شہباز تیری پرواز سے جلتا ہے زمانہ

iattock

تبصرہ از قلم

سیدزادہ سخاوت بخاری

انصاف وہ ہے جو صرف ہوتا نہیں بلکہ چلتا پھرتا اور دوڑتا دکھائی دے ۔ ایسے ہی انصاف کی مثالیں آجکل پاکستان کی عدالتوں سے مل رہی ہیں ۔ حال ہی میں جسٹس قاضی فائز عیسی صاحب کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کے مقدمے میں ہماری عدالت عالیہ کے آدھا درجن یعنی 6 معزز جج صاحبان نے جو تاریخی فیصلہ صادر کیا اس کی نظیر عدالتی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی ۔ جج صاحبان نے اپنے ساتھی جج کو نہ صرف باعزت بری کردیا بلکہ اپنے فیصلے میں یہاں تک لکھ دیا کہ اس معاملے کو اب کسی بھی اور فورم پر چیلینج نہیں کیا جاسکتا ۔ اگرچہ ابھی تک تفصیلی فیصلہ نہیں آیا لیکن امید کی جاسکتی ہے کہ جسٹس مقبول باقر جو یہ فیصلہ لکھ رہے ہیں ، شاید اپنے ڈرافٹ میں یہ بھی لکھ دیں کہ چونکہ جج صاحب دنیاء میں سرخرو ہوئے لھذا یوم حساب ( Day of Judgement ) اسی فیصلے کی نقل پیش کرکے پل صراط سے بھی بلا روک ٹوک گزرنے کے حقدار ہونگے ۔ یقینا ایسا ہونا بھی چاھئیے کیونکہ اگر ہم جج صاحبان پر ہی تہمت لگانا شروع کردیں ، ان کی اور ان کے اھل خانہ کی جائیدادوں پر انگلی اٹھائیں تو عدالتی نظام کیسے چلے گا ۔ اگر ہم اتنے ہی پارساء ہیں تو کسی کو جج بنانے سے پہلے سوچنا چاھئیے لیکن جب ایک مرتبہ کوئی منصف کی کرسی پر بیٹھ جائے تو اس کے کردار پر انگلی اٹھانا ، توہین عدالت اور نظام انصاف کی بے حرمتی ہوگی ۔ رہی یہ بات کہ خلیفہ اسلام سے جمعہ کی نماز میں دو چادروں کا حساب مانگا گیا تھا تو عرض ہے کہ وہ خلیفہ اسلام تھے ، یہاں ایک جج صاحب کا معاملہ ہے ۔ ہمیں جج اور خلیفہ میں تمیز کرنی چاھئیے ۔  خلفاء کرام کی روائت تو یہ تھی کہ اگر وہ آفس میں ہوں اور گھر سے خادمہ پیغام لیکر آجائے تو چراغ بجھا کر بات سنتے تھے کیونکہ سرکاری چراغ میں ریاست کے بیت المال کا تیل جل رہا ہوتا تھا اور وہ سرکاری تیل سے جلنے والی قندیل کی روشنی میں ذاتی پیغام سننے کو خیانت فی الامانت سمجھتے تھے ۔

اب آپ پوچھیں گے کہ جن حکمرانوں نے سرکاری دولت لوٹ کر بیرون ملک جائیدادیں بنا لیں ان کا کیا ہوگا تو بھائی صاحب بات کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔ ان میں سے کوئی بھی خلیفہ اسلام نہ تھا کہ بیت المال کو امانت سمجھتا بلکہ یہ سب تو ،  ہم نام نہاد مسلمانوں کے ،  وزیر ، وزیراعظم ، صدر یا سول و فوجی بیوروکریٹس وغیرہ تھے ان کا کیا لینا دینا 1400 برس پہلے کی روایات سے ۔ یہ بات کیوں بھول جاتے ہو کہ جتنا ہم عمل کرتے ہیں اسلام پر اتنا ہی ہمارے حکمران اور جج ۔

Lahore high court

بات ہورہی تھی عدالتی انصاف کی ، تو آپ جانتے ہی ہونگے کہ جب سے لاھور ھائیکورٹ میں جسٹس قاسم خان صاحب بطور چیف جسٹس تشریف لائے ہیں ، ہر ” شریف ” شخص کو فوری انصاف مل رہا ہے ۔ اب وہ زمانہ گیا جب دادا کا دائرکردہ مقدمہ پڑپوتوں تک چلتا تھا ۔ اب تو اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے ۔ چند گھنٹوں میں ملنے والا ،  ایتوار بازار کی سبزیوں اور فروٹ سے بھی سستا انصاف دستیاب ہے ۔ پہلے آؤ پہلے پاؤ ۔

اسی آنریبل کورٹ نے اگلے روز ، پنجاب کے سابق وزیراعلی جناب شہباز شریف کی یہ استدعاء  کسی لمبی چوڑی بحث کے بغیر منظور کرلی کہ وہ علاج کی غرض سے لندن شریف جاسکتے ہیں ۔ لندن کو شریف اس لئے لکھ رہا ہوں کہ جس سرعت سے لاھور ہائیکورٹ شرفاء کو لندن بھجوارہی ہے ، کچھ عرصے بعد وہاں ہر طرف شریف ہی شریف نظر آئینگے ۔

قصہ مختصر ، شہبازشریف صاحب کو لندن جانے کی اجازت ملی اور ساتھ ہی عدالت عالیہ نے یہ حکم بھی جاری کیا کہ موصوف کا نام  وزارت داخلہ کی ” بلیک لسٹ ” سے نکالا جائے تاکہ وہ بلا روک ٹوک سفر کرسکیں ۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ خادم اعلی صاحب نے عدالت میں درخواست دائر کرنے سے قبل ہی قطرائرویز سے اپنی نشست دوھا قطر کے لئے کنفرم کرالی تھی ۔ اسے کہتے ہیں توکل علی اللہ ۔ انہیں اللہ کے بعد معزز جج صاحب پر اسقدر بھروسہ تھا کہ ابھی درخواست لکھی نہیں سیٹ بک ہوگئی ۔

غالب نے کہا تھا ،

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ

کچھ  نہ  سمجھے خدا  کرے کوئی

ایکسپریس انصاف ملا ، ٹکٹ جیب میں تھی ، سامان اٹھایا اور سیدھے علامہ اقبال ائرپورٹ لاہور پہنچ گئے ۔ یہاں یہ بات بھی نوٹ کرلیں کہ ٹکٹ لندن کی نہیں بلکہ

لاہور ۔۔۔ دوھا ۔۔۔ لاہور کی ہے ۔ کاپی شیئر کررہا ہوں ۔ عدالت کو لندن کا کہا ، ٹکٹ لاہور دوھا لاہور کی خریدی ۔ ٹکٹ کے مطابق 8 تاریخ کو لاھور سے دوھا اور 18 تاریخ کو واپس دوھا سے لاہور کا سفر ہوگا ۔

ٹکٹ شہباز شریف

جب موصوف عزیزوں ، رشتہ داروں اور پارٹی کارکنوں سے مل ملا کر امیگریشن پر پہنچے تو پاسپورٹ کے کوائف کمپیوٹر میں ڈالنے کے بعد کاونٹر پر موجود ایف آئی اے کے سب انسپکٹر کالے خان نے مسافر کو بتایا کہ جناب آپ کا نام ابھی تک بلیک لسٹ میں ہے لھذا آپ کو باہر جانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔

یہ سن کر متعلقہ مسافر نے اپنے ساتھیوں کو بلایا جس پر جناب عطاءاللہ  تارڑ  نے ایف آئی اے حکام کو کورٹ آرڈر کی کاپی دکھاکر بات ختم کرنے کا کہا لیکن افسران کی طرف سے جواب ملا کہ یہ ہمارے بس میں نہیں کیونکہ

1.  کسی شھری کا نام بلیک لسٹ میں ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے ڈالتے ہیں اور وہی اسے نکالنے کے مجاز ہیں ۔

2. قانون کے مطابق عدالت سے ریلیف یا حکم ملنے کے بعد آپ کو ایک درخواست DG ایف آئی اے کو اس حکم کی کاپی کے ساتھ بھیجنی ہے کہ جناب عدالت نے مجھے اجازت دیدی ہے اس لئے میرا نام بلیک لسٹ سے نکالاجائے ۔ جو آپ نے نہیں بھیجی ۔

3. ڈائریکٹر جنرل کسی بھی شہری کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ یا بلیک لسٹ میں اس وقت تک نہیں ڈال سکتا جبتک کہ اسے کابینہ کی مخصوص کمیٹی ایسا کرنے کا نہ کہے لھذا جب درخواست ڈی جی کے پاس جائیگی تو وہ اسے واپس کابینہ کمیٹی کو بھیجے گا کہ جس کے حکم سے اس نے ایسا کیا تھا ۔ تاکہ ان سے اجازت لے سکے ۔

4. کابینہ کمیٹی اپنا اجلاس منعقد کریگی تاکہ اس درخواست پر غور کرسکے لیکن کمیٹی کو اجلاس بلانے سے پہلے کابینہ سے اجازت لینی ہوگی ۔

5. کابینہ سے اجازت لینے کے لئے کابینہ کا اجلاس بلایا جائیگا اور یہ کام صرف وزیراعظم صاحب کرسکتے ہیں جو اس وقت 3 روزہ دورے پر سعودی عرب میں ہیں ۔

قارئین

یہ مضمون سوشل میڈیا میں شائع ہونے تک کیا ہوگا اس بارے میں کوئی پیشینگوئی نہیں کی جاسکتی ۔ ہوسکتاہے خادم اعلی صاحب نکل جائیں یا حکومت ، لاھور ھائیکورٹ کے اس حکم کو سپریم کورٹ میں چیلینج کردے ،  کوئی بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی

سیّدزادہ سخاوت بخاری

سیّد زادہ سخاوت بخاری

سرپرست

اٹک ای میگزین

تحریریں

شاعر،ادیب،مقرر شعلہ بیاں،سماجی کارکن اور دوستوں کا دوست

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

ماں

اتوار مئی 9 , 2021
میں کہ سات لغات کا عالم حرف گر و لفظ ساز برجستہ گو و جملہ باز
mother

مزید دلچسپ تحریریں