ایک صدی کا قصہ،فتح جنگ ہائی اسکول

گورنمنٹ ہائی اسکول نمبر ۱ فتح جنگ

ایک صدی کا قصہ ہے ،دو چار برس کی بات نہیں

تحریر : آصف جہانگیر خان ، فتح جنگ

 ہمارے اردگرد کئی قابل فخر شخصیات اور ادارے موجود ہیں جن کے بارے میں جتنا بھی بتایا جائے اتنا ہی کم ہے۔فتح جنگ کی تاریخ اور شخصیات کے بارے میں ہمارے اس سفر کی آج کی منزل شہر کی قدیم درسگاہ گورنمنٹ بوائز ہائی ا سکول نمبر ا ہے۔ اس اسکول نے سینکڑوں لوگوں کی تقدیریں بدلی ہیں۔اسکول کی ابتداء 1920ء میں ہوئی۔ یہ ڈسٹرکٹ بورڈ کا اسکول تھا-اسکول کی عمارت پر سنگ مرمر کی تختی لگی ہے جس پر ڈی بی ہری چند اسکول کا نام درج ہے۔1928ء میں اسے ہائی ا سکول کا درجہ ملا۔اسکول سے مشرق کی جانب دو بڑے کمروں پر مشتمل ہوسٹل تھا۔ جسے بعد میں کلاس رومز بنا دیا گیا۔انہی میں سے ایک کمرہ اب ہائی اسکول کا مین ہال ہے جہاں تقریبات اور دیگر ایونٹس کا انعقاد کیا جاتا ہے۔اسکول کی عمارت کے نقشے کے مطابق اسکول کی مغرب جانب دسویں جماعتوں کے کلاس رومز ہیں۔ جبکہ مشرقی جانب دونوں طرف چار چار کمروں کے بلاک ہیں جن کے درمیان گیلریاں ہیں اور کھیل کی میدان کی طرف برآمدے بھی بنے ہوےٗ ہیں۔

ایک صدی کا قصہ،فتح جنگ ہائی اسکول

کسی زمانے میں ہال والی سائیڈ کی طرف دو کچن ہوا کرتے تھے۔جن کی عمارت ستر کی دہائی تک قائم رہی۔ان میں ایک ہندو کچن جبکہ دوسرا مسلم کچن تھا۔بعد میں ان دونوں کو سائنس روم اور ڈرائنگ روم میں تبدیل کردیا گیا۔دوکمرے جانب مغرب اور تین کمرے جانب مشرق ٹاوٗن کمیٹی نے بنوا کردیے تھے۔

عجیب حسن اتفاق ہے کہ 1927ء سے 1947ء تک کے سارے وقت میں یہاں سارے ہیڈ ماسٹر صاحبان مسلمان ہی رہے۔اس سکول کے پہلے ہیڈ ماسٹر جناب ظفر احمد صاحب تھے۔ دوسرے ملک اگر خان، تیسرے مفتی محمد اسلم اور چوتھے خان غلام خان نیازی تھے جن کو آج تک لوگ یاد کرتے ہیں۔اسی اسکول میں ایک اور مشہور ہیڈماسٹر ملک فضل الہی بھی گزرے ہیں جوکہ پنڈ ی سرہال گاؤں سے تعلق رکھتے تھے۔انتہائی پڑھے لکھے اور اس زمانے میں علی گڑھ یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیا ہوا تھا۔جبکہ فارن کی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی ڈاکٹریٹ کی ڈگری ہولڈر بھی تھے۔کلاہ باندھے ہوتے اور ان کے زمانے کے لوگوں کے مطابق سکول میں جمعہ کی نماز کی امامت بھی خود ہی کرایا کرتے تھے۔وہ ریٹائرمنٹ کے بعد اٹک شہر میں وکالت کرتے رہے۔ اٹک بار میں ان کی تصویر آج بھی آویزاں ہے۔ان کے بیٹے عبدالروف ملک بھی اٹک کے چوٹی کے وکیل تھے۔اور ان کی بہو بیگم روف اٹک گرلز اسکول کی ہیڈمسٹریس رہیں۔اس اسکول کے پی ایچ ڈی ہیڈماسٹرز میں دوسرے تھٹی گجراں گاوٗں سے تعلق رکھنے والے چوہدری اجمل صاحب ہیں جوکہ ہمارے استاد محترم چوہدری محمد اعظم کے صاحبزادے ہیں۔حسن اتفاق ہے کہ والد کے بعد بیٹا بھی اسی اسکول میں ہیڈماسٹر کے طور پر فریضہ سرانجام دیتا رہا۔

Asif Jahangir Group
خان اقبال (درمیان )، آصف جہانگیر(سویٹر والے) اور عبدالعزیز 1968

ملک فضل الہی صاحب کے بعد ایک طویل اور شاندار دور ملک نور زمان صاحب کا تھا۔ملک نور زمان صاحب 1938ء میں رنگلی تحصیل جنڈ میں پیدا ہوےٗ۔ابتداییٗ تعلیم سناتن دھرم سکول جنڈ سے حاصل کی۔ جہاں لالہ امرناتھ اور لالہ بھوانی داس ان کے استاد تھے۔ساتویں جماعت میں تھے کہ پاکستان بن گیا۔پھر انہوں نے سر اسکندر میموریل اسکول بسال میں داخلہ لیا اور نذیر قریشی کے شاگرد ہونے شرف حاصل کیا۔ سابق ISI چیف جنرل ر شجاع پاشا انہی نذیرقریشی صاحب کے بیٹے ہیں۔میٹرک اٹک اسکول سے 1950 میں کیا۔ شمس آباد کی سیاسی شخصیت ملک اسلم ان کے کلاس فیلو تھے۔ اٹک کالج میں پروفیسر سعادت علی خان۔کمانڈر ظہور اور پروفیسر عثمان کے شاگرد رہے۔وہ 1960 سے فتح جنگ اسکول کے سیکنڈ ہیڈماسٹر رہے۔

12اپریل 1967ء کو میں چھٹی جماعت میں داخلے کے لیےوالد صاحب کےساتھ ہاییٗ اسکول گیا۔ اسکول کے دفتر میں ہیڈماسٹر فیض الحسن شاہ صاحب تھے۔ کے علاوہ خان محمد اقبال خان صاحب اور ملک نورزمان صاحب بھی موجود تھے۔

 ملک نورزمان صاحب اس وقت سیکنڈ ہیڈ ماسٹر تھے۔لیکن اسکول پر رعب اور دبدبہ انہی کا چلتا تھا۔دبلا پتلا سمارٹ جسم، ہمیشہ صاف ستھرے پینٹ سوٹ میں ملبوس ہوتے۔۔تیز چلتے، تیز بولتے اور تیزی سے حکم چلاتے۔یوں محسوس ہوتا جیسے اس مختصر جسم میں بجلیاں بھری ہوییٗ ہیں ۔ ملک نور زمان صاحب 1975ء میں اسکول کے ہیڈماسٹر مقرر ہوےٗ۔اور 1993ء میں اسی اسکول سے بطور ہیڈماسٹر ریٹایٗرڈ ہوےٗ۔ ملک نورزمان صاحب ایک بہت ہی قابل استاد اور نہایت جرات مند منتظم رہے۔۔سکول کی 90 سالہ تاریخ میں ان کی ہیڈماسٹری کا دور سب سے طویل ہے۔ انہوں نے اس ادارے کو اپنی محنت، لگن اور جانفشانی سے چار چاند لگا دیے۔ -ملازمت کے بعد ملک نور زمان صاحب یاداللہ میں محو ہوگےٗ۔ہر سال حج کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور اب تک ماشاء اللہ اکیس حج کرچکے ہیں۔ان کے بعد مشتاق عاجز صاحب جیسے کہنہ مشق شاعر، فلاسفر اور درویش ہیڈماسٹر رہے۔

خان محمد اقبال خان مقصود ہمیں چھٹی جماعت سے ہی انگریزی پڑھانے لگے۔ان کا تعلق ناڑہ تحصیل جنڈ سے تھا۔ آپ 1927ء کو اولیاء خان کھٹڑ کے گھر پیدا ہوےٗ۔ مقصود صاحب اپنے بچپن کے ہندو اساتذہ کو بہت یاد کرتے تھے۔انہوں نے عملی زندگی کا آغازپرایٗمری ٹیچر کے طورپرکیا۔ تعلیم ایم اے تک پرائیویٹ ہی رہی جب کہ ایم ایڈ انہوں نے لاہور سے کیا۔ حضرو سے ان کا تبادلہ فتح جنگ میں 1960ء میں ہوا۔ اور پھر وہ اسی شہرکے ہو کر رہ گےٗ۔ہایٗ اسکول فتح جنگ میں انہوں نے تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ ساری غیر نصابی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیا۔ سید فیض الحسن شاہ صاحب کے دور میں 1965ء میں اسکول کے ادبی مجلہ خورشید کا اجراء کیا۔ اسکول کے بچوں کی لکھی نظمیں اس میں شایع کیں۔اس مجلہ میں ایک مستقل کالم کیکروں کے ساےٗ میں سارے حالات لکھتے۔ خورشیدکا دوسرا شمارہ 1969 میں شایع ہوا جب ملک نور زمان ہیڈماسٹر تھے۔ میں اس وقت آٹھویں جما عت کا طالبعلم تھا۔ اس شمارہ میں میرا مضمون بھی شایع ہوا۔خان محمد اقبال صاحب بیک وقت شاعر، ادیب، افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس تھے۔۔انہوں نےا سکول میں کیٗ ڈرامے لکھے بھی اور انہیں سٹیج بھی کروایا۔ 1965ء کے دور میں جو پہلا ڈرامہ اسکول میں سٹیج کیا گیا تھا وہ ڈرامہ ہیرا پتھر تھا۔دوسرا ڈرامہ ٹیپو سلطان، پھر محمد بن قاسم، ضرب ابدالی، شیر خوارزم اور سنگ میل جیسے لازوال تاریخی ڈرامے سٹیج کیے گےٗ۔پس منظر میں ان کے بولے گےٗ ڈائیلاگ ابھی تک کانوں میں گونجتے ہیں۔ان کی لکھت کسی طرح بھی ناول نگار نسیم حجازی سے کم نہیں تھی۔اور پھر ان کے سٹیج کرنے کا فن اس ہنر کو دوآتشہ کردیتا تھا۔مجھے ساری زندگی حسرت رہی کہ کاش وہ مجھے بھی کسی ڈرامے میں کاسٹ کرتے۔حالانکہ انہی کی تربیت کی بدولت میں تقریری مقابلوں میں پیش پیش ہواکرتا تھا۔بزم ادب کا 1970ء میں جنرل سیکرٹری رہا۔اسی دور میں ایوب خان کا جشن صدسالہ بھی منایا گیا۔ اور جشن نزول قرآن پاک کی مبارک تقریب کا بھی انعقاد ہوا۔

بقول ڈاکٹر عبدالسّلام

میرے نانا جی فتح جنگ میں نائب تحصیلدار تھے اس لیے خاندان کے بچوں کے لیے اسکول کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے یہ باسہولت مقام تھا۔ میرے والد قاضی عبدالقدوس (1928-2003) نے سن 1945ء میں پنجاب یونیورسٹی سے میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی اسکول فتح جنگ سے پاس کیا۔ میرے پردادا کا نام محمد جان تھا۔ میٹرک کی سند میں (Mohd John) جبکہ انٹر کی سند میں اسے (Mohd John) لکھا گیا۔ اسکول اور دفاتر کے عملے نے یا تو آسانی کے لئے اور یا پھر برطانوی افسران کی خوشنودی کے لئے جان کو جون کر دیا ۔ اسی طرح سے کامل پور سیدان بہت پہلے کیمبل پور سیدان میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ جان سے جون کے بارے میں ایک اور قدرے پیچیدہ وضاحت یہ بھی ہو سکتی ہے ، شاید کہ وہ اسکاٹش نژاد تھا جس نے اسلام قبول کیا تھا۔ لہذا مصنف ایک مستند اسکاٹ ہے۔   کی سمجھے او جناب  

certificate of matriculation
عبدالقدوس صاحب کی میٹرک کی سند 1945، پنجاب یونیورسٹی برطانوی ہند

سن 1945 میں پنڈ ی سرہال کے ملک فضل الہی صاحب  میرے والد قاضی عبدالقدوس کے استاد تھے۔ جب ملک صاحب پہلی بار اسکول میں آئےتو انہوں نے تمام طلباء کو پگڑیاں پہنے دیکھا۔ ملک صاحب نے کہا “حضرات ، پگڑیاں اتاریں اور اپنے دماغوں کو تازہ ہوا لگوائیں”۔ طالب علموں نے ایسا ہی کیا، اگلے پیریڈ میں ایک اور استاد کمرہ جماعت میں داخل ہوئے، ننگے سر لڑکوں کو دیکھ کر  گھبرا کر بولے یہ کیا بکواس ہے؟ طلبہ نے ملک صاحب کا حکم سنایا۔ استاد نے کہا… ملک صاحب کی کلاس میں جیسا وہ چاہیں کریں، لیکن باقی کے پیریڈوں میں شرفاء کی طرح پگڑیاں پہن کر رکھیں۔

ملک فضل الٰہی ایڈووکیٹ گورا قبرستان اٹک کے قریب رہتے تھے۔ان کے بیٹے ملک عبدالرؤف بھی وکیل تھے۔ لیکن اکثر لوگ انہیں بیگم  رؤف کے شوہر کے طور پر ہی جانتے تھے۔ وہ 1967 سے 1976 تک ہائی اسکول اٹک میں میری بیوی اور بہنوں کی استانی تھیں۔ بریگیڈیئر ڈاکٹر اعظم خان آئی سپیشلسٹ اور خاقان بیگم رؤف کے بیٹے ہیں۔

میں نے انہیں آخری بار 1998 میں سی ایم ایچ کھاریاں میں دیکھا تھا جب ڈاکٹر اعظم وہاں تعینات تھے۔ میرے والد قاضی عبدالقدوس نے ملک فضل الٰہی کے بارے میں ایک پیشہ ورانہ لطیفہ سنایا۔ ملک صاحب نے ریٹائرمنٹ کے بعد وکیل کی حیثیت سے کیریئر کا آغاز کیا۔ ہوا یوں کہ ایک شخص کو قتل کر دیا گیا، اس کے اہل خانہ نے ملک صاحب سے ملاقات کی اور اس قتل کی المناک داستان سنائی۔ گداز دل  ملک صاحب یہ واقعہ سن کر باقاعدہ  رونے لگے۔ متاثرہ خاندان نے ملک صاحب کو تسلی دی اور کسی اور وکیل کی خدمات حاصل کرنے کے لیے روانہ ہو گئے۔

magazine
فتح جنگ ہائی اسکول کا مجلہ خورشید

میرے چچا قاضی مشتاق (1934-2013) نے 1953 میں گورنمنٹ ہائی اسکول فتح جنگ سے مڈل اسکول کا امتحان پاس کیا۔ ان کے مضامین ریاضی، اردو، انگریزی، سائنس ، تاریخ اور اسلامیات تھے۔میرے ماموں احسن قاضی نے 1966 میں اس اسکول سے میٹرک پاس کیا۔  اس کی تصدیق مجھے فتح جنگ اسکول کے میگزین خورشید کے پہلے شمارے کی ورق گردانی کے دوران ہوئی، جو مجھے 1960 کی دہائی کے اواخر میں ماموں احسن کی کتابوں میں سے دستیاب ہوا۔ احسن قاضی ایم۔ ڈی  1980 سے کیلیفورنیا میں پلمونولوجسٹ ہیں۔ گورنمنٹ ہائی اسکول میں پڑھنے والے میرے خاندان کے آخری افراد میرے خالہ زاد ثاقب ریاض اور آصف ریاض تھے۔ ثاقب ریاض فتح جنگ میں بشیر خان (آصف جہانگیر کے بھائی) کے ہم جماعت تھے۔ بشیر خان پی ایچ ڈی ہیں اور ثاقب نے بلومنگٹن سے پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلو شپ کی ہے۔

تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

ڈاکٹر اشرف کمال سے گفتگو

منگل جولائی 19 , 2022
مجھے اچھا لگتا ہے کہ میں اردو زبان وادب کی وجہ سے عالمی برادری کا حصہ بن گیا ہوں
ڈاکٹر اشرف کمال سے گفتگو

مزید دلچسپ تحریریں