مختار تلہری بریلی کی اردو شاعری کا تجزیاتی جائزہ

مختار تلہری بریلی کی اردو شاعری کا تجزیاتی جائزہ

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

مختار تلہری ثقلینی کی پیدائش یکم فروری 1960 عیسوی کو ہوئی جبکہ شاعری کا آغاز 1981 میں ہوا۔ اب تک آپ کے 8 شعری مجموعے منظرِ عام پر آچکے ہیں نیز نواں اشاعت کے مرحلے میں ہے ۔‍ بہت سے اداروں اور تنظیموں سے انعام و اکرام بےشمار اعزازی اسناد نیز متعدد ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں جن میں علامہ اقبال ایوارڈ ، داغ دہلوی ایوارڈ ، فخرِ ادب شامل ہیں ۔
مختار تلہری کی شاعری میں خوف، طاقت، ایمان اور معاشرتی مسائل کے موضوعات شامل کئے گئے ہیں، آپ کے اشعار میں زندگی کے جذباتی اور روحانی جہتوں کو تلاش کیا جاسکتا ہے۔
مختار تلہری کی اکثر شاعری خوف اور طاقت کے دوہری موضوع کی عکاسی کرتی ہے، جو دل میں خوف اور کسی کے اعمال میں طاقت کے درمیان فرق کو پیش کرتی ہے۔ اشعار مذہبی تعلیمات کو فراموش کرنے اور امن کی تلاش کے اثرات کو بھی چھوتی ہیں۔

مختار تلہری بریلی کی اردو شاعری کا تجزیاتی جائزہ


مختار تلہری کی شاعری کی ساخت اور تھیم کا فنی و فکری جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کی شاعری ایک متوازن ساخت کی پیروی کرتی ہے، بغیر کسی رکاوٹ کے مختلف موضوعات کو خوبصورتی سے اشعار کا جامہ پہنایا گیا ہے۔ شاعر نے ایک انوکھا جوکسٹاپوزیشن استعمال کیا ہے، جو ظاہری شکل اور حقیقت کے درمیان تفاوت کو ظاہر کرتا ہے، جس کی علامت خرگوش کی طرح ملبوس شیر ہے۔

شاعر نے گہرے معنی و مفاہیم کو بیان کرنے کے لیے خوبصورت استعاروں، متضاد تصویروں اور علامتوں کو استعمال کیا ہے۔ ’’دل میں خوف کا اثر پیروں کی آنکھوں میں ہے‘‘ والی سطر ان کے استعارے کے ماہرانہ استعمال کو ظاہر کرتی ہے۔
اشعار کا تکنیکی جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مختار تلہری کی شاعری کے فنی پہلو قابل تعریف ہیں، جو زبان پر ان کی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس کے شاعرانہ آلات کا استعمال اظہار کی فراوانی کو بڑھاتا ہے اور اشعار کو سحر انگیز اور فکر انگیز بناتا ہے۔
آپ کے اشعار کا فکری جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ
مختار تلہری کے اشعار کی فکری گہرائی ان کے پیچیدہ انسانی جذبات اور معاشرتی مسائل کی کھوج سے ظاہر ہوتی ہے۔ آپ کے اکثر اشعار ایمان، طاقت کی حرکیات، اور اخلاقی تعلیمات کو نظر انداز کرنے کے نتائج پر غور کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
اسلوبی لحاظ سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مختار تلہری کی شاعری میں اسلوبیاتی عناصر روایتی اور عصری اسلوب کے ہم آہنگ امتزاج سے نمایاں ہیں۔ اس کی بہترین منظر کشی اور جامع زبان کا استعمال جمالیاتی کشش میں اضافہ کرتا ہے۔
تجزیاتی لحاظ سے جائزہ لینے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ خوف، طاقت اور ایمان کے بارے میں مختار تلہری کا تجزیاتی نقطہ نظر قارئین کو انسانی تجربے کی پیچیدگیوں پر غور کرنے کے لیے ایک عینک فراہم کرتا ہے۔ تجزیاتی گہرائی قارئین کو سماجی اصولوں اور ذاتی عقائد پر سوال کرنے کی دعوت دیتی ہے۔
آپ کے اشعار کا تنقیدی جائزہ لینے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اگرچہ آپ کی شاعری فکری طور پر محرک معلوم ہوتی ہے لیکن کچھ لوگ اور ناقدین علامتوں کو سمجھنے میں مشکل محسوس کر سکتے ہیں۔ مزید برآں بعض موضوعات کی مزید تفصیلی تلاش قاری کی مصروفیت کو بڑھا سکتی ہے۔
آپ کی شاعری کا تحقیقی جائزہ لینے کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ شاعری اردو ادب، مذہبی علامتوں اور شاعرانہ اظہار پر ثقافتی باریکیوں کے اثرات پر تحقیق کے راستے کھولتی ہے۔ اسکالرز مختار تلہری کے کام کو تشکیل دینے والے اثرات اور اس طرح کی پیچیدہ شاعری کا ترجمہ کرنے میں درپیش چیلنجوں کا جائزہ لے سکتے ہیں۔
آپ کی شاعری کا تفصیلی مطالعہ اور ایک گہرا تجزیہ مختار تلہری کی شاعری میں موجود خوف، طاقت کی حرکیات، اور مذہبی تعلیمات سے انحراف کے نتائج کی باریک تصویر کشی کو ظاہر کرتا ہے۔
مختار تلہری بریلی کی شاعری بھرپور موضوعات، پیچیدہ ادبی آلات اور فکری گہرائی سے عبارت ہے۔ یہ قارئین کو انسانی جذبات کی پیچیدگیوں، سماجی حرکیات، اور خوف اور طاقت کے درمیان تعامل کو دریافت کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے مختار تلہری کی ایک غزل پیش خدمت ہے۔


غزل


وحشتِ دل کا اثر پیرہنِ چاک میں ہے
اس لئے آج ہر اک شخص مری تاک میں ہے

فوج دشمن کی ملانے کو ہمیں خاک میں ہے
قوم الجھی ہوئی آسائش و اَملاک میں ہے

طاقتِ دید کہاں ، دیدہ ء بے باک میں ہے
“عکس اس کا مرے آئینہء ادراک میں ہے”

ایسے جنگل میں رہائش ہے ،خدا خیر کرے
شیر ہوتے ہوئے خرگوش کی پوشاک میں ہے

تیری قدرت ہی بچا سکتی ہے بس ربِ کریم
ہر مسلمان گھرا نرغہ ء سفاک میں ہے

کیا کریں ہم ہی بھلائے ہیں نبی کا اُسوہ
فتح و نصرت کا سبق آج بھی مسواک میں ہے

لاج رکھیں گے ہمیں مشقِ ستم کی اے دوست
اتنا جذبہ تو ابھی سینہ ء بے باک میں ہے

دیکھ کر حسن مدینے کا یہ لگتا ہے مجھے
آپﷺ کا عکس ہی آرائشِ افلاک میں ہے

ذہن اب تو وہیں رہتا ہے جہاں پر مختار
سیم و زر جیسا اثاثہ خس و خاشاک میں ہے

[email protected] | تحریریں

رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ''کافرستان''، اردو سفرنامہ ''ہندوکش سے ہمالیہ تک''، افسانہ ''تلاش'' خودنوشت سوانح عمری ''چترال کہانی''، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

جغرافیہ ضلع اٹک 1935  قسط سوم

ہفتہ فروری 10 , 2024
کھیری مورت ، کالا چٹا اور مکھڈ کے پہاڑوں میں اڑیال wild sheepہوتا ہے یہ مینڈھے سے ملتا جلتا ہے
جغرافیہ ضلع اٹک 1935  قسط سوم

مزید دلچسپ تحریریں