مسجد آدم کش

مسجد آدم کش

ایران کے شہر رے میں ایک ایسی مسجد ہے جسے مسجد آدم کش کہا جاتا تھا۔ اس لیے کہ جو شخص اس میں رات کو سو جاتا وہ صبح مردہ پایا جاتا۔ علامہ نہاوندی نے اپنی کتاب راحۃ الروح میں مسجد آدم کش کا ذکر کیا ہے اور حوالے کے لیے مولانا روم کے یہ اشعار نقل کیے ہیں

یک حکایت گوش کن اى نیک پى
مسجدی بد بر کنار شهر ری
هیچ کس در وی نخفتی شب ز بیم
که نه فرزندش شدی آن شب یتیم

ترجمہ : اے نیک پسر ایک حکایت سنو، شہر رے میں ایک ایسی مسجد تھی، جس میں رات کو لوگ اس ڈر سے نہیں سوتے تھے، کہ کہیں ان کے بچے یتیم نہ ہوجائیں یعنی سونے والا مر نہ جائے۔

ابن بابویہ کے مطابق رے میں ایک مسجد آدم کش کے نام سے تھی جسے اب مسجد مَاشَــــآءَاللّهُ کہا جاتا ہے۔ جو بھی مقامی ، مسافر ، امیر یا غریب اس مسجد میں رات کو رہتا صبح اس کی لاش ہی برآمد ہوتی تھی۔ اسی وجہ سے لوگوں نے وہاں جانا چھوڑ دیا تھا۔
اس زمانے میں غریب مسافر جو سرائے میں ٹھہرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے عموماً مساجد میں شب بسری کرتے تھے۔ چنانچہ جب کوئی قسمت کا مارا پردیسی مسافر جسے علم نہ ہوتا وہاں ٹھہر جاتا اور صبح اس کا جنازہ ہی نکلتا تھا۔
آخر ایک دن شہر ری کے کچھ لوگ سر جوڑ کر بیٹھے تاکہ اس مسئلے کا حل سوچا جائے۔ کچھ نے تجویز دی کہ مسجد کو مکمل طور پر بند کردیا جائے۔ لیکن کچھ کا خیال یہ تھا کہ خانہ خدا اور مقام عبادت ہے اس لیے مکمل بند کردینا مناسب نہیں البتہ رات کو دروازہ بند کر دینا زیادہ بہتر ہوگا اور ساتھ ہی ایک تحریر آویزاں کردینا چاھیے جس میں تمام حالات و واقعات درج ہوں تاکہ مسافران و نابلد آگاہ رہیں اور کوئی ٹھہر نہ سکے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔
ایک رات دو غریب مسافر وہاں آئے اور اس تحریر کو پڑھا، ان میں سے ایک (جس کا نام مَاشَــــآءَاللّهُ تھا) نے دوسرے سے کہا میں آج رات اس مسجد میں رہنا چاہتا ہوں تاکہ دیکھوں تو سہی ماجرا کیا ہے۔ دوسرے نے کہا تم پاگل ہوگئے ہو کیا سب کچھ جاننے کے باوجود یہاں رہنا خودکشی کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن پہلا نہ مانا اور کہا کہ میں تو ضرور ہی یہاں رہونگا۔ تم صبح آنا اگر میں مرگیا تو کفن دفن اور میرے گھر والوں کو خبر کردینا اور اگر زندہ ہوا تو اس راز سے واقف ہوجاؤنگا کہ آج تک کیوں لوگ یہاں مرتے رہے ہیں۔ چنانچہ اس نے دروازہ کھولا اور اندر چلا گیا جبکہ دوسرا کسی اور مسجد کی تلاش میں نکل گیا۔

مسجد آدم کش


یہ شخص اندر جاکر ایک گوشے میں لیٹ گیا لیکن جاگتا رہا۔ آدھی رات خیریت سے گزر گئی اور کچھ نہ ہوا۔ نصف شب کے بعد اچانک ایک خوفناک آواز آنا شروع ہوئی “ آهاى آمدم ـ آهاى آمدم، آهاى آمدم ـ آهاى آمدم “ ۔ اس شخص نے ادھر اُدھر دیکھا لیکن کوئی نہیں تھا اور آواز ہر لمحہ زیادہ خوفناک ہوتی جارہی تھی۔ وہ ڈر تو گیا لیکن خود پر قابو پاکر کھڑا ہوگیا اور اپنی تلوار نکال کر کہا “ مرد کا بچہ ہے تو سامنے آ”۔ ساتھ ہی اس نے آواز کی سمت تلوار چلانا شروع کردی۔ اچانک تلوار دیوار میں بنے چراغ دان پر لگی ، دیوار کا وہ حصہ زمین بوس ہوگیا ، اس جگہ کے اندر سے سونے اور جواہرات کا ایک ڈھیر زمین پر آرہا۔ تب اسے سمجھ میں آیا کہ یہاں خزانہ چھپا کر طلسم کردیا گیا تھا جس وہ مہیب آواز پیدا ہوتی تھی اور لوگ خوف سے مر جاتے تھے۔ لیکن اس شخص کی ہمت و جرأت سے وہ طلسم باطل ہوگیا۔
صبح جب اس کا دوست شہر والوں کے ساتھ آیا تو یہ زندہ اپنے خزانے کے ساتھ موجود تھا۔ تب شہر والوں پر بھی یہ راز آشکار ہوا۔
اس نے وہیں جائداد خریدی اور اپنا کاروبار شروع کردیا۔ پھر اس مسجد کو از سر نو تعمیر کروا کر اس کا نام مسجد مَاشَــــآءَاللّهُ رکھا۔

مآخذ: (امامزادگان و زیارتگاه‌های شهر ری صفحه ۲۱۸ تا ۲۲۰)

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

مائنڈ چپس – حصہ دوم

اتوار اگست 6 , 2023
نارتھ ڈیکوٹا کیلیفورنیا نے 2007 میں امریکی سینٹ سے ایک بل پاس کروایا جس کے مطابق کسی کو جسم میں مائیکرو چپ لگوانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا
مائنڈ چپس – حصہ دوم

مزید دلچسپ تحریریں