خالو اختر صاحب شکار کے شوقین تھے۔ وہ خرگوش، ہرنی اور کونج کا شکار کرتے تھے۔ ہمارے پڑوس کے دو گاؤں ہرنیاں والا اور ہر نیالی کے ناموں سے اندازہ ہوتا
ثقافت
ملہو والا کے آئین کے مطابق مرغی صرف تین مواقع پر پکانے کی اجازت تھی۔
باجرے کے سٹوں کا اپنا لطف تھا۔ کچا سٹا یا چھلی کی طرح بھونا ہوا سٹا تلی پرمروڑا جاتا ، پھونک مار تے تو بھوسی اڑ جاتی تلی پر دانے رہ جاتے
گندم کٹائی ، گہائی اور بھوسا کھلیان ( کھلواڑے) سے گھر پہنچانے کےلئے زیادہ بندوں کی ضرورت ہوتی تھی۔اس کے لئے مزدور نہیں ملتے تھے
ہمارے گاؤں میں چیبڑ کی کمیابی کی وجہ سے اس کا رواج نہیں تھا ۔پتہ چلا کہ یہ سوغات لاری اڈا فتح جنگ سے ملتی ہے۔
دیہاتی زندگی میں کوشش ہوتی تھی کہ کوئی چیز دکان سے نہ منگانی پڑے ۔ حلوہ کھانے کو دل کرتا تو گھر کے آٹے اور گڑ کا حلوہ بنا لیا جاتا۔
تنور سے اُتری ہوئی روٹی میں انگلیوں سے کیے گئے گڑھے( ڈگھے) بنائے جاتے، جن میں مکھن رچ بس جاتا تھا ۔ شکر اور گھی سے بھرے ہوئے پیالے