مائنڈ چپس – حصہ اوّل
اس سال کے آخر میں کنیڈا کی کیلگری یونیورسٹی کے پاکستانی ڈاکٹر نوید سیّد دنیا میں پہلی بار انسانی دماغ میں دو طرفہ مائیکرو چپ لگانے کا کامیاب آپریشن کریں گے۔ ڈاکٹر نوید سیّد اور اسکی ٹیم کے ممبران پچھلی دو دہائیوں سے اس ٹیکنالوجی کو کامیاب بنانے پر کام کر رہے تھے۔ اس مائنڈ چپ کا بنیادی مقصد مرگی، دماغی کینسر، پارکنسن اور ڈیپریشن وغیرہ جیسی بیماریوں کا علاج کرنا ہے۔ یہ چپ نیورو سرجنز کو مریضوں کے آپریشن زیادہ درستگی کے ساتھ کرنے میں مدد فراہم کرے گی۔ یہ چپ ایک منی کمپیوٹر ہے جسکا حیرت انگیز کمال یہ ہے کہ یہ مرگی کے مریض کو دورہ پڑنے سے پہلے ہی دورے سے آگاہ کرے گی۔ اس کے بعد یہ چپ اپنے خودکار سگنلز کی مدد سے مریض کے عزیز و اقارب، ایمرجنسی وارڈ اور پیرا میڈیکل کے عملے کو مریض کی لوکیشن وغیرہ بھی بتائے گی۔
گزشتہ برس چائنا کی ایوا ین تائیجن یونیورسٹی نے دنیا کی پہلی مائنڈ ٹاکر (بی سی 3) چپ ایجاد کی تو ماہرین کا خیال تھا کہ اس چپ کو دماغ کے خیالات اور دماغی لہروں کو پڑھنے، ڈی کوڈ کرنے اور انہیں کمپیوٹر کو منتقل کرنے کے لئے استعمال کیا جائے گا یعنی اس چپ کی مدد سے آپ کچھ سوچیں گے اور یہ چپ آپ کے خیالات اور آپکے دماغ کی لہروں کو کمپیوٹر میں منتقل کر دے گی۔ آپ نے آٹو لائٹس اور آٹو کیمرے وغیرہ دیکھے ہونگے جن میں سنسر لگا ہوتا ہے۔ یہ آٹو کیمرے اور بلب چیزوں کی موجودگی کو پڑھ کر کام کرنے کے لئے خود بخود آن ہو جاتے ہیں۔ کوئ اوور سپیڈنگ کار گزرے تو یہ کیمرے اسکی تصویر لے لیتے ہیں یا آپ جونہی گھر میں داخل ہوتے ہیں آپ بجلی کا بٹن بھی نہیں دباتے مگر بلب روشن ہو جاتا ہے۔ مائنڈ ٹاکر چپ کو استعمال کرتے وقت آپکو بولنا پڑے گا اور نہ ہی کسی چیز مثلا کمپیوٹر وغیرہ کو چھونا پڑے گا۔ چپ کی کارکردگی کو اس سے بھی کوئ فرق نہیں پڑے گا کہ کمپیوٹر آپ کے نذدیک ہے یا آپ سے میلوں دور ہے۔
چین میں مائنڈ ٹاکر دماغی چپ کی ایجاد کے وقت سائنسدانوں کا خیال بس اتنا سا تھا کہ مستقبل میں اس ٹیکنالوجی کو تعلیمی مقاصد، کھیل اور میڈیکل آلات وغیرہ کے طور پر استعمال کیا جا سکے گا مگر صرف ایک سال بعد جب سے کورونا وائرس نے عالمی وباء کی شکل اختیار کی تھی یہ موضوع بہت زیادہ ڈسکس ہو رہا تھا کہ ویکسین کے ذریعے امریکہ انسانوں کے اندر “مائیکرو چپ” منتقل کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کے ذریعے پوری دنیا کے نظام کو کنٹرول کیا جا سکے۔ ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات یا تنقیدی سوچ کا گلہ نہیں دبایا جا سکتا۔ کچھ سازشی تھیوریاں بھی سامنے آ رہی تھیں جن کے مطابق اس خطرناک منصوبے کو بل گیٹ سپانسر کر رہا تھا۔ ایک سازشی نظریئے کے مطابق 2019 کی وبا کووڈ 19 کو لیبارٹری میں تیار کیا گیا تھا، دنیا میں خوف پھیلانے کے لئے مریضوں اور اموات کی تعداد زیادہ شو کی جا رہی تھی اور کہا جا رہا تھا کہ دنیا سے کورونا اس وقت تک ختم نہیں ہو گا جب تک دنیا کی آبادی ڈیڑھ سے دو ارب تک کم نہیں ہوتی یا دنیا کے ہر انسان کو چپ والی “انجینئرڈ” ویکسین نہیں لگ جاتی۔
کہتے ہیں کہ ہالی وڈ کی فلم میٹرکس میں ایسی ہی دماغی چپوں کو موضوع بنایا گیا تھا۔ وہ عہد ابھی چند سالوں یا دہائیوں کے فاصلے پر ہے جب آپ اپنا ہر کام کرنے کے لئے ان مائنڈ چپوں کے محتاج ہوں گے، سکول میں داخلہ، خریداری، بینکنگ، علاج، سفر، کاروبار، سوشل تعلقات حتی کہ زندگی کے ہر شعبے کا لین دین انہی چھوٹے ذہنی آلات کے ذریعے کیا جائے گا۔ کچھ مغربی ممالک میں چند افراد نے یہ چپیں اپنے جسم میں لگوائ ہیں جن میں ان کا پورا ریکارڈ، فون اور کریڈٹ کارڈ وغیرہ ہیں اور وہ ان چپوں کو چھوئے یا کچھ بولے بغیر اپنی سوچ کے ذریعے استعمال کر رہے ہیں۔ اگر نصف صدی مزید آگے جائیں تو ان چپوں کے اتنے نئے اور جدید ماڈل مارکیٹ میں آنا شروع ہو جائیں گے کہ تب آپ اپنی سوچ کی پوری فائل دنیا کے کسی بھی انسان کو اسی طرح منتقل کر سکیں گے جس طرح آج ہم وٹس ایپ پر ایک دوسرے کو تحریریں، پیغامات یا تصاویر وغیرہ
بھیجتے ہیں۔
حال ہی میں ایلون مسک نے اعلان کیا ہے کہ انکی “نیورولنک” کمپنی اس سال کے آخر تک انسان کے دماغوں میں مائیکرو چپ لگانے کے قابل ہو جائے گی۔ یہ چپ براہ راست انسان کی کھوپڑی میں لگائی جائے گی جو انسانی دماغ کے مختلف حصوں کے ساتھ کیمیائی عمل کر سکے گی۔
اس قسم کی دماغی چپ Mind Chip یعنی اس مائیکرو کمپیوٹر ڈیوائس سے آپکی نظر، سماعت اور آپ کے مختلف اعضاء کی حرکت کو بہتر بنایا جا سکے گا اور ان میں موجود خامیوں کو بھی درست کیا جا سکے گا۔
یہ نیورولنک کی ابتداء ہے۔ آنے والے وقت میں ان منی دماغی کمپیوٹرز کے جب جدید ماڈلز آئیں گے، انسانوں میں مصنوعی ذہانت Artificial Intelligence کام کرنے لگے گی تو تمام انسانوں کے خیالات میں بہتر طریقے سے “اجتماعیت” بھی پیدا ہو گی۔
جاری ہے …….
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ “خبریں: اور “نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ “اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ “جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔