مری روڈ سے بھابھارہ بازار میں داخل ہوں تو شروع میں آپ کو پرانی اور قدیم تاریخی عمارتیں نظر آئیں گی، اسی سڑک پر سیدھے چلے جائیں،
تاریخ
نہا دھو کر سرمہ لگا کر ۔ تیل سے بال چمکا کر اور ڈِنگا چیر (مانگ) کڈھ کے پیدل چل پڑے ۔گنڈ اكس سے بس پکڑی اور کمڑیال پہنچ گئے۔
جغرافیہ ضلع اٹک کے نام سے ADI صاحب نے کتابچہ لکھا تھا۔ یہ ہمارے پانچویں کلاس کے نصاب میں شامل تھا۔
ایڈمشن بہت آسان تھا۔ والد صاحب بچے کا ہاتھ پکڑ ے سکول جاتے دوسرے ہاتھ میں گڑ یا بتاشے ہوتے تھے ۔
آوی کوزہ گروں کے کام کی اہم ترین جگہ تھی۔ اس لیے کوزہ گروں کے مکان اور آوی پلاننگ کے تحت گاؤں کے کنارے پر بنائے گئے ۔
دکانوں کو دو چابی والا دیسی تالہ لگاتے تھے ۔ تالے کی دونوں اطراف میں چابی کے لئے سوراخ ہوتا تھا ۔
1970 تک پورے گاؤں میں صرف دس بارہ بیٹھکیں تھیں۔ ان کی حیثیت ڈرائنگ روم سے زیادہ مردان خانے/ حجرے کی تھی ۔
بارش اور سردی کے موسم میں پسار / برانڈے میں بنی ہوئی چلھ استعمال ہوتی چھت پر جانے کے لئے سیڑھیاں بہت کم گھروں میں تھیں ۔
گھر سے جن اور مستری نکالنا دونوں مشکل کام ہیں۔اس میں علما کا اختلاف ہے کہ زیادہ مشکل کام کون سا ہے۔
واپسی پر یہ بدمعاش شغل کے طور پر اپنی ڈانگوں سے لکڑی کے پرانالوں پر وار کرکے ان کو اکھیڑ دیتے ۔