شاید کہ اتر جائے

شاید کہ اتر جائے

بصرہ کے گورنر عثمان بن حُنیف کو ایک بار کسی رئیس نے کھانے پر بلایا۔ یہ ایک پر تکلف دعوت تھی جس میں انواع و اقسام کے کھانے اور دیگر لوازمات شامل تھے۔

امیرالمومنین علی المرتضیٰ علیہ السلام کو جب علم ہوا کہ گورنر نے اس دعوت میں شرکت کی ہے، تو آپؑ نے اُس کے نام یہ خط لکھا :،

” اے ابن حُنیف ! میں نے سُنا ہے کہ بصرہ کے ایک مالدار نوجوان نے تم کو پرتکلف دعوت دی تھی۔ تم نے اس دعوت کو بلا تردد قبول کرلیا اور انواع واقسام کے کھانے بڑے اطمینان اور لذت سے کھائے۔ مجھے تم سے یہ امید نہ تھی، کہ تم اس قسم کی دعوتوں میں شریک ہوا کروگے جن میں غریبوں کو پوچھا تک نہیں جاتا “۔

ہم جس عہد میں زندہ ہیں اس کا تو کیا ہی کہنا ۔عصرانے، ظہرانے اور عشائیوں کی تو بات ہی نہ کریں جن میں پکوانوں کی گنتی اور بعد از تقریب بچ جانے والے انبار کا وزن ہی محال ہے۔ہماری سماجی تقریبات میں بھی کھانے کا ضیاع معمول کی بات ہے۔

فی زمانہ وہ محافل جن کا براہ راست تعلق مذہب یا حصول ثواب سے ہے وہ بھی کسی حد تک سماجی اور رواجی انداز کا شکار ہوتی جا رہی ہیں۔ قُل، دسواں، چالیسواں اور برسی حقیقت میں مرحومین کے ایصال ثواب کے لئے وہ مواقع ہوتے جن میں ہم دو طرح سے اپنے ان پیاروں کو جو اس جہان فانی سے کوچ کر گئے ہوتے ہیں ثواب پہنچاتے ہیں،قرآن خوانی و مجلس اور غرباء میں کھانا ،رقم وغیرہ تقسیم کر کے، تا کہ ان کا توشہ آخرت ہو۔

لیکن اب کہیں کہیں ان مواقع پر بھی سماج ثواب پر غالب آتا جا رہا ہے۔ بالکل کسی تقریب کے اہتمام کے انداز میں فہرست ترتیب دینا،کسی کو تاکید اور کسی کو پیشگی شکریے کے ساتھ مدعو کرنا۔ لوازمات و انتطامات وغیرہا۔ اور پھر اس دن جتنے بھی لوگ مدعو کئے گئے ہوتے وہ نادار یا مفلس کے کسی بھی شرعی،اخلاقی اور سماجی معیار پر پورا نہیں اترتے۔ اور نہ ہی جز وقتی مجلس و قرآن خوانی کے بعد کی نشست وگفتگو ایصال ثواب کے تقاضوں کو پورا کرتی نظر آتی ہے۔ اور جن لوگوں تک یہ لنگر پہنچنا چاہیئے وہ تنبو کے باہر برتن ،تھیلے لئے کھڑے ہی رہ جاتے ہیں۔

شاید کہ اتر جائے
Image by hosny salah from Pixabay

حقیقت کیا ہے ؟ اور ہو کیا رہا ہے؟ حقیت تو وہی ہے جو امام المتقین علیہ السلام نے فرما دی ۔ کہ تمہاری کوئی بھی دعوت مفلسوں کی شرکت کےبغیر میرے لئے قابل قبول نہیں۔ اور مندرجہ بالا مواقع تو سراسر ہیں ہی اس لئے کہ ناداروں کی مدد کر کے ان کی دعائیں مرحومین تک پہنچائی جائیں۔

آپ مجھ سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن جو میں نے لکھا ہے وہ میرا بہت گہرا مشاہدہ ہے۔

Jahangir Bukhari

آغا جہانگیر بخاری

بانی مدیر

چیف ایگزیکٹو

بانی مدیر و چیف ایگزیکیٹو | تحریریں

فطرت مری مانند نسیم سحری ہے

رفتار ہے میری کبھی آہستہ کبھی تیز

پہناتا ہوں اطلس کی قبا لالہ و گل کو

کرتا ہوں سر خار کو سوزن کی طرح تیز

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

میں سوچوں یہ کیوں اُجلی اُجلی سحر ہے

جمعہ اکتوبر 8 , 2021
میں سوجوں یہ کیوں اُجلی اُجلی سحرہے، یہ کیسا دلوں میں سرور آگیا ہے
masjid-nabwi

مزید دلچسپ تحریریں