دروازہ، جندرےاور گھانڑی

دروازہ، جندرےاور گھانڑی

دروازے کے سامنے گلی کا حصہ  بہونگر کہلاتا ہے اس کی صفائی کا بھی اہتمام کیا جاتا تھا ۔ 1970 میں پورے گاؤں میں نو دکانیں تھیں ۔ ان دکانوں کو دو چابی والا دیسی تالہ لگاتے تھے ۔ تالے کی دونوں اطراف میں چابی کے لئے سوراخ ہوتا تھا ۔چابیوں کا وزن تالے کے برابر ہوتا تھا۔ تالہ اس وقت جندرا کہلاتا تھا۔ بابا صاحب خان کھیڑا ہمارے دادا جان حافظ محمد جان کے دوست تھے ۔ اس تعلق کو اباجی نے بھی نبھایا اور میں بھی ان کو سلام کرنے اہتمام سے حاضر ہوتا تھا۔1971 کے الیکشن میں ان کی دکان پر  سائیکل  کے انتخابی نشان کا پوسٹر لگا ہوا تھا یہ شاید اللہ یار کھنڈا کی کنونشن لیگ کا تھا۔

بابا امیر ملا سےجامع مسجد ملہووالا کی 1940 کی تعمیر نو کا ذکر سنا تھا ۔سب سے پہلے مسجد کی کرسی کو گلی کے لیول سے اونچا کیا گیا۔ بیلوں کے پیچھے  کراہ باندھ کر آس پاس کی مٹی مسجد کی جگہ پر ڈالی گئ ۔ تیل کی گھانی شریف کو گلی کے لیول پر رکھا گیا۔باقی مسجد کی سطح چار فٹ اونچی رکھی گئی ۔ کراہ کو ماضی کا بلڈوزر کا بلیڈ سمجھ لیں ۔ عام طور پر اس کو بن ( بند ) باندھنے یا ٹوٹے ہوئے بن مرمت کرنے لیے استعمال کیا جاتا تھا ۔ منگالی سسٹم کے تحت تین چار کراہ اکٹھے کام کرتے تھے ۔

  ملہووالا غریب مزارعوں کا گاؤں تھا۔ساری زمین کمڑیال کے مالکوں کی تھی ۔ غربت کے باوجود ہر شخص نے مسجد کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ ایک باباجی نے اپنا نیا کھیس  کھتری دکاندار کے پاس گروی رکھ کر دو روپے ادھار لیا اور مسجد میں چندہ جمع کرا دیا ۔

  مسجد تراشیدہ ( گھڑے ہوئے) پتھروں کی تھی۔ رندہ مستری صاحبان لکڑی کی سطح سموتھ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ لیکن اس دفعہ رندے سے سینڈ سٹون کو ہموار کرنے کا تجربہ کیا گیا۔ رندے کا بلیڈ ٹوٹ گیا ۔  اس پر مقامی میٹالرجسٹ ( مستری) صاحبان نے نئی ٹیکنیک سے سخت بلیڈ بنایا تجربہ کامیاب ہو گیا۔ اس کارروائی میں میاں محمد صاحب گنڈاکس اور ملہووالا کے بابا نیک اور عباس صاحبان شامل تھے ۔

  مینار میاں محمدصاحب نے بنائے ۔عمران خالق سے روایت ہے کہ بابا نیک صاحب ان کے پاس جاتے تاکہ مینار بنانے کا طریقہ سیکھ لیں۔ میاں محمدصاحب ان کے آنے پر تیسه کرنڈی  سائڈ پر رکھ کر گپ لگانا شروع کر دیتے ۔جب چند بار ایسا ہوا تو بابا نیک صاحب سمجھ گئے کہ میاں محمدصاحب اپنی سکل skill  خاندان سے باہر  ٹرانسفر نہیں کرنا چاہتے ۔  شاید اسی احتیاط کا نتیجہ تھا کہ 1970  میں ان میناروں کو مرمت کرنے کے لئے میاں محمدصاحب کے بیٹے نور حسین بلائے گئے ۔

دروازہ، جندرےاور گھانڑی

2019 میں قاضی اکرام صاحب کی وصیت اور مالی مدد کے تحت گرلز سکول کے پاس مسجد قاسم بنوائی گئی۔ نوید انعام سے پتہ چلا کہ اب مسجد بنانے والے مسجد سپیشلسٹ مستری صاحبان ہیں جو صرف یہی کام کرتے ہیں ۔ان کی بکنگ کرانی پڑتی ہے ۔وہ ایک مسجد کا کام ختم کر کے دوسری مسجد کا کام شروع کرتے ہیں۔

1974 تک ملہووالا میں چار مساجد تھیں۔ جامع مسجد اور لاہنی مسجد پکی تھیں۔ کھوکھر مسجد اور پار پڑے والی مسجد کچی تھیں۔ کھوکھر مسجد کو چھوڑ کر باقی تینوں مساجد میں تیل والی گھانی تھی۔کھوکھر مسجد والوں کو شدت سے احساس تھا کہ ہم اس سعادت سے محروم ہیں ۔

سرکاری طور پر ہمارا گھر جامع مسجد کے ساتھ لگتا تھا۔وہاں کا پنہارا نور عبداللہ ہمارے گھر ودیفه (وظیفه) لینے آتا تھا   لیکن میری اکثر نمازیں ناناجی کی وجہ سے لاہنی مسجد میں ہوتیں۔

پانی کی کمی کی وجہ سے مسجد کے وضو خانے کا پانی مسجد سے باہر pond بنا کر جمع کر لیا جاتا تھا ۔ یہ پانی لوگ گارا بنانے کے لئے لے جاتے تھے ۔ مسجد کے صحن کے ایک کو نے میں ٹین / کنستر کی شکل کا کھڈا بنا ہوا ہوتا تھا۔اس میں بارش کا پانی جمع ہو جاتا۔ برستی بارش میں پنہارا اس پانی سے مسجد کا حمام بھر دیتا ۔ یوں وہ کھوہ سے پانی لانے کی مشقت سے بچ  جا تا۔

[email protected] | تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

عاشق مست جلالی

ہفتہ مارچ 11 , 2023
ادب کے دائرے سے باہر کھڑے ہم جیسے لوگ جو ادب کی تعریف کرنےسے بھی نا بلد ہیں وہ ادب اور ادبی میلے کا احاطہ کیسے کرسکتے ہیں؟
عاشق مست جلالی

مزید دلچسپ تحریریں