پُھوڑی، جھوکھا اور دعا

پُھوڑی، جھوکھا اور دعا

  صف ماتم مشکل سا لفظ ہے ۔ صف کو اٹک والے    پھوہڑ     کہتے ہیں۔اور صف ماتم کو پھوہڑی۔ ہمارے گاؤں میں رواج تھا کہ عورتیں ماتم والے گھر جاتے ہوئے آٹے کی پلیٹ بھر کر لے جاتی تھیں اور اس کو وہاں جا کر آٹے والی پیٹی میں ڈال دیتی تھیں۔ گھر کی چکی میں آٹا پیسنے کا ماتم کے گھر والوں کے پاس وقت اور ہمت نہیں ہوتی تھی۔ شاید اس لئے آٹا لے کر جاتے تھے۔
خواتین کے اس موقع پر اظہار افسوس کے کچھ خاص جملے ہوتے تھے۔
  کتنی ہک آکھاں    ( کتنا افسوس کروں   ؟) اس کا جواب ہوتا تھا   جتنی آکھو    اتنی    ای   تھوڑی۔( جتنا افسوس کرو کم ہے)
   وت !بابا جی    ٹور    چھوڑے   نے
  دیونا   دیہاڑا  
مردوں والی سائیڈ پر یہ الفاظ تھے
  حق  نا  راہ   وے
اسکا جواب تھا   حق  ہویا
  اگر تعزیت پر  کسی معقول وجہ کے بغیر دیر سے جائیں تو سوگواران دل ہی دل میں کہتے ہیں۔
تسی آئے او    کم   سنوار
اسی رہے آں    غم    وسار
آپ تو اپنے کاموں سے فارغ ہو کر تشریف لائے ہیں۔اور اتنا عرصہ گزرنے کی وجہ سے ہم غم بھلا چکے ہیں۔
 راقم کو ایک بزرگ خاتون سے یہ  گلہ بالجہر سننا پڑا اس لئے الفاظ یار رہ گئے۔
  ھمارے کلاس فیلو عثمان حضرو کے والد صاحب پچھلے مہینے فوت ہوئے۔ پروفیسر بنارس صاحب کامرہ کلاں سے اس سلسلے میں بات ہوئی تو فرمانے لگے
   میں   جھوکھا   کر    چھوڑا  اے
اظہار افسوس یا تعزیت کو  جھوکھا کہتے ہیں ۔ایک عرصے بعد یہ ٹھیٹھ لفظ سنا ۔
۔
   1982 میں کاملپور سیداں میں  بابا گلاب کشمیری کا انتقال ہوا تو فاتحہ کے لئے امام بارگاہ میں بیٹھے تھے 
   ھمارے بہنوئی ڈاکٹر اعجاز  کے والد صاحب 2004 میں   ویسہ   گاؤں میں فوت ہوئے ،وہاں بڑا اچھا رواج دیکھا ۔فاتحہ خوانی کے لئے مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے ۔



  پھوہڑی دھونا ایک خاص ایونٹ ھوتا تھا۔فوتگی کے تیسرے دن مستورات سارے گھر کے کپڑے کنوئیں پر یا کس ( ندی) پر جا کر دھوتی تھیں۔ جن چادروں/ دریوں پر تعزیت کرنے والی خواتین بیٹھتی تھیں ان کو بھی اس دن دھویا جاتا تھا   اس عمل کو    ۔پھوھڑی دھونا    کہتے تھے۔ یہ سوگ ختم ہونے کا آفیشل اعلان ہوتا تھا۔
بیگم صاحبہ کی ماہرانہ رائے کے مطابق ہماری  قاضی فیملی میں اس عمل کا رواج نہیں تھا ۔ تھلی پانڈ میں پھوھڑی دھونے کا اہتمام تھا   اب لوگوں کے پاس پیسہ عام ہے اس لئے اب پھوہڑی دھونے کی بجائے تیجے / چوتھے کی دیگیں کھڑکتی ہیں۔

دروغ بر گردن راوی    ایک گاؤں میں جنازے کے بعد میت کے لواحقین نے کھانے کا اصرار کیا ، اُن کا دل رکھنے کے لئے کھانے پر جا بیٹھے ۔ بہت سارے لوگ فرشی نشست پر بیٹھےکھانے کا انتظار کر رہے تھے۔ کچھ دیر بعد ہمارے سامنے ماڑا سا حلوہ ، روٹی اور سالن کا ڈونگہ رکھا گیا ۔کھانا شروع کیا تو دیکھا کہ ڈونگے میں محض شوربا ہے بوٹیاں نہیں ہیں ۔ اتنے میں ایک لڑکے نے ڈونگے کے ساتھ پلیٹ رکھی کہ یہ ہڈیوں کے لئے ہے ۔ صف میں کھانا کا شوقین بذلہ سنج شخص بولا کہ لڑکے آپ کے گاؤں میں ، حلوے سے ہڈیاں نکلتی ہیں ۔ صاحب خانہ سامنے کھڑا ، روہانسا ہو کر بولا آپ سے پہلے دو پالٹیاں (پارٹیاں ) بیٹھیں اور سب بوٹیاں کھا گئیں یہ بھی نہ سوچا کہ میت والا گھر ہے کچھ تو لحاظ کریں ، معذرت شوربا ہی بچا ہے   ۔مماثلت اتفاقی ہے۔

  تعزیت کی شرعی حیثیت
کسی  کے انتقال پر میت کے متعلقین  کو تسلی دینا اور صبر کی تلقین کرنا  سنت ہے میت کے گھر والوں کے یہاں جا کر ان کو تسلی دیں، ان کی دل جوئی کریں، صبر کی تلقین کریں،  ان کے اور میت کے حق میں دعائیہ جملے کہیں، تعزیت کے الفاظ اور مضمون متعین نہیں ہے،صبر اور تسلی کے لیے جو الفاظ زیادہ موزوں ہوں وہ جملے کہے،   تعزیت کے دوران ہر آنے والے کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا سنت سے ثابت نہیں ہے، اور نہ ہی اس کے لیے کوئی دعا مخصوص ہے۔
اس لیے اس کو لازم سمجھ کر کرنا درست نہیں ہے، البتہ لازم سمجھے بغیر مغفرت کی کوئی بھی دعا کی جائے یا کبھی ہاتھ اٹھا کر دعا کرلی  تو کوئی حرج نہیں ہے۔

فتوی نمبر : 144001200433

دارالافتاء :  بنوری ٹاؤن کراچی

Title Image by Ri Butov from Pixabay

[email protected] | تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

مختار تلہری بریلی کی اردو شاعری کا تجزیاتی جائزہ

جمعہ فروری 9 , 2024
مختار تلہری ثقلینی کی پیدائش یکم فروری 1960 عیسوی کو ہوئی جبکہ شاعری کا آغاز 1981 میں ہوا
مختار تلہری بریلی کی اردو شاعری کا تجزیاتی جائزہ

مزید دلچسپ تحریریں