ٹیکسلا یونیورسٹی کے کھنڈرات کو فعال یونیورسٹی میں بدلنے کا فریضہ؟

ٹیکسلا یونیورسٹی کے کھنڈرات کو فعال یونیورسٹی میں بدلنے کا فریضہ؟

Dubai Naama

ٹیکسلا یونیورسٹی کے کھنڈرات کو فعال یونیورسٹی میں بدلنے کا فریضہ؟

اٹلی میں واقع ‘بلونیا یونیورسٹی’ کو دنیا کی پہلی یونیورسٹی ہونے کا اعزاز حاصل ہے جو سنہ 1088ء میں قائم کی گئی۔ اگرچہ برصغیر پاک و ہند کی ‘ٹیکسلا یونیورسٹی’ جس کے کھنڈرات موجودہ پاکستان میں ہیں، یہ قدامت کے اعتبار سے بلونیا یونیورسٹی سے زیادہ پرانی ہے، مگر بلونیا یونیورسٹی کو اس لئے دنیا کی پہلی یونیورسٹی کہا جاتا ہے کہ اس کے قیام سے لیکر آج تک یہاں درس و تدریس کا عمل کبھی معطل نہیں ہوا ہے، بلکہ وقت کے ساتھ اسے مزید جدت اور وسعت دی گئی ہے۔ دنیا کی زندہ قوموں کی یہی نشانی ہے کہ وہ تعلیم کی ترویج و اشاعت کے کام کو کبھی رکنے نہیں دیتی ہیں بلکہ اسے وقت کے ساتھ وہ مزید بہتر سے بہتر کرتی ہیں۔ آج بھی اٹلی کے شہر بلونیا کی رونق اٹلی اور دنیا بھر کے مختلف شہروں سے آئے ہوئے طالبعلموں کی بدولت ہے۔ آج بھی آدھی سے زیادہ دنیا اٹلی کو علم و ہنر اور بلونیا یونیورسٹی کی وجہ سے جانتی ہے۔ لھذا علم کا متلاشی جو بھی سیاح اٹلی جاتا ہے وہ قدیم بلونیا یونیورسٹی کو دیکھنا نہیں بھولتا ہے۔

ٹیکسلا کی تہذیب کا شمار بھی دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں ہوتا ہے۔ یہ قدیم شہر پاکستان کے جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی سے کم و بیش 32کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ٹیکسلا کو کٹے ہوئے پتھروں کا شہر بھی کہا جاتا ہے جو آج ضلع راولپنڈی کی ایک تحصیل ہے اور جو کبھی موریہ، کشان اور گندھارا ریاستوں کا دارلسلطنت ہونے کی وجہ سے “عروس البلاد” کہلاتا تھا۔ہندوؤں کی مقدس کتاب رامائن کے مطابق اس شہر کا نام بھرت کے بیٹے کے نام پر ‘ٹیکسلا’ رکھا گیا تھا جو بعد میں اس کا پہلا حکمران بنا۔ٹیکسلا کے قدیم کھنڈرات سنہ 1980ء میں دریافت ہوئے جن میں سے کچھ کھنڈرات 3000 سال قبل مسیح سے بھی زیادہ پرانے ہیں۔ 700 قبل مسیح میں برصغیر کے انتہائی دور دراز فاصلوں کے طالب علم ٹیکسلا یونیورسٹی کا رخ کرتے تھے۔ ان طلباء میں کاشی، کوشلہ (موجودہ جنوبی بھارت کی دو ریاستیں) اور مگھدہ (موجودہ بنگال اور بہار) جیسی دور افتادہ ریاستوں کے طالب علم بھی شامل تھے۔ یہ سبھی اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیئے یہاں آتے تھے۔ ایک وقت میں ایک ہی جگہ یہاں 11000 کے لگ بھگ طلباء 60000 سے زیادہ مضامین میں اعلی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ یہاں بدھ مت کے دینیاتی نصاب سے لے کر تیر اندازی، شکار و دیگر فوجی مضامین، قانون، معاشیات، زراعت، طب، سرجری اور اس وقت کے دیگر تمام مروجہ مضامین پڑھائے جاتے تھے۔

ٹیکسلا میں پڑھانے والے استاد اپنے وقت کے ذہین ترین لوگ تھے۔ ان کے لئے ضروری نہیں تھا کہ وہ ایک ہی مضمون کی تعلیم دیں، بلکہ ہر استاد کئی کئی مضامین میں مہارت رکھتا تھا۔ ہندو مت، بدھ مت اور سنسکرت وغیرہ میں انہوں نے بہت کارہائے نمایاں انجام دیئے، اس کا تاثر آج تک محسوس کیا جاتا ہے۔ ان بہترین اساتذہ میں چانکیہ جو عرف عام میں کوٹلیہ بھی کہلاتا ہے، پولیٹیکل سائنس کا برصغیر میں بانی اور ماہر معاشیات تھا۔ وہ چندر گپت موریہ کا مشیر تھا اور اس نے موریہ سلطنت کی تعمیر میں چندر گپت کی معاونت کی۔ کپورتھلہ کا رہنے والا مشہور طبیب ’چاراکا‘ جسے آیو ویدک طب کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے، بہت عرصے تک ٹیکسلا میں پڑھتا اور پڑھاتا رہا۔ کلاسیکل سنسکرت کے نامور استاد ‘پانانی’ کا تعلق بھی ٹیکسلا سے ہی تھا۔ بدھ کے معالج ‘جیویکا’ نے بھی ٹیکسلا ہی سے تعلیم حاصل کی اور یہاں تدریس بھی کی۔

ٹیکسلا یونیورسٹی کے کھنڈرات کو فعال یونیورسٹی میں بدلنے کا فریضہ؟
Image courtesy U.S. Embassy Islamabad

آج جہاں ٹیکسلا یونیورسٹی کے افسردہ کھنڈرات پائے جاتے ہیں، انہیں سنہ 1913ء میں جان مارشل اپنی 20سالہ سخت محنت اور کھدائی کے بعد منظرعام پر لے کر آیا۔ یہاں 3360 قبل مسیح سے لے کر چوتھی صدی قبل مسیح تک کے مختلف وقتوں کے پرانے چار شہروں کے کھنڈرات تین مختلف مقامات پر ہیں جو ایک دوسرے سے بہت قریب ہیں۔ یہاں بدھ مت کی بہت سی پرانی یادگاریں ہیں۔
یونیسکو ورلڈ ہیریٹیج سائٹ نے سنہ 2010ء میں اسے دنیا کی ان قدیم یادگاروں میں شمار کیا جو مناسب حفاظت اور نگہداشت نہ ہونے کے سبب تباہی کا شکار ہیں۔ برصغیر کی اسی جگہ پر مسلم مغلیہ خاندان بھی حکمران رہے اور آج پاکستان بھی اس قدیم ٹیکسلا تہذیب کی ملکیت کا دعوی دار ہے مگر آج تک کبھی کسی کو خیال نہیں آیا کہ بلونیا یونیورسٹی کی طرز پر یہاں ایک بار پھر زندہ تعلیمی درسگاہ کی بنیاد رکھی جائے۔ یہاں تک کہ حکومت پاکستان کو بھی علم و تدریس کی “ٹیکسلا یونیورسٹی” کی بنیاد رکھنے کی بجائے اسے قدیم سیاحتی مقام کے طور پر ‘کھنڈرات’ کی صورت میں قائم رکھنے سے دلچسپی ہے۔ یہاں تک کہ سنہ 2017ء سے تھائی لینڈ جیسا ترقی پذیر ملک اسے محفوظ کرنے میں حکومت پاکستان کا شریک کار رہا ہے۔

ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں: “ٹیکسلا کا قدیم شہر اور وہاں کی قدیم تباہ شدہ یونیورسٹی اس دھرتی کے باسیوں کے لئے ان کے شاندار ماضی کی یادگار ہے”۔ ہم بقول ارباب اختیار یہ بھی سنتے ہیں کہ اس کی حفاظت کرنا ہمارا قومی فریضہ ہے۔ یہ کتنے شرم کی بات ہے کہ کھنڈرات کی حفاظت ہمارا قومی فریضہ ہے مگر اس قدیم یونیورسٹی کو دوبارہ بحالی یا علم کی حفاظت کرنا ہمارے قومی فریضہ میں شامل نہیں ہے اور نہ ہی علم جدید علم کی حصول ہماری کوئی بنیادی ترجیح ہے! ٹیکسلا یونیورسٹی کے کھنڈرات ہمارے علمی زوال کی کہانی بیان کرتے ہیں۔ ہمارا قومی فریضہ ان کھنڈرات کی حفاظت کرنا نہیں بلکہ ان کھنڈرات کو دوبارہ یونیورسٹی میں بدلنا ہے۔

پاکستان کی کسی یونیورسٹی کا شمار دنیا کی پہلی دس یا پہلی سو بڑی یونیورسٹیوں میں نہیں ہوتا۔دنیا بھر سے ٹیکسلا کے قدیم کھنڈرات کو دیکھنے کے لیئے سیاح ہر سال امڈ آتے ہیں۔ ان سیاحوں میں بلونیا یونیورسٹی کی طرح “ٹیکسلا یونیورسٹی” کو دیکھنے والا کوئی ایک بھی طالب علم نہیں ہوتا۔ اس دھرتی پر مسلم مغلیہ خاندان کی حکومت کا طوطی بھی بولتا رہا۔ تب متحدہ ہندوستان کی مغلیہ حکومت آج کے امریکہ کی طرح دنیا کی “سپر پاور” ہوتی تھی۔ آج یہی ٹیکسلا حکومت پاکستان کی ملکیت ہے۔ عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ پرائم منسٹر ہاو’س کو یونیورسٹی میں بدلیں گے مگر وہ اپنا وعدہ وفا نہ کر سکے اور آج سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ ٹیکسلا کے کھنڈرات کو تاریخی ورثے سے نکال کر جو حکمران یونیورسٹی میں بدلے گا، دنیا کی پہلی بلونیا یونیورسٹی اور ٹیکسلا کی قدیم ترین یونیورسٹی کی طرح، اس کا نام تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

نظام حکومت چلانے کی بھاری ذمہ داری

ہفتہ مارچ 2 , 2024
کسی ملک یا ریاست کے نظم و نسق کو چلانے کا فرض نبھانا ذمہ داری اٹھانے کا ایک بہت بڑا بھاری بوجھ ہے۔
نظام حکومت چلانے کی بھاری ذمہ داری

مزید دلچسپ تحریریں