کھدو،کھینوں ،کھیندو

 کھدو،کھینوں ،کھیندو

میں لیراں دا کھدو شوھدا , لیراں لیرو لیر

  کھیندو ایک homemade گیند ہوتی ہے   ھمارے گاؤں میں اس کو کھینوں کہتے ہیں   کھینوں کا لفظ وارث شاہ اور شریف کنجاہی نے بھی استعمال کیا   ہے   سندھی میں بھی کھدو / کھینو کہتے ہیں۔ 

 1964 میں ملھوالہ اٹک میں کھینوں سے کھیلنا یاد   ہے   سب سے پہلے سائیکل کی ٹیوب کاٹ کر اس سے پتلے اور لمبے ٹکڑے بنائے جاتے  پھر ان ربڑ کے ٹکڑوں کو لپیٹ کر گولا بنایا جاتا   اس گولے کے اوپر لیریں لپیٹی جاتی تھی اور اس طرح ایک درمیانے سائز کی گیند بنا لی جاتی   ، لو جی ! کھینو  تیار ھو گیا۔ 

 بابے وارث شاہ کے زمانے میں     ربڑ     کے ٹکڑوں کے بغیر       کھینوں ھوتا تھا      بعد میں مقامی سائنس دانوں نے دماغ لڑایا اور کھینوں کے سنٹر core میں پنچر شدہ ٹیوب کے ٹکڑوں کا اضافہ کر دیا ۔  اس سے کھینوں کے اچھلنے کی قوت بہت بڑھ گئی   اسی سے شاہ پور والوں نے محاورہ بنالیا                 ست ربڑی کھدو کی طرح اچھلنا ۔ 

  کھینوں کے کھل جانے سے بچوں کا کھیل رک جاتا تو وہ لیریں سمیٹ کر ماں کی طرف بھاگتے  وہ بیچاری سارے کام چھوڑ کر     کھینوں     مرمت کرتی۔    اس پریشانی کو دور کرنے کے لئے       مجلس مادران      کا اجلاس ہوا   غور و خوض کے بعد طے پایا کہ لیروں کے باھر سوئی دھاگے سے     جالی    بن دی جائے۔

 کھدو،کھینوں ،کھیندو

     تین رنگوں کے دھاگوں سے جالی بنی جاتی   خط استوا پر اس کا رنگ لال ھوتا اور قطبین poles پر جالی سبز اور کالے رنگ کی ھوتی 

 لو جی اعلیٰ نسل کا بھٹو مارکہ کھینوں تیار ہو گیا ۔ اس کا core ربڑ کا mantle لیروں کا اور crust جالی کا ہے   زمین کے گولے کے بھی اتنے ھی حصے ھیں .مزید بر آں بچوں میں سیاسی شعور بیدار کرنے کے لئے مختلف پارٹیوں کے رنگوں سے کھینوں کی جالی بنائی جا سکتی   ہے

  ہمارے انکل  عبد الرحیم نے 1935 میں دسوھا لائلپور میں نئی جرابیں ادھیڑ کر کھینوں بنایا اور اس پر بزرگوں سے فی البدیہہ ڈانٹ کھائی   کچھ ساتویں کلاس کی پڑھائی کا پریشر تھا    کچھ اس ڈانٹ سے دل برداشتہ ھوگئے اور پیدل فرار ہو کر اٹک پہنچ گئے ۔ 

 حماد غزنوی صاحب جنگ 30 مارچ 2023 کے کالم میں فرماتے ہیں    

 معروف طبلہ نواز عبدالستار   تاری نے بتایا کہ ایک دفعہ شدید سردیوں میں وہ شکاگو میں غزل گائیک غلام علی کے ساتھ ایک محفلِ موسیقی سے واپس ہوٹل کے کمرے میں لوٹے، کچھ دیر میں ہیٹر نے رنگ جمایا تو غلام علی نے پہلے اپنا اوور کوٹ اتارا، پھر ایک ہائی نیک سوئیٹر، اور پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا، بہ قول تاری، غلام علی صاحب نے نو عدد لال، نیلی، پیلی اُونی اور سُوتی قمیصیں اور سوئیٹریں ایک ایک کر کے اتاریں  اس رنگین منظر پر تاری کہتے ہیں میرے منہ سے نکل گیا کہ’ ” خان صاحب، تہاڈا تے کِھدوُ ای کُھل گیا اے  "

حماد غزنوی: جنگ 30 مارچ 2023

 کھِدوُ پنجابی زبان میں اس گیند کو کہا جاتا ہے جو بہت سی کترنوں کو آپس میں جوڑ کر بنائی جاتی ہے، لڑکے بالے اس سے کئی کھیلیں کھیلتے ہیں، مگر کھیل کے دوران اگر ایک کلیدی گرہ ڈھیلی پڑ جائے تو پورا کِھدوُ کُھل جاتا ہے، گیند غائب ہو جاتی ہے بس رنگ بہ رنگی دھجیوں کا ڈھیر رہ جاتا ہے۔ 

 محاورہ   ہے             کھدو پھرولیے تے لِیراں ای لبھدیاں نیں 

 کھںنڈوری

 آج کل کی نوجوان نسل کو شاید اس بات کا عِلم نہ ہو کہ ہم بچپن میں پرانے کپڑوں کو جراب میں ڈال کر سلائی کر کے بال بنا کر پٹھو گرم اور کرکٹ کھیلتے تھے۔   اس بال کو تلہ گنگ کے ڈاکٹر زاہد ملک کے مطابق اعوان کاری علاقے ( تلہ گنگ سون سکیسر )میں کھِنڈوری کہتے تھے۔محلے کے سب لڑکے اکٹھے  ہو کر ایک عدد پرانے کپڑوں کو بال کی شکل میں گول کر کے اس کو پرانی جراب میں ڈال کر سلائی کرتے جاتے۔ ایک لکڑی کا بیٹ خود کا بنایا ہوا ہوتا اور جس کا بیٹ اور بال ہوتی اُس کی تو ہر طرح کی بدمعاشی کو قبول کر لیا جاتا   مثلاً میں پہلے بیٹنگ کروں گا اور پہلا اوور کرواوں گا مشکل سائیڈ پر جہاں زیادہ بھاگنا پڑے وہاں فیلڈنگ نہیں کروں گا صرف وکٹ کیپری کروں گا  ۔

  بازار کا بیٹ بہت مشکل سے ایک ایک روپیہ چندا اکٹھا کر کے سال میں کہیں اُس کی قیمت پوری ہوتی اور وہ صرف ٹورنامنٹ کے لیے مختص کیا جاتا اور ٹینس بال کو ہماری زبان میں ست ربڑی بال کہا جاتا تھا اور کبھی کبار اگر سَت ربڑی بال سے کھیلنے کا موقع مل جائے تو رات کو خوشی سےنیند نہیں آتی تھی۔ 

 کپڑے سے بنی سخت کھنڈوری (گیند) سے پٹھو گرم / سنتولیا کھیلتے تھے۔   پٹھو گرم کی گیند کی تیاری خاص طور کسی نہ کسی کی دادی ‛ نانی‛ امی یا باجی کے ذمہ ہوتی جو ہماری بعد از ہزار منت سماجت کے شرمندۂ تکمیل ہوتی   ۔اس کی تیاری کے دوران ہم متواتر مشورے کے لیے موجود رہتے تاکہ گیند خوب وزنی‛ مضبوط اور سڈول بنے   اس کا حجم عموماً کرکٹ یا ہاکی کی گیند جتنا ہی رکھا جاتا تھا تاکہ حریف کا نشانہ لیتے وقت اس پر ہاتھ کی گرفت آسانی سے جم سکے۔ 

۔ کھدو سے کھیلے جانے والے کھیل کھدو ٹلا اور کھدو کھونڈی پرانے تاریخی کھیل ہیں    ان کی ماڈرن شکل کرکٹ اور ہاکی   ہے   

  ست ربڑی گیند  (ٹینس بال)       ایک مضبوط گیند کو ہم ’ست ربڑی‘ گیند کہتے تھے۔   وہ تو اب کہیں جا کے معلوم ہوا کہ ربڑ کی سات تہیں ہونے کی وجہ سے ست ربڑی نام پڑا تھا   تب ہم یہی سمجھتے ت  ہے کہ شاید اچھی گیند شہر سے سات روپے میں ملتی ہوگی   وہ گیند بہت ڈھیٹ ہوا کرتی تھی   مار کھا کھا کے گنجی ہوجاتی   بالکل ویسے جیسے گرمی یا جوئیں زیادہ پڑنے کی وجہ سے ہم گاؤں کے بچے ٹنڈ کروا لیتے تھے     وہ گیند پھٹتی نہیں تھی۔ 

  کھینوں سےجڑی ہوئی لڑکیوں کی ایک کھیل کا ذکر تائب رضوی صاحب نے       کھینوں تھال     کے نام سے کیا   ہے   وکیپیڈیا میں       کھینوں گیٹے    کا بھی ذکر   ہے۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

اشرافیہ کی آخری نسل

پیر جولائی 3 , 2023
عمران خان نے عوام میں جتنا سیاسی شعور بیدار کر دیا ہے اب عوام کو کسی اور ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا تقریبا ناممکن ہو گیا ہے۔
اشرافیہ کی آخری نسل

مزید دلچسپ تحریریں