کامل پور سیداں کے شہتوت

کامل پور سیداں کے شہتوت

1968 کی بات ہے ہم لوگ کربلا محلہ  کیمبل پور میں رہتے تھے۔ ہمارے گھر کے قریب کے دو کنوؤں پر شہتوت کے بہت اونچے لمبے درخت تھے۔ ان پر کالی اور سفید رنگ کی لہلیں لگتی تھیں۔ ملہووالے کے توت کے درختوں کی نسبت کیمبل پور کے توت بہت بڑے تھے ۔  سائز کی وجہ سے یہ شہتوت کہلاتے تھے۔ بعض حضرات کی رائے یہ تھی   کہ یہ توت چونکہ کامل پور سیداں کے شاہ صاحبان  کی ملکیت تھے اس لئے   شاہ توت کہلاتے تھے۔

   ہم ایلومینیم کا کٹورا (کول ) ہاتھ میں لے کر درختوں پر چڑھ جاتے۔ رج کے شہتوت کھاتے اور گھر کے لیے کول بھر لیتے۔

   یہ سیزن سکول کے سالانہ نتائج کا بھی ہوتا تھا .اس لیے ایک شعر اس نازک وقت کے حسب حال بچوں کی زبان پر ہوتا تھا ۔

 رت آ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لہلاں نی

 ما ..مر گئی۔۔۔۔۔ فہلاں نی

کامل پور سیداں کے شہتوت
Image by Kadir Kritik from Pixabay

 شہتوت کا موسم ہے۔ ناکام ہونے والے ماتم کر رہے ہیں۔ اس موسم میں بعض اوقات ہم بتائے بغیرشہتوت کھا کر گھر جاتے تو امی جان دیکھتے ہی فرماتیں  ،لہلاں کھا کے آئے او۔ہم حیران ہوتے کہ ان کو کیسے پتہ چل جاتا ہے۔ کیا ان کو جن بتا دیتے ہیں  یا ان کا  کشف کامل  ہے۔ ایک دن پوچھ لیا کہ آپ کیسے اندازه لگا لیتی ہیں ۔ فرمانے لگیں   شہتوت کھانے سے تمہارے ہونٹوں پر  لپ سٹک لگ جاتی ہے۔اس سے چوری پکڑی جاتی ہے۔

بیروں کا ذکر کرتے ہوئے میں نے ان کا موسم جولائی اگست لکھا تھا۔ میں نے بیگم صاحبہ کو ایمپریس کرنے کے لئے وہ پوسٹ پڑھوائی۔

دیکھ اس طرح سے کہتے ہیں سخنور سهرا

انہوں نے بجائے متاثر ہونے کے الٹا عتراض فرمایا کہ Ziziphus Jujube بیری کے بیر مارچ اپریل میں ہوتے ہیں۔۔

جنگلی بیری کو جھاڑی یا جھڑ بیری کہتے ہیں ۔ جھاڑیوں…Ziziphus nummularia ..کے چھوٹے چھوٹے بیروں کا موسم جولائی اگست ہے۔جھاڑیوں کے بیر کھانے کا اتفاق ڈھوک شرفا اور پرانی بریار روڈ کیمبل پور میں ہوا۔یہ علاقہ چاچے الطاف صاحب کے سرکاری بنگلے کے قریب تھا۔

گرمیوں میں بکریاں درختوں کے سبز پتے  لانگی کھاتیں سردیوں کے لئے جھاڑیوں کے خشک پتے سٹور کر لئے جاتے ۔ان کو   پترا کہتے تھے۔ ان میں چھوٹے چھوٹے بیر بھی ہوتے ۔  پترا  بکری کو ڈالنے سے پہلے بچہ لوگ اس سے خشک بیر چن کر کھا لیتے ۔پترا کا لفظ میری ڈسک سے ڈیلیٹ ہو گیا تھا ۔ بیگم صاحبہ نے یاد کروایا۔ بیر کی گٹھلی کو پتھر سے توڑا جاتا تو اس کے اندر سے ننھا سا بیج نکلتا ۔اس کو چیچی کہتے تھے بچے اس کو بھی کھا جاتے ۔

مفتی سعید صاحب چھتر پارک والے فرماتے ہیں کہ میں انڈیا گیا تو مولانا منظور نعمانی صاحب کے ہاں حاضری دی ۔ان سے پوچھا کہ آپ کی کتابوں کی زبان بہت رواں اور آسان ہے۔ اس پر حضرت نے جواب دیا کہ میں کتاب لکھتے ہوئے اس کو پڑھ کر بیگم صاحبہ کو سناتا ہوں ۔جس لفظ کے معنی ان کو سمجھ نہیں آتے وہ لفظ تبدیل کر دیتا ہوں۔ مولانا منظور نعمانی صاحب کی کتاب  معارف الحدیث  انٹرنیٹ پر مو جود ہے۔

اگر سعادت حسن منٹو اپنی تحریرات چھاپنے سے پہلے اپنی بیگم صاحبہ کو سنا دیتے تو سنسر بورڈ کے بہت سارے مقدموں سے بچ جاتے ۔

سلسلہ خوراکاں کا بارھواں مضمون

[email protected] | تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

معراجِ عقیدت دا اِدراک

بدھ فروری 1 , 2023
سرکارامام رضا علیہ اسلام فرمیدن!”اپݨے ایمان کوں پُختہ کرو ساݙے ذکردے نال”اُنویں تاں اللہ تبارک وتعالیٰ دی بݨی ہوئی جتناں وی مخلوقات ہے
معراجِ عقیدت دا اِدراک

مزید دلچسپ تحریریں