی ہونا ہے۔لڑکیوں کو چاہیے کہ چھوٹی چھوٹی اور معمولی باتوں پر گھبرانے کی بجائے عقل مندی سے کام لیں اور ہمت کے ساتھ مسائل کا حل تلاش کریں۔ رونے دھونے اور نازک بننے کی بجائے اپنے آپ کو چٹان کی طرح مضبوط رکھیں تبھی وہ اس معاشرے میں ہمت کے ساتھ سر اٹھا کر چل سکیں گی۔
کیا ناکامی اور منفی سوچ سے انسان ذہنی طور پر تباہ ہوتا ہے۔ اس سے کیسے بچاو ممکن ہے؟
بینش احمد:بالکل منفی سوچ اور ناکامی سے انسان پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایک انسان اگر لگاتار ناکامی کا شکار ہو رہا ہے تو اس کا دل اس دنیا سے ہی اٹھ جاتا ہے۔ایسے بہت سے کیسیز میں خود کشی کا عمل دیکھا گیا ہے کہ آج کل کے نوجوان مسائل سے گھبرا کر اور حالات سے تنگ آ کر اپنی جان حرام طریقے سے لے لیتے ہیں جو کہ ایک بہت ہی برا فعل ہے۔اس کے پیچھے ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ موجودہ دور میں نوجوانوں کے اندر صبر اور برداشت جیسی کوئی چیز نہیں پائی جاتی ہے۔منفی سوچ سے بچاؤ اس طرح ممکن ہے کہ ہم ہر چیز کو مثبت لیں -ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کی مصلحت تلاش کریں اور اس کی مرضی کے مطابق چلیں۔ اس طرح ہم بہت سے برے نتائج سے محفوظ رہیں گے۔
کیا سچ لکھنے سے ادیب کو مسائل ہوتے ہیں، آپ تنقید کو کس نظر سے دیکھتی ہیں؟ بینش احمد:بالکل سچ لکھنے سے ایک ادیب کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن اگر آپ کو پتہ ہے کہ آپ کی بات بالکل درست ہے اور آپ حق پر ہیں تو آپ کو اپنی بات پر ڈٹ جانا چاہئے۔میں نے آج تک تنقید کو ہمیشہ برائے اصلاح ہی لیا ہے۔ بیشک ایسے بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو خوامخواہ کی نقطہ چینی کرتے ہیں لیکن میں اپنا دل مضبوط رکھتی ہوں۔
آپ کی نظر میں بچوں کو کتاب اور رسائل سے کیسے جوڑا جا سکتا ہے؟
بینش احمد:ٹیکنالوجی نے جہاں ہمارے لیے بہت سی آسانیاں پیدا کی ہیں۔ وہاں بہت سے مسائل بھی سامنے آئے ہیں جن میں سب سے ذیادہ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے بچے موبائل فون کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ انہیں کھانے پینے کا بھی کوئی ہوش نہیں رہتا ہے۔بچے ہر وقت فون میں مصروف رہتے ہیں کبھی گیمز تو کبھی کارٹون۔ بچوں کو اس چیز سے نکالنے کیلیے ضروری ہے کہ آپ انہیں کتاب کا تحفہ دیں، اسکولوں میں ایک پیریڈ رسائل اور کتابوں کے مطالعے کے لیے مخصوص ہونا چاہیے جس سے بچوں کو آہستہ آہستہ مطالعے کی عادت پڑ جائے گی-
آپ کی زندگی کا بہترین استاد کون ہے؟ کس نے آپ کی زندگی دھارا موڑا ہے کچھ اس حوالے سے آگاہ کرنا چاہیں گی؟ بینش احمد:الحمدللہ! آج تک میری زندگی میں جتنے بھی استاد آئے ہیں سب ہی میرے لیے بہت قابل احترام ہیں۔جہاں تک ادب کی دنیا کی بات ہے تو یہاں میرے استاد ذوالفقار علی بخاری سرفہرست ہیں جو بچوں کے نامور ادیب ہیں۔ میں جب اس شعبے میں نئی نئی داخل ہوئی تو میں بہت کشمکش کا شکار تھی۔ میں فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کہ میں بچوں کا ادب لکھوں یا بڑوں کا۔ میرے استاد ذوالفقار علی بخاری نے مجھے اس کشمکش سے نکالا اور مجھے ایک نیا راستہ دکھایا۔ اگر میں آج بچوں کی ادب کی جانب کسی حد تک متوجہ ہوں تو اس کی وجہ محترم ذوالفقار علی بخاری ہیں۔اس کے علاوہ ادبی دنیا میں محترم دستگیر شہزاد ہیں جو مجھے بالکل اپنی چھوٹی بہنوں کی طرح عزیز رکھتے ہیں۔ انہوں نے مجھے ادبی دنیا کی انتہائی تلخ باتیں بالکل کھلے انداز میں سمجھائی اور بتائی ہیں۔ آپ اپنے آپ کو اچھی شاگرد تصور کرتی ہیں؟
بینش احمد:میرے خیال میں ہر شاگرد ہی اپنے آپ کو اچھا سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ اپنے استاد کا من پسند کہلائے۔ جہاں تک میری بات ہے تو میں بھی اچھی شاگردہ بننے کی کوشش کرتی ہوں، کبھی کبھی اچھی شاگردہ سے بھی کچھ نہ کچھ غلط ہو جاتا ہے لیکن میرے استاد خندہ پیشانی سے نہ صرف درگزر کرتے ہیں بلکہ مناسب الفاظ میں سمجھاتے بھی ہیں۔
***
قارئین کے نام کیا پیغام دینا چاہیں گی۔
بینش احمد:زندگی کے ہر واقعے میں مثبت پہلو تلاش کریں اورہمت کبھی نہ ہاریں کوشش کرتے رہیں،ایک دن آپ کی کوشش ضرور رنگ لائے گی۔

مدیرہ | تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

مقبول ذکی مقبول کی شاعری میں "بھکر"

پیر مارچ 20 , 2023
مقبول ذکی آۓ روز مقبول سے مقبول تر ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ بھلا کیوں نہ ہو ۔ وابستہ آخر کس در ، سے ہے؟
مقبول ذکی مقبول کی شاعری میں “بھکر”

مزید دلچسپ تحریریں