ارشاد ڈیروی کی عَلم توں قَلم تک

ارشاد ڈیروی کی عَلم توں قَلم تک

تبصرہ کتاب:۔ عَلم توں قَلم تک
تبصرہ نگار:۔ سید حبدار قاٸم

صوتی ترنگ سے آشنا ارشاد ڈیروی نہ صرف بہترین شاعر ہیں بل کہ ایک اچھے نثر نگار بھی ہیں جن کی نثر نگاری شوقِ مطالعہ کو فروغ دیتی ہے اور قاری کو کتاب بینی کی طرف ماٸل کرتی ہے
آپ محلہ نورنگ آباد بلاک 52 ڈیرہ غازی خان میں 1967 کو پیدا ہوٸے آپ نے چوداں کتابیں تصنیف کیں جن میں دو کتابیں نثر کی جب کہ بارہ کتابیں شاعری کی ہیں بارہ کتابوں میں آٹھ کتابیں کربلاٸی ادب پر محیط ہیں جو ان کی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہل بیت سے مودت کا بہترین اظہاریہ ہیں
علم و ادب سے 1985 میں منسلک ہوٸے تو آپ کو ادب میں جناب عزتِ مآب واحد علوی مرحوم جیسے بلند پایہ استاد ملے جنہوں نے آپ کو ایسا تراشا کہ آپ گوہرِ نایاب ہوٸے آپ لفظ آشنا ہیں اور ماں بولی زباں کی ترویج میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں

ارشاد ڈیروی کی عَلم توں قَلم تک


آپ کی نثر نگاری بہت رواں دواں اور پختہ ہے الفاظ انتہاٸی سلیقے سے برتتے ہیں جن سے ادب کا معیار بڑھتا ہے اور قاری کی آگہی بڑھتی ہے ہر مضمون میں آپ کا رنگ جدا ہے آپ کا تنقیدی مضمون اس چیز کا ثبوت ہے کہ آپ حق گوٸی و بے باکی کے علمدار بھی ہیں میں نے جب بھی آپ سے بات چیت کی بہت لطف محسوس کیا کیونکہ آپ شیریں سخن ہیں دوستوں کے دوست ہیں اور محبت بھی بے لوث کرتے ہیں انسانیت کا درد رکھنے والے ہیں اور سُچے موتی کی طرح ہیں آپ جیسے لوگ نایاب ہوتے ہیں
آپ کی کتاب “عَلم توں قلم تک” میں جن ارباب علم و دانش نے مضامین لکھے ہیں ان میں پروفیسر مرید عباس عارف ڈاکٹر سید مشتاق مہدی ڈاکٹر محمد ایوب معظمہ نقوی اور پروفیسر سید عاصم بخاری شامل ہیں جن سب نے آپ کی نثر کو بھی سراہا ہے
ارشاد ڈیروی صاحب سے میری ملاقات سوشل میڈیا پر ہوٸی اور بعد میں شہزاد افق کے ایوارڈ شو میں روبرو ملاقات ہوٸی جس میں انہوں نے مجھے اپنی کتابوں کے گراں قدر تحفہ سے نوازا جنہیں پڑھ کر ان کی ادبی خدمات کا پتہ چلا دوستوں میں مفت کتابیں دینے والے ادیب ہیں جو کہ ادب پروری اور فروغِ ادب کی عمدہ مثال ہے دنیا میں ایسے درویش لوگوں کی کمی ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ آلِ رسول ﷺ کا جتنا احترام آپ کرتے ہیں میں نے دوسرے ادبا میں کم ہی دیکھا ہے شہد آگیں مزاج ارشاد ڈیروی دلوں میں بستے ہیں ان کا میں دل سے احترام کرتا ہوں اور ان کی میٹھی گفتگو سن کر میرے آنسو آ جاتے ہیں

اپنی کتاب “عَلَم توں قَلم تک” کے پہلے مضمون “سانجھا ڈکھ ہے کربلا کا” میں جس قرینے سے کربلا کا منظر دکھایا ہے وہ ایک مدلل اور بہترین انداز ہے مضمون پڑھ کر آپ کی علمی بصیرت اور آگہی کو سلام کرنے کو جی چاہتا ہے اس میں بہت ساری کتابوں کے حوالہ جات پڑھ کر آپ کے وسیع مطالعہ کی داد دینی پڑتی ہیں حالانکہ اِس دور میں محقق اور ادیب سنی سناٸی بات لکھ دیتے ہیں جو کٸی معاسرتی اور مذہبی مساٸل کو جنم دیتی ہے لیکن ارشاد ڈیروی کا علم اور تحقیق ایسا نہیں کرتی بل کہ وہ ہر جملہ تاریخ سے پڑھ کر اپنے الفاظ میں بیاں کرتے ہیں کربلا کی تاریخ لہو لہو ہے دسویں محرم کے بعد جو پتھر زمین سے اٹھاتے تھے اس کے نیچے سے ابلتا ہوا لہو نکلتا تھا شام کے وقت افق کی سرخی دسویں کے شام سے پہلے کسی نے نہ دیکھی تھی یہ سب علم ارشاد ڈیروی نے تاریخ کی کتابوں سے کشید کر کے ایک مضمون میں سمو دیا ہے جس میں حضرت زعفر جن کا واقعہ بھی شامل ہے
دوسرا مضمون ” حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اور فن شاعری” بھی ارشاد صاحب کے وسیع مطالعہ کی دلیل ہے جو مختلف کتابوں سے اکھٹا کیا گیا ہے اور جو مودت اہل بیت عظام سے عقیدتوں کا مظہر ہے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ان شعرا کے لیے مسند چھوڑ دیتے جو کربلا کا غم لکھتے تھے آپ حضرت امام حسین علیہ السلام کا مرثیہ سن کر زارو قطار روتے تھے اور ایسے اشعار سنانے والوں کے لیے بڑے اجر کا وعدہ کرتے تھے
ارشاد ڈیروی اس مضمون میں لکھتے ہیں
” امام نے ارشاد فرمایا
جس شخص نے حضرت امام حسین کی شان میں شعر کہا اور اگر اس کا شعر سن کر ایک بھی شخص رو پڑا تو اس کا صلہ جنت ہے”
تیسرا مضمون حضرت امام رضا علیہ السلام اور مجلس شہدا ٕ کربلا پر مشتمل ہے جس میں علامہ مجلسی کی بحار الانوار کے حوالے سے یہ تحریر ہے کہ جب شاعر اہل بیت حضرت دعبل خزاعیؒ شعر بیاں فرماتے تو حضرت امام رضا علیہ السلام کس طرح گریہ فرماتے اور کیسے اس کو مجلس کی صورت میں بدل دیتے تھے امام نے یہ بھی فرمایا کہ جو شخص ایسی مجالس میں بیٹھے گا جہاں ہمارا ذکر ہو گا اس کا دل کبھی مردہ نہیں ہو گا

تیسرا مضمون ” امام رضا کی مدح سراٸی اور دعبل خزاعی” ہے جس میں حضرت امام رضا علی السلام شاعرِ اہلبیت دعبل خزاعی سے کیسے پیار کرتے تھے جناب دعبل نے سرکار سے کہا کہ میں نے آپ کی شان میں ایک سو بیس اشعار پر مشتمل ایک قصیدہ لکھا ہے اور میری تمنا ہے کہ میں اسے سب سے پہلے حضور آپ کو سناوں تو سرکار نے کہا کہ سناو جناب دعبل نے قصیدہ پڑھا تو امام رضا نے انعام کے طور پر ایک سو اشرفی کی تھیلی اسے عطا فرماٸی لیکن دعبل شاعر نے آپ کے اترے ہوٸے پرانے کپڑے کا ٹکڑا تبرک کے طور پر لینا پسند کیا حضرت امام رضا علیہ السلام نے کپڑا بھی دے دیا اور رقم بھی دوبارہ عنایت فرماٸی اور اس قصیدے میں اپنی طرف سے ایک شعر کا اضافہ بھی کیا جس میں آپ نے اپنی شہادت اور قبر کے متعلق پیش گوٸی فرماٸی تھی
یہ واقعہ تاریخ نے محفوظ کیا جسے ہم تک جناب ارشاد ڈیروی نے دو اشعار کے ساتھ پہنچایا ہے جسے پڑھ کر ہمارا مودت اہل بیت کا شجر مزید گھنا اور مضبوط ہو گیا ہے ارشاد صاحب کی تاریخ بینی بھی کربلا کے لہو سے معطر ہے جس کی خوشبو سفر کرتے ہوٸے ہم تک پہنچ رہی ہے اور روح کی تقویت کا باعث بن رہی ہے
چوتھا مضمون ” مدرسے دی سنجان” ہے جس میں کربلا کا واقعہ نوحے کی صورت میں لکھنے والے وسیب کے شاعر حسین گوہر کا ذکر ہے ارشاد ڈیروی نے حسین گوہر کو مدرسے کی سنجان قرار دے کر ان کا مان بڑھایا ہے
پانچواں مضمون ” تقریظ و تحقیق” جس میں ارشاد ڈیروی صاحب نے معروف شاعر محقق کالم نگار اور صحافی سید مبارک علی شمسی کی نعت گوٸی پر جامع مضمون لکھا ہے شاہ جی ایک شعر میں کہتے ہیں:۔

الفاظ میڈے سامنے ہتھ بدھ کے کھڑے ہن
شمسی ہے میڈی نعت دا عنوان مدینہ
اس مضمون میں سید مبارک شمسی کی نعت گوٸی کی اسلوبیاتی صباحت اور محاسن پر بات چیت ہے اور انہیں وسیب کی نعت گوٸی کا گلستان سیراب کرنے پر حرف تحسین سے نوازا گیا ہے
چھٹا مضمون آفتابِ سخن ہے جس میں حاجی فقیر اثر انصاری کو سراٸیکی میں قرآن کا ترجمہ لکھنے پر خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہے
ساتواں مضمون تلمیحات دی خوشبو ہے آٹھواں معراج عقیدت دا ادراک اور نواں مضمون بیاض محسن ہے جس میں محسن نقوی کی ادبی خدمات کو سراہا گیا ہے اور انہیں اپنے وسیب کی پہچان کہا گیا ہے دسواں مضمون لکھن دا سنہپ ہے گیارہواں مضمون کربلا دے پچھوکڑ ہے بارہواں مضمون دعوٰی ہے تیرہواں خیانت دار شاعر چودہواں علامہ صاٸم چشتی اور عشق علی پندرہواں اہل تشیع کا قومی ترانہ اور آخری حسینی قلندر ہے اگر سب کی تفصیل لکھوں تو مجھے طوالت کا خوف دامن گیر ہے اس لیے یہاں پر تبصرہ ختم کرتا ہوں ارشاد ڈیروی صاحب ایک ادب پرور شخصیت ہیں جو نہ صرف شاعر ہیں بل کہ اچھے نثر نگار بھی ہیں میں اللہ کی بارگاہ میں ان کے لیے دعا گو ہوں کہ وہ اسی طرح ادب کی خدمت کرتے رہیں اور اپنے وسیب کی شان بڑھاتے رہیں۔آمین

مستقل لکھاری | تحریریں

میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

ٹیکسلا یونیورسٹی کے کھنڈرات کو فعال یونیورسٹی میں بدلنے کا فریضہ؟

جمعرات فروری 29 , 2024
برصغیر پاک و ہند کی ‘ٹیکسلا یونیورسٹی’ جس کے کھنڈرات موجودہ پاکستان میں ہیں، یہ قدامت کے اعتبار سے بلونیا یونیورسٹی سے زیادہ پرانی ہے، مگر بلونیا یونیورسٹی
ٹیکسلا یونیورسٹی کے کھنڈرات کو فعال یونیورسٹی میں بدلنے کا فریضہ؟

مزید دلچسپ تحریریں