صحراء کی صبح اور باد نسیم

( صحرائے عرب میں صبح کس انداز سے نمودار ہوتی ہے ۔ نسیم صبح کے ناقابل یقین ، معطر اور مسحور کن جھونکوں کی کہانی )

تحریر :

سیّدزادہ سخاوت بخاری

اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والے خواتین و حضرات نے صبح اودھ اور شام بنارس کا محاورہ کئی مرتبہ پڑھا ہوگا ۔ اودھ ( Awadd ) بھارت کی موجودہ ریاست اتر پردیش (UP) کے اندر ایک مسلمان ریاست تھی جس کا اولین دارالحکومت فیض آباد اور پھر لکھنوء بنا ، جو ابتک اترپردیش کا دارالحکومت ہے ۔

Ganga
گنگا – Image by Shantanu Kashyap from Pixabay

اسی طرح ہندووں کا قبلہ و کعبہ بنارس کا مشہور شہر بھی ، صوبہ یوپی کے اندر دریائے گنگا کے کنارے واقع ہے ۔ بنارس  کا نام بی جے پی ( BJP ) حکومت نے بدل کر وارانسی رکھ دیا ہے لیکن لکھنوء جو ابتک اپنے پرانے نام سے ہی پکارا جاتا ہے ، کبھی سابقہ ریاست اودھ کا دارالحکومت تھا لھذا محاورے میں اودھ سے مراد لکھنوء کا شہر لیا جاتا ہے ۔ ان دو تاریخی شہروں میں سے ، بنارس کی صبح اور لکھنوء ( اودھ ) کی شام نے ، اسقدر شہرت پائی  کہ محاورے کی حیثیت اختیار کرکے اردو ادب میں شامل ہوگئیں ۔

varansi
بنارس – Image by D Mz from Pixabay

بنارس ، موجودہ وارانسی ، ہمارے مکہ اور مدینہ کی طرح ہندو مذہب کا پوتر (پاک اور مقدس ) شہر ہے ۔ یہاں سینکڑوں چھوٹے بڑے مندر ہیں ۔ یہ تاریخی اور مذہبی شہر اس دریائے گنگا کے کنارے آباد ہے جس میں ہندو عقیدے کے مطابق اشنان کرنے ( نہانے سے ) تمام سابقہ گناہ جھڑ جاتے ہیں ، جیسا کہ ہم مسلمان حج کرنے کے بعد اپنے آپ کو سابقہ گناہوں سے صاف شفاف اور پاک سمجھ لیتے ہیں حالانکہ ایسا ہے نہیں ۔ اگر گنگا میں اشنان اور حج کرنے سے سابقہ گناہ دھل جانا درست قرار دیا جائے تو پھر تمام چور ڈاکو اور مجرم ،  لوٹی ہوئی دولت سے ہر سال حج کرکے یوم حساب سے پہلے پہلے پاک صاف ہوکر ڈائریکٹ جنت میں داخل ہوجائینگے ۔ وضاحتا عرض کردوں کہ ادائے حج سے حقوق اللہ میں کی گئی کمی بیشی میں رعائت ضرور ملتی ہے لیکن حقوق العباد کا حساب جوں کا توں رہیگا ۔

ashnan
گنگا اشنان – Image by Yolanda Coervers from Pixabay

معافی چاہتا ہوں بات کہاں سے کہاں نکل گئی ، بتا یہ رہا تھا کہ بنارس ہندووں کا مقدس شہر ہے جہاں کی صبح بہت سہانی ہوتی ہے ۔ مسلمانوں کی صبح کی آذان کے ساتھ ہی سینکڑوں مندروں سے پوجا پارٹ کے لئے گائے جانیوالے بھجنوں اور گھنٹیوں کی سریلی آوازیں فضاء میں موسیقی بھر دیتی ہیں ۔ جیسے ہی ٹنا ٹن کی موسیقی گونجتی ہے ، شہر بھر کے ہندو نیند چھوڑ کر ہاتھوں میں گیندے کے پھول اور گڑویاں اٹھائے ، گنگا ماتا کے اشنان کے لئے نکل پڑتے ہیں ۔ کہتے ہیں جب سورج دیوتا ، گنگا میں ڈبکی لگاکر اپنی پہلی کرن بنارس پر پھینکتا ہے تو سورج بنسی ( سورج دیوتا کے پجاری ) گڑویوں میں گنگا جل ( گنگا کا پانی ) بھر کر اس کی آرتی اتارتے ہیں ۔  جیسے ہی  پوجا مکمل ہوئی پجاری اپنے اپنے گھروں کو لوٹ چلے ۔

بنارس جہاں صبح کی گھنٹیوں اور پوجا پارٹ کے لئے مشہور ہے وہیں اس شہر کے مسلمان بافندوں ( کپڑا بنانے والوں )  کی کھڈی سے بنائی ہوئی ،  ریشمی ساڑھیاں ، دنیاء بھر میں پسند کی جاتی ہیں ۔  اسی طرح بنارسی ٹھگوں کے علاوہ ،  بنارس کا پان اسقدر  چٹخارے دار ہوتا ہے ، کہ اس پر نغمہ نگار  انجان  نے فلم ڈان کے لئے گیت لکھ ڈالا ۔ کشور کمار کی آواز میں گائے اس نغمے کے بول ہیں ،

او کھائی کے پان بنارس والا

کھل جائے  بند  عقل  کا  تالا

امیتابھ
کھائی کے پان بنارس والا

قصہ مختصر ، جہاں ہمیں ،  صبح بنارس ،   گھنٹیوں کی ٹنا ٹن موسیقی اور پوجا پارٹ کے جلوس میں ،  گیندے کے پھولوں سے لدی نارنجی ساڑھی پہنے ، گنگا کنارے نمودار ہوتی نظر آتی ہے ، وہیں  شام اودھ ( لکھنوء کی شام ) ، بال بکھرائے ،  گھنگھرووں کی چھنا چھن اور طبلے کی تھاپ پر طوائفوں کے کوٹھوں سے اترتی دکھائی دیتی ہے ۔ ریاست اودھ کے آخری تاجدار کنگ واجد علی شاہ کے دور تک لکھنوء جہاں علم و ادب اور تہذیب کا گہوارہ تھا وہیں اس کی طوائفیں ( بائیاں ) رقص سرود کے ساتھ ساتھ شرفاء اور نوابین کے بچوں کو تہذیب سکھانے کے اداروں کے طور پر جانی جاتی تھیں ۔ بڑے بڑے امراء اپنے بچوں کو آداب محفل سکھانے ان کے پاس بھیج دیتے ۔

شام ہوتی ہی بازار ، موتیے ، چنبیلی اور گلاب کے گجروں سے سج جاتے ۔ تازہ پھولوں کی خوشبو سے معطر ہر گلی کے چوباروں اور جھروکوں سے کسی امراؤ جان کی صداء بلند ہوتی ،

اک تم ہی نہیں تنہاء الفت میں میری رسوا

اس شھر میں تم جیسے دیوانے ہزاروں ہیں

اگرچہ لکھنوء کی شام کا یہ ایک تہذیبی پہلو ہے لیکن شاید اسی عیاشی اور فحاشی نے ہندوستان کی مسلمان ریاستوں کو نیست و نابود کرکے رکھ دیا ۔

umrao jaan
امراؤ جان

بنارس اور لکھنوء کی یہ دلچسپ و دل آویز کہانی اس لئے سنانا پڑی  ،   کہ میراجب بھی صحرائے عرب سے گزر ہوا ،  وہاں کی صبح و شام کے سہانے پن نے اسقدر متاثر کیا کہ اردو ادب کا طالبعلم ہونے کے ناطے

 ” صبح بنارس – شام اودھ ”   کا محاورہ یاد آگیا ۔

گزشتہ تقریبا نصف صدی سے سرزمین عرب کے ملک سلطنت عمان میں مقیم ہوں ۔ متعدد مرتبہ پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی کے لئے شہروں سے نکل کر صحراء میں گشت کیا ۔ یاد رہے عمان کے کل رقبے کا 82% ریگستان ، 15% پہاڑ اور صرف 3% ساحلی میدانوں پر مشتمل ہے ۔ ریگستان یا صحرائی رقبہ اگرچہ بہت زیادہ ہے لیکن اللہ نے اسی صحراء کے نیچے تیل و گیس کی جھیلیں چھپا رکھی ہیں اور ان ہی قدرتی خزانوں نے ، اس سلطنت کو ، دھن دولت سے مالا مال کررکھا ہے ۔ عمان کا مستطیل نماء ( Rectangular )  صحراء کم و بیش 1000 کلو میٹر طویل اور مختلف مقامات پر تقریبا 400 سے 500 کلومیٹرز تک چوڑا ہے ۔

مسقط، سلطنت عمان – Image by Sue and Todd from Pixabay

جن لوگوں نے کبھی صحراء نہیں دیکھا ان کے علم کے لئے بتاتا چلوں کہ صحراء زیادہ تر ہموار میدان کی طرح ہوتا ہے ۔ تا حد نگاہ  ، ریت کا میدان لیکن کوئی سبزہ یا درخت نظر نہیں آتا ، البتہ کہیں کہیں صحرائی جڑی بوٹیاں اور صحراء کے پھول ، نہ جانے کن نگاھوں کے انتظار میں ، کسی دیہاتی حسینہ کی طرح ، شرماتے ، لجاتے اور لہلہاتے دکھائی دیتے ہیں ۔

یہاں مجھے علامہ اقبال کی ایک غزل کے دو اشعار یاد آگئے ، فرماتے ہیں ،

” پھول ہیں صحراء میں یا پریاں قطار اندر قطار

اودے اودے نیلے نیلے پیلے پیلے پیرہن

( مطلب :

صحراء کے پھولوں پر نظر پڑنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے ، کہ جیسے ، خوبصورت پریاں ، پرپل ، نیلے اور پیلے لباس زیب تن کئے قطاریں بناکر کسی کے استقبال کے لئےکھڑی ہیں )

اسی غزل کے ایک اور شعر میں کہتے ہیں ،

” حسن بے پرواہ کو اپنی بے حجابی کے لئے

ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن

( مطلب :

 قدرتی حسن کے نظاروں کو اس لئے  ” حسن بے پرواہ ”  کہا جاتا ہے کہ وہ کسی سے داد طلب نہیں کرتے ، نہیں پوچھتے ہم کیسے لگ رہے ہیں ۔ اپنی ذات میں گم رہتے ہیں ۔

 کہا ، اگر حسن بے پرواہ کو اپنی نمائش کے لئے شہروں اور آبادیوں کی بجائے ،  بن ، یعنی جنگل اور ویرانے پسند ہوں تو بتائیے شہر اچھے یا جنگل اور ویرانے )

desert flowers

صحراء میں آبادی نہ ہونے کے برابر ہے ، لیکن بعض مقامات پر  خانہ بدوش بدو  ، اپنے اونٹ اور دیگر جانور لئے عارضی جھونپڑوں میں مقیم نظر آتے ہیں ۔  سمندر سے قریب علاقوں میں چند مستقل آبادیاں ، گاؤں اور ٹاون بھی ہیں ۔ جہاں کے لوگ اونٹ اور بھیڑ بکریاں پالنے کے ساتھ ساتھ ، سمندر سے مچھلیاں پکڑ کر کاروبار زندگی چلاتے ہیں ۔

کہانی طویل ہوتی جارہی ہے لیکن میرے معزز قارئیں اکثر و بیشتر شکوہ کناں رہتے ہیں کہ شاہ جی ، جب ہمیں تحریر اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے تو آپ اسے ختم کردیتے ہیں لھذا صحراء سے متعلق ، چند اور مشاہدات و تجربات بھی تحریر کئے دیتا ہوں ۔

عمان کے منطقہء شرقیہ ( Eastern Region ) میں ایک دور دراز شہر ، دقم ( Duqam )  کی سمت دوران سفر مجھے سڑک کنارے پانی کی ایک ننھی سی جھیل اور اس کے  آس پاس کھجور کے چند درخت ، آنے جانے والوں سے بے خبر و بے نیاز اپنی ذات میں گم ، کسی مست ملنگ کی طرح ،  ہواء کے جھونکوں پہ جھولتے اور جھومتے نظر آئے ۔ میرے لئے یہ نظارہ پرکشش اور حیران کن تھا  ۔ بے آب و گیاہ صحراء کے بیچوں بیچ پانی کی جھیل اور سرسبز درخت کہاں سے آگئے ۔

اپنے سکھ ڈرائیور سے کہا ،

 گاڑی روکو ، مجھے اس نظارے سے لطف اندوز  ہونا ہے ۔ سرجیت سنگھ نے گاڑی تو روک دی لیکن مجھے گاڑی سے اتر کر جھیل کے پاس جانے سے منع کردیا ۔ وجہ پوچھی ۔

 کہنے لگا ،

شاہ جی !

میں اس علاقے میں پہلے بھی کام کرچکا ہوں ۔ اس پانی کو علاقے کے لوگ

 ” جنات کی جھیل "

کہتے ہیں ۔ یہاں جنات کا ڈیرہ ہے ۔ جو پانی کے قریب جائے واپس زندہ نہیں لوٹتا ۔ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہنے لگا ،

جب اس علاقے میں ترقیاتی کام شروع ہوئے تو ایک پاکستانی نے ، اپنے واٹر ٹینکر کے ذریعے یہاں سے پانی بھر کر ادھر ادھر بیچنا شروع کردیا جس پر جنات نے اسے کئی مرتبہ سامنے آکر کہا کہ دوبارہ اس طرف مت آنا لیکن وہ نہ مانا اور باالآخر ایک دن اسی جھیل کنارے ،  ٹینکر کے پاس ، اس کی لاش پڑی ملی ۔ وہ دن اور آج کا دن کوئی مقامی یا خارجی شخص اس پانی کے قریب نہیں جاتا ۔ بلکہ تمام ڈرائیورز تیزی سے گاڑی بھگا کر یہاں سے گزر جاتے ہیں ۔

اس روائت میں کتنا سچ ہے میں نہیں جانتا لیکن اکثر لوگوں سے یہی کہانی سنی ۔ ویسے یہ پانی کسی عجوبے سے کم نہیں ۔ لق و دق  صحراء کے بیچوں بیچ ، کھڑے پانی کا یہ ذخیرہ دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔

oasis

بات چل نکلی ہے تو یہ بھی جان لیجئے کہ سمندر کی طرح صحراء میں بھی ہواء کے زور سے ریت کے طوفان اٹھتے ہیں ۔ ہم دو دوست   ، ایک صحرائی سڑک پر سفر کررہے تھے کہ دور افق پر ہمیں کالی آندھی ہماری سمت آتی دکھائی دی ۔ سمجھ گئے ریت کا طوفان آرہا ہے ۔ گاڑی ایک طرف کھڑی کرکے شیشے بند کرلئے ۔ چند ہی لمحوں میں طوفان نے ہمیں آن لیا ۔ ریت ، گاڑی کی ونڈ اسکرین اور شیشوں سے چھو کر ایسے گزر رہی تھی جیسا کہ تیز بارش کا پانی بہتا چلا جاتا ہے ۔ کم و بیش 20 منٹ میں جب یہ طوفان گزر گیا تو جان میں جان آئی اور ہم نے سفر دوبارہ شروع کیا ۔

صحراء میں طوفانی ہواوں کے علاوہ ایسی فنکار ہوائیں بھی پائی جاتی ہیں جو ریت کو اڑا کر ٹیلے کی شکل دے دیتی ہیں ۔ آپ ایک ہی سڑک سے بارہا گزریں ، سڑک کے ارد گرد کے مناظر بدلے ہوئے ملینگے ۔ کبھی چھوٹے چھوٹے ٹیلوں کی قطاریں  تو کبھی ایک بڑا ٹیلا ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی ماہر انجنیئر نے بڑی مہارت سے ٹیلے بنائے ہوں  ۔ یہی نہیں بلکہ فرصت کے اوقات میں ، ہواء ، ان ٹیلوں پر گل کاری بھی کرتی ہے ۔ ایسے ایسے نقش و نگار بنے نظر آتے ہیں کہ انسان دیکھتا رہ جائے ۔ صحراء کی ایسی ہی ایک تصویر جب میں نے اردو کے معروف شاعر مرحوم شبنم رومانی کو مسقط میں دکھائی تو بے ساختہ بول پڑے ،

بخاری صاحب یہ ہواء کی شاعری ہے۔

اسی صحراء میں مجھے مٹیالے بلکہ ہو بہو ریت کی رنگت کا سانپ دیکھنے کو ملا ۔ تقریبا ڈیڑھ فٹ لمبا ، یہ انتہائی زہریلا سانپ ،  شکار کو پھانسنے کے لئے اپنا پورا بدن ریت میں چھپا لیتا ہے ۔ صرف سر کا تھوڑا سا حصہ اور آنکھیں باہر رکھتا ہے ۔ آپ اسے نہیں دیکھ سکتے مگر یہ سب کو دیکھ رہا ہوتا ہے ۔ جیسے ہی کسی انسان یا جانور نے اس کے قریب پاوں رکھا ، ڈس لیتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آئل کمپنیوں کے اہلکار اور وہ لوگ جو صحراء میں کسی بھی کام سے جائیں ان کے لئے لانگ سیفٹی بوٹ پہننا لازمی ہوتا ہے تاکہ ان سانپوں سے محفوظ رہ سکیں ۔

snake

صحراء کی صبح اور باد نسیم

صحراء کا سب سے بڑا اور عام پایا جانیوالا جانور اونٹ ہے جو آپ کو جا بجاء چلتا پھرتا دکھائی دے گا ۔ کبھی کبھی یہ حضرت پکی سڑک پر آکر بیٹھ جاتے ہیں اور رات کے وقت کئی مرتبہ ،  کسی اندھے موڑ پر گاڑیوں سے ٹکرا کر بڑے حادثات کا باعث بنتے ہیں ۔

جیسا کہ پہلے بیان کیا ، اسی صحراء کے نیچے اللہ نے تیل اور قدرتی گیس کے خزانے چھپا رکھے ہیں لھذا صحراء کے طول و عرض میں حکومتی کمپنی ، پیٹرولیم ڈیویلپمنٹ عمان ( PDO ) کے زیر اہتمام آئل اینڈ گیس فیلڈز ( Oil & Gas Fields ) کے کیمپس قائم ہیں ۔

مجھے اپنے فرائض منصبی کے سلسلے میں اکثر مختلف فیلڈز اورکیمپس میں جانے اور وہیں قیام کرنے کا موقع ملا جو صحراء کے اندر ، سمندر کے جزیروں کی طرح بیابان میں الگ تھلگ بنائے گئے ہیں ۔

پہلی مرتبہ جانا ہوا  تو ڈرائیور نے کہا ،

 شاہ جی !  صبح سویرے اٹھیئے گا آپ کو ایک نظارہ دکھاونگا ۔ چنانچہ فجر کی آذان سے پہلے ہی جاگ کر تیار ہوگیا ۔ ڈرائیور نے دروازے پہ دستک دی ۔ باہر آیا تو ہواء کے خوشگوار جھونکوں نے استقبال کیا۔

قارئین کرام

مجھے اپنی زندگی میں ایسی خوشگوار ہوا کا تجربہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا جو اس صحراء کے اندر خراماں خراماں رواں دواں تھی ۔ ہم کیمپس کی کھلی راہداریوں میں چکر کاٹ کر اس ریشمی ہوا سے لطف اندوز ہوتے رہے ۔ اس کے بعد سے تو ہر مرتبہ صبح کاذب کی سیر میرا معمول بن گئی ۔

ریشم کا ذکر آتے ہی ہمارے ذہن میں نرماہٹ اور ملائمت کا تصور پیدا ہوتا ہے ۔ یقین جانئیے اس ہوا کو اس سے بھی زیادہ  ملائم ، خوشگوار اور اسقدر معطر پایا کہ روح تازہ ہوگئی

صحراء کی صبح اور باد نسیم
Image by sylviacopol0 from Pixabay

بقول پروین شاکر ،

” روح تک آگئی تاثیر مسیحائی کی "

مجھے اکثر ایسے لگا کہ شاید یہ جنت کی ہواء ہے  یا ماں کے دوپٹے کی ہواء ہے ۔۔

آپ کے علم کے لئے بتاتا چلوں کہ اسی ہوا کو عربوں نے ” نسیم ” کا نام دیا ۔ ہمارے ہاں نسیم نام عام ہے ۔ یہ دراصل صحراء میں جنت سے آنیوالی ہوا کا عربی نام ہے ۔

اسی نسیم کو لیکر مسلمان شعراء نے اردو ، پنجابی ، عربی اور فارسی زبان میں سینکڑوں اشعار کہے ،

مثال کے طور پر ، معروف فارسی شاعر ، عاشق رسول ، حضرت مولانا

عبدالرحمن جامی رحمة اللہ کی نعت کا یہ شعر کس نے نہیں سنا ،

وہ نسیم صبح سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں ،

” نسیما ! جانب بطحاء گزر کن 

 ز احوالم محمدؐ   را  خبر  کن "

مطلب :

اے نسیم ! تو بطحاء یعنی مدینہ شریف کی طرف چل اور میرے آقا و مولا حضرت محمد ﷺ   کو میرا حال بتا کہ میں ان کے ہجر میں کسقدر بےچین اور ملنے کے لئے بیتاب ہوں ۔

انوکھی اداء رکھنے والی  باد نسیم ،  صبح کاذب یا فجر کی آذان سے پہلے  ، کسی ریشم پوش شہزادی کی طرح  دبے پاوں چلنا شروع کردیتی ہے  لیکن شاید اس کی سورج دیوتا کی بیٹی کرن سے نہیں بنتی لھذا پہلی کرن کے صحراء پر قدم رکھتے ہی ، حیران کن طور پر ، ایسے غائب ہوجاتی ہے کہ جیسے کسی نے بٹن دباکر پنکھا بند کردیا ہو ۔ ادھر پہلی کرن نمودار ہوئی ادھر میڈم نسیم ایسے روپوش جیسے بالاخانے کی کھڑکی سے جھانکتی حسینہ ، کسی اجنبی کو دیکھ کر فورا دریچہ بند کرلیتی ہے ۔

یوپی والوں نے صبح بنارس اور شام اودھ تو بیشک ڈھونڈھ لی ،  لیکن نسیم صبح کے تجربے سے محروم رہے ورنہ بنارس کے مندروں میں فجر کے وقت بجنے والی گھنٹیوں کی موسیقی ، گنگا ماتا کی روانی اور لکھنوء کی گجروں سے سجی شامیں   اور  امراو جان کے مدھر تانوں پر کئے جانیوالے کتھک ڈانس کو بھول جاتے ۔

SAS Bukhari

سیّدزادہ سخاوت بخاری

مسقط، سلطنت عمان

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

شاعر مترجم مفکر نثر نگار سیّد جون ایلیا

بدھ نومبر 9 , 2022
جون ایلیا ایک ساتھ شاعر، صحافی، مفکر، مترجم، نثر نگار، دانشور بہت کچھ تھے وہ 14دسمبر 1934ء کو بھارت کی ریاست اترپردیش کے امروہہ میں پیدا ہوئے
شاعر مترجم مفکر نثر نگار سیّد جون ایلیا

مزید دلچسپ تحریریں