میں ڈنمارک کی ایک ٹرین میں سفر کر رہا تھا۔ ٹرین میں ایک شریر بچہ بھی تھا جس کی شرارتوں کی وجہ سے میری توجہ بٹ رہی تھی اور میں حسین قدرتی مناظر سے
توزک جہانگیری
ایران کے شہر رے میں ایک ایسی مسجد ہے جسے مسجد آدم کش کہا جاتا تھا۔ اس لیے کہ جو شخص اس میں رات کو سو جاتا وہ صبح مردہ
ہم جس عہد میں زندہ ہیں اس کا تو کیا ہی کہنا ۔عصرانے، ظہرانے اور عشائیوں میں پکوانوں کی گنتی اور بعد از تقریب بچ جانے والے انبار کا وزن ہی محال ہے
منشی فیض الدین نے “بزم آخر” میں قلعہ معلی دہلی کے آخری چہارشنبہ کا حال لکھا ہے۔ جس میں بادشاہ، شہزادے اور مکین دہلی ذوق و شوق سے حصہ لیتے لاکھوں روپے خرچ کر تے
ہمارے بچپن کی گرمیاں اس قدر شدید نہیں ہوا کرتی تھیں۔ تب درختوں اور سبزے کی بہتات تھی۔
عبداللہ کمپیوٹر کے سامنے بیٹھا گیم کھیل رہا تھا ساتھ ہی ساتھ وہ گوگل سے کچھ تلاش بھی کرتا یوٹیوب سے کارٹون بھی دیکھتا۔
حصول ثواب، دفیعہ شر، پناہ عذاب، تذلیل ابلیس اور صدقہ جاریہ کا جس قدر موثر، مکمل اور مسلسل ذریعہ اس
ہماری سادگی ضرب المثل ہے ہم چھاچھی بڑے پیارے اور سادہ لوح لوگ ہیں۔ ہمارے اکثر واقعات بھولے پن کا نادرنمونہ ہوتے ہیں۔
کیمبل پور ذہین، طباع، باادب اور حاضر جواب لوگوں کی دھرتی ہے۔ ایسے ایسے نابغہ یہاں سے اُٹھے اور زمانے پر چھا گئے کہ دنیا دنگ رہی۔