ایران اسرائیل کشیدگی اور ایرانی صدر کا دورہ پاکستان

ایران اسرائیل کشیدگی اور ایرانی صدر کا دورہ پاکستان

Dubai Naama

ایران اسرائیل کشیدگی اور ایرانی صدر کا دورہ پاکستان

کہتے ہیں کہ جب گیدڑ کو موت آتی ہے تو وہ گاو’ں کی طرف بھاگتا ہے۔ اس کہاوت کو ایک طرف رکھ دیں اور سوچیں کہ ایران اسرائیل کی بڑھتی ہوئی کشیدگی دنیا کے امن کو تباہ کرنے کے لیئے کیا بھیانک رخ اختیار کر سکتی ہے جس سے نہ صرف فلسطین اسرائیل جنگ پورے خطہ کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی بلکہ اس سے “تیسری عالمی جنگ” (Third World War) کے خطرات بھی دوبارہ شدت اختیار کر جائیں گے۔ 14اپریل کو ایران نے اسرائیل پر جوابی حملہ کیا تو ان تبصروں میں تیزی آ گئی تھی اور اب اسرائیل نے اصفہان کے ایئرپورٹ پر میزائلوں کے ذریعے جوابی کاروائی کی یے تو ایک بار پھر تیسری عالمی جنگ کو ڈسکس کیئے جانے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی خطہ میں لڑی جانے والی جنگ چھوٹی ہو یا بڑی ہو، اسلحہ کم خطرناک ہو یا زیادہ خطرناک ہو، وہ چاہے “ایٹم بم” ہو یا “ہائیڈروجن بم” ہو، ان سے بنی نوع انسانوں ہی کی نسل کشی ہوتی ہے جیسا کہ تاریخ کی پہلی جنگوں میں ہوتا آیا ہے، اب ہو رہا ہے یا آئیندہ ہونے جا رہا ہے۔اسرائیل پر 14اپریل کے پہلے ایرانی حملہ کے بعد ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے دوٹوک الفاظ میں وارننگ کے انداز میں اسرائیل کو خبردار کیا تھا کہ اگر اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا یا اس کو نقصان پہنچایا تو اسرائیل کو فوری، سخت اور وسیع پیمانے پر اس سے بڑا اور سنگین ردعمل دیا جائے گا جس کے لئے وہ مزید 12دن انتظار نہیں کریں گے۔ اس بیان کے اگلے روز “کیمیائی ہتھیاروں” پر بھی تبصرے ہوئے۔ اگرچہ اسرائیل کو امریکی صدر جوبائیڈن نے بھی متنبہ کیا کہ اسرائیل نے ایران کے خلاف ایسی کوئی جارحیت کی تو امریکہ اس کا شریک کار نہیں ہو گا۔ لیکن اسرائیل نے بغیر کسی انتظار کے اگلے ہی روز ایران کے شہر پر حملہ کر دیا جس کی امریکی خبر رساں ایجنسیوں نے تصدیق کی اور ایران نے بھی دعوی کیا کہ اس نے اسرائیل کے میزائل حملہ میں 3ڈرونز مار گرائے ہیں۔ ایران نے اپنے 14اپریل کے حملہ کو “آپریشن سچا وعدہ” (Operation True Promise) کا نام دیا تھا۔اسرائیل پر ایران کے پہلے حملہ کے بعد بہت سے اسلامسٹ مجاہدین نے اس ایرانی حملہ کو اسرائیل کے خاتمہ کی ابتداء قرار دیا تھا۔ کیا اسرائیل نے ایران پر حملہ کر کے اپنی موت کو دعوت دی ہے؟ ابراہیم رئیسی ایک ملک کے سربراہ ہیں جس کا نام ایران ہے اور ملک کے سربراہ کا بیان گیدڑ بھبکی نہیں ہو سکتا کہ اگر اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو ایران اسرائیل پر دوسرا حملہ پہلے حملے سے زیادہ بڑا کرے گا۔ ماضی میں اسرائیل کو خلیج کا “پولیس مین” کہا جاتا تھا۔ ہمارے کچھ لکھاری اسرائیل کو امریکہ کا “بغل” بچہ بھی کہتے آئے ہیں۔ اس کے بدلے امریکہ نے عرصہ دراز سے “حماس” کو دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔ اسرائیل کو لگا کہ وہ جنگ ہار رہا ہے تو وہ خوفزدہ ہو کر ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی غلطی بھی کر سکتا ہے۔ پاکستان “مسلمہ” ایٹمی طاقت ہے۔ یہ وہی ایران ہے جس کے صدر پاکستان آ رہے ہیں جس نے کچھ ہی عرصہ پہلے بلوچستان میں پاکستان پر حملہ کیا تھا جس کے بعد پاکستان نے 24 گھنٹوں میں ایران پر میزائلوں سے جوابی حملہ کیا تھا۔ اب ایران سے کچھ بن نہیں پا رہا تو وہ بھاگ کر پاکستان آ رہا ہے۔ یہ کہاوت کہاں اور کیوں صادق آتی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ بہرکیف ایران کے صدر عزت مآب ابراہیم رئیسی 22اپریل کو پاکستان کے دورے پر واقعی تشریف لا رہے ہیں۔

ہمارے ہاں پاکستان میں پرو ایران اور اینٹی ایران دو طبقات پائے جاتے ہیں۔ پہلے طبقہ کا خیال ہے کہ ایران ایک سچا، کھرا اور بہادر مسلمان ملک ہے جو سنہ 1980ء سے آزادی فلسطین کے لیئے جہاد جاری رکھے ہوئے ہے۔ اب ایران نے اسرائیل پر حملہ کر کے اور اس کے دفاعی نظام کو شکست دے کر مسلم ممالک کے دل سے اسرائیل کی فوجی طاقت کا خوف نکال دیا ہے۔ ایران اور پوری دُنیا کے اہل تشیع ہر ماہِ رمضان جمعتہ الوداع پر فلسطینیوں کی حمایت میں اسرائیل کے قبضہ سے فلسطین کو آزاد کرانے کیلئے “یوم قدس” مناتے ہیں۔ اب وقت قریب ہے کہ دوسرے مسلمان ملک بھی ایران کے ساتھ کھڑے ہو جائیں تو نہ صرف فلسطین کو آزادی نصیب ہو گی بلکہ اسرائیل کا خاتمہ بھی نوشتہ دیوار ہے۔ جبکہ ایران مخالف طبقہ کے مطابق ایران امریکہ کا “ایجنٹ” ملک ہے جس نے اسرائیل پر حملہ درپردہ امریکہ کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی کرنے کے بعد کیا تاکہ اسرائیل کو وقت مل جائے، اس کا کوئی جانی و مالی نقصان بھی نہ ہو اور اسرائیل کو یہ موقع میسر آ جائے کہ وہ حماس کو تہس نہس کرنے، غزہ میں قتل و غارت گری بڑھانے اور فلسطین میں اپنے قبضہ میں نئی فلسطینی زمینیں شامل کرنے میں اضافہ کر سکے۔

ایک نقطہ نظر یہ ہے کچھ مسلمان ریاستیں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حیلے بہانے ڈھونڈ رہی ہیں اور درپردہ طور پر فلسطین کی آزادی کے بدلے میں پوری امہ سے اسرائیل کو تسلیم کروانا چاہتی ہیں۔ میرے خیال میں فلسطین اسرائیل جنگ کے عین درمیان میں ایران اسرائیل کی حالیہ چھڑپیں اور اس حساس موقع پر ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا دورہ پاکستان اس تنازعہ کے حل کے لیئے ایک اہم سنگ میل ہے۔ اسرائیل کو ختم کرنے کی قیمت پر فلسطین کسی صورت بھی آزادی حاصل نہیں کر سکتا ہے۔ پھر ایسی کسی صورتحال میں تیسری عالمی جنگ کا امکان بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ ہم امت مسلمہ کے ماننے والے ہیں۔ اسلام دوسرے ادیان و مزاہب اور اقوام کو جینے کا حق دیتا ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے ایرانی صدر کے پاکستان کے دورے کی پیش گوئی کی تھی کہ وہ عنقریب پاکستان آئیں گے۔ اگرچہ پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ، “اس دورے کا فلسطین اسرائیل تنازعہ سے کوئی تعلق نہیں یہ دورہ پہلے سے طے شدہ تھا۔” خدا کرے! ایرانی صدر کے دورے کا یہی اصل مقصد ہو اور وزیر موصوف کا بیان جھوٹا ہو۔ “ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ”۔ حسن ظن یہ رکھنا چایئے کہ المقام ایرانی صدر ابراہیم رئیسی پاکستان صلح کا جذبہ لے کر آ رہے ہیں۔ پاکستانی حکومت کو چایئے کہ وہ سفارت کاری کے زریعے امریکہ کے توسط سے ایران اور اسرائیل کے درمیان مصالحت کا کردار ادا کرے تاکہ فلسطینیوں کی حالیہ لازوال قربانیوں اور شہادتوں کو ان کی پرامن آزادی کی طرف لایا جا سکے۔ گیڈر کی قدرتی موت شہر میں نہیں جنگل میں ہی ہو تو بہتر ہے۔ اسرائیل ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی تازہ کشیدہ صورتحال کا یہی ایک واحد مثبت پہلو ہے۔

Title Image by Robert Waghorn from Pixabay

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

محمد اکمل فخری کا افسانہ "استاد بمقابلہ ڈینگی"

ہفتہ اپریل 20 , 2024
محمد اکمل فخری کی مختصر کہانی، “استاد بمقابلہ ڈینگی” ایک طنزیہ اور مزاحیہ داستان کو سامنے لاتی ہے جو سماجی
محمد اکمل فخری کا افسانہ “استاد بمقابلہ ڈینگی”

مزید دلچسپ تحریریں