نظام حکومت چلانے کی بھاری ذمہ داری

نظام حکومت چلانے کی بھاری ذمہ داری

Dubai Naama

نظام حکومت چلانے کی بھاری ذمہ داری

کسی ملک یا ریاست کے نظم و نسق کو چلانے کا فرض نبھانا ذمہ داری اٹھانے کا ایک بہت بڑا بھاری بوجھ ہے۔ نبی پاک ﷺ کے وصال پر جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلافت پیش کی گئی تو آغاز میں انہوں نے یہ ذمہ داری اٹھانے سے انکار کیا مگر ساتھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے اسرار پر یہ ذمہ داری قبول کی تو آپ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے اپنے پہلے خطبہ میں فرمایا: “اے لوگو! میں تمھارا حاکم بنایا گیا ہوں، حالانکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں، اگر میں اچھا کام کروں تو میری اطاعت کرنا اور اگر برُا کروں تو میری اطاعت نہ کرنا۔ سچائی ایک امانت ہے اور جھوٹ خیانت ہے۔ تم میں سے کمزور شخص میرے نزدیک قوی ہے، جب تک میں اس کا حق نہ دلا دوں اور تمھارا قوی آدمی میرے نزدیک کمزور ہے، جب تک اس کے ذمہ جو حق ہے وہ اس سے نہ لے لوں۔ جو قوم جہاد فی سبیل اللہ سے منہ موڑتی ہے، اللہ اس قوم کو ذلیل و خوار کرتا ہے۔اور جس قوم میں بدکاری پھیل جاتی ہے اللہ اس کو مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اگر میں اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت کروں تو تم میری اطاعت کرو اور اگر میں نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت لازم نہیں۔ اب نماز کے لئے کھڑے ہو جاؤ۔ اللہ تم پر رحم کرے۔”

اسی طرح عمر بن عبد العزیز بن مروان بن حکم خلافت بنو امیہ کے آٹھویں خلیفہ تھے اور سلیمان بن عبدالملک کے بعد مسند خلافت پر بیٹھے۔ انہیں ان کی نیک سیرتی کے باعث پانچواں خلیفہ راشد بھی کہا جاتا ہے جبکہ آپ خلیفہ صالح کے نام سے بھی مشہور ہیں۔خلافت کا بار گراں اٹھاتے ہی فرض کی تکمیل کے احساس نے آپ کی زندگی بالکل بدل کر رکھ دی۔ وہی عمر جو نفاست پسندی اور خوش لباسی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے، جو خوشبو کے دلدادہ تھے، جن کی چال امیرانہ آن بان کی آئینہ دار تھی، اب سراپا عجز و نیاز بن گئے۔ سلیمان بن عبدالملک کی تجہیز و تکفین کے بعد پلٹے تو سواری کے لئے اعلٰی ترین گھوڑے پیش کئے گئے مگر حضرت عمر بن عبد العزیز نے ان پر سوار ہونے سے انکار کر دیا اور کہا: ’’میرے لئے ایک خچر کافی ہے۔‘‘ اور انہیں واپس بیت المال میں داخل کرنے کا حکم دیا۔ جب افسر پولیس نیزہ لے کر آگے آگے روانہ ہوا تو اسے ہٹا دیا اور فرمایا کہ: ’’میں بھی تمام مسلمانوں کی طرح ایک مسلمان ہوں۔‘‘ پھر جب خلیفیہ سلیمان کے اثاثہ جات کو ورثاء میں تقسیم کرنے کی باری آئی تو آپ نے سارے سامان کو بیت المال میں داخل کرنے کا حکم صادر کر دیا۔ واپسی کے وقت دستور کے مطابق خیال تھا کہ وہ قصر خلافت میں ضرور داخل ہوں گے لیکن عمر بن عبدالعزیز اس کی بجائے یہ کہہ کر کہ: ’’میرے لئے میرا خیمہ کافی ہے‘‘ اندر داخل ہو گئے۔ آپ کی ملازمہ نے چہرہ بشرہ دیکھ کر اندازہ لگایا کہ آپ پریشان ہیں۔ پوچھا تو کہا:
”یہ تشویشناک بات ہی تو ہے کہ مشرق سے مغرب میں امت محمدیہ ﷺ کا کوئی فرد ایسا نہیں ہے جس کا مجھ پر حق نہ ہو اور بغیر مطالبہ و اطلاع کے اسے ادا کرنا مجھ پر فرض نہ ہو۔“ اس کے بعد مسجد جا کر پہلا خطبہ دیا۔ انہوں نے باغِ فدک اھلِ بیت کو ان کا حق سمجھ کر واپس کر دیا۔ انہیں ہر وقت امت مسلمہ کے حقوق کی نگہداشت اور اللہ تعالٰی کے احکامات کی تعمیل اور نفاذ کی فکر دامن گیر رہتی جس کی وجہ سے ان کے چہرے پر ہمیشہ پریشانی اور ملال کے آثار دکھائی دیتے۔ انہوں نے اپنی بیوی فاطمہ کو حکم دیا کہ تمام زر و جواہر بیت المال میں جمع کرا دو ورنہ مجھ سے الگ ہو جاؤ۔ وفا شعار اور نیک بیوی نے حکم کی تعمیل کی۔ گھر کے کام کاج کے لئے کوئی ملازمہ مقرر نہ تھی تمام کام ان کی بیوی خود کرتی تھیں۔ الغرض آپ کی زندگی درویشی اور فقر و استغنا کا نمونہ بن کر رہ گئی۔ آپ کی تمام تر مساعی اور کوششیں اس امر پر لگی ہوئی تھیں کہ وہ ایک بار پھر سنت فاروقی اور عہد فاروقی کی یاد تازہ کر دیں۔ آپ کی اس پاکیزہ زندگی اور کارہائے نمایاں کی بدولت ہی وہ پانچویں خلیفہ راشد قرار پائے۔ آپ نے اہل بیت کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کیا۔ ان کی ضبط کی ہوئی جائیدایں ان کو واپس کر دیں۔ احیائے شریعت کے لئے کام کیا۔ بیت المال کو خلیفہ کی بجائے عوام کی ملکیت قرار دیا۔ اس میں سے تحفے تحائف اور انعامات دینے کا طریقہ موقوف کر دیا۔ ذمیوں سے حسن سلوک کی روایت اختیار کی۔ اس کے علاوہ معاشی اور سیاسی نظام میں بھی اصلاحات کیں۔

نظام حکومت کو احسن طریقے سے چلانے کا یہ احساس ذمہ داری ہی ہے جو ایک فرض شناس حکمران کو اپنی زندگی یکسر بدلنے پر مجبور کرتا ہے۔ آج اس کی مثالیں ترقی یافتہ غیرمسلم ممالک میں تو ملتی ہیں مگر ہمارے ہاں اس کی کوئی مثال قائم نہیں ہوئی۔ اس احساس کو بیدار کرنے کے لیئے ہمارے حکمرانوں کو جونہی کارحکمرانی کی ذمہ داری ملتی ہے وہ اسے باحسن طریقے سے نبھانے کی بجائے اسے اپنے اثاثے بڑھانے کے لیئے کاروبار بنا لیتے ہیں۔ ابھی بھی ملک کو قرضوں کی واپسی کا انتہائی مشکل مرحلہ درپیش ہے۔ آنے والے دس ماہ میں پاکستان نے عالمی مالیاتی اداروں اور قرض دینے والے ممالک کو تقریباً 24ارب ڈالر ادا کرنے ہیں جس کے بڑے حصے کیلئے 30جون کی ڈیڈ لائن مقرر ہے جس کا معاملہ اب نئی حکومت کو منتقل ہو جائے گا۔ معاشی مسائل پر رپورٹنگ کرنے والے بین الاقوامی ادارے بلوم برگ کے اعدادوشمار کی روشنی میں پاکستان کے اندرونی اور بیرونی قرضے ناقابل برداشت ہیں۔ اس تشویشناک رپورٹ کو غلط نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ملک پر واجب الادا قرضوں کی مالیت جو سنہ 2018ء میں 28ہزار ارب روپے تھی، پانچ برسوں میں بڑھ کر 64ہزار ارب روپے ہو گئی ہے جبکہ رواں سال مطلوبہ 24ارب ڈالر کا اضافہ اس حجم کو ہوشربا حد تک بڑھانے کا موجب بنے گا۔

کیا آنے والی نئی حکومت کی اقتصادی مشینری کے پاس ایسا کوئی “ہوم ورک” ہے جو ملک کو اس اقتصادی بحران سے باہر نکال سکے۔ جبکہ اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے آئی ایم ایف کو خط لکھ کر حکومت کے لیئے مزید معاشی مشکلات کھڑی کرنے کی کوشش کی۔

عام آدمی کسی بھی نئی مہنگائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ کیا نئی حکومت ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیئے مراعات یافتہ طبقے پر کوئی کاری ضرب لگائے گی یا یہ طبقہ از خود رضاکارانہ طور پر حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کے لیئے آگے بڑھے گا؟ کے پی کے میں پی ٹی آئی برسراقتدار آ چکی ہے اور وہ وفاقی حکومت سے تعاون کرنے پر ہرگز آمادہ نہیں ہو گی۔ سندھ اور پنجاب میں پہلے ہی دن سے احتجاج اور دھرنوں کی صدائیں اٹھی تھیں۔ اس صورتحال کے پیش نظر ملک کو سیاسی اور معاشی ابتری سے بچانے کی ایک ہی صورت بچی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن مل کر کام کریں اور ملک بھر میں سادہ طرز زندگی اور کفایت شعاری کو فروغ دیں۔ متحدہ وفاقی حکومت میں شامل نون لیگ اور پیپلزپارٹی کو سب سے پہلے قربانیاں دینی چایئے۔ کیا حکومت کو کامیابی سے چلانے کے لیئے خلافت راشدیہ کے پہلے خلیفہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ اور پانچویں خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے طرز حکومت کو اپنا کر ایک بہترین نمونہ قائم کر سکیں گی؟۔ اگر نئی حکومت ایسا کر سکی تو یہ ایک حقیقی تبدیلی ہو گی۔ نئے وزیراعظم کے نازک کندھوں پر حکومت چلانے کا یہ گراں بار ایسی زمہ داری ہے کہ جس کو نہ نبھایا گیا تو ملک کو سیاسی و معاشی دیوالیہ ہونے سے نہیں بچایا جا سکے گا۔

Title Image by Denis Doukhan from Pixabay

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

ڈاکٹر عارفہ شہزاد کی کتاب "انگریزی میں اردو ادب کی تنقید" کا تجزیاتی مطالعہ

پیر مارچ 4 , 2024
ڈاکٹر عارفہ شہزاد کی کتاب “انگریزی میں اردو ادب کی تنقید” انگریزی زبان کے دائرہ کار میں اردو ادب کے تنقیدی تجزیے کا احاطہ کرتی ہے۔
ڈاکٹر عارفہ شہزاد کی کتاب “انگریزی میں اردو ادب کی تنقید” کا تجزیاتی مطالعہ

مزید دلچسپ تحریریں