شبیر ناقد کا تخلیقی جوہر

شبیر ناقد کا تخلیقی جوہر

تحریر : مقبول ذکی مقبول ، بھکر پنجاب پاکستان

سر زمینِ تونسہ اولیائے کرام اور اوبائے عظام سے مالا مال ہے ۔ جس نے دنیائے ادب کے جلیل القدر سپوتوں کو جنم دیا جنہوں نے اپنی شب و روز کی عرق ریزیوں کی بدولت وطن عزیز اور اپنی جنم بھومی کے نام کو روشن کیا جن کی کشید جاں کے باعث گلشن شعر و ادب سے معطر ہے ۔ آسماں ادب کے ان درخشندہ کواکب میں ایک نام شبیر ناقد کا بھی ہے ۔ جہوں نے میدانِ نظم و نثر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے ۔ جس کا اعتراف قارئین ادب اور اربابِ نقد و نظر نے بھی کیا ہے ۔ شبیر ناقد کی درج ذیل کتب منصئہ شہود پر آچکی ہیں ۔ جو شرف مقبولیت و پزیرائی حاصل کر چکی ہیں ۔

شبیر ناقد کا تخلیقی جوہر
شبیر ناقد

صلیبِ شعور مطبوعہ دسمبر 2007ء(غزلیات و نظمیات)
من دی مسجد مطبوعہ اپریل 2010ء (سرائیکی شاعری (غزلیں ، نظمیں ، قطعے ، دوہڑے)
آہنگ خاطر اپریل 2011ء(غزلیات و نظمیات ، گیت ، قطعات ، ہائیکو)
ابو البیان ظہور احمد فاتح کا کیفِ غزل جون 2013ء(پروفیسر ظہور احمد فاتح کی سوانح اور غزل کا تنقیدی جائزہ)
شاعراتِ ارضِ پاک (حصہ اول) مطبوعہ جون 2013ء(دو درجن کے حوالے سے تنقیدی مضامین اور نمونہ کلام)
شاعراتِ ارضِ پاک (حصہ دوم) مطبوعہ جون 2013ء(تین درجن سے زائد شاعرات کے حوالے سے تنقیدی مضامین اور نمونہ کلام)
شاعراتِ ارضِ پاک (حصہ سوم) مطبوعہ نومبر 2013ء (تیس سے زائد شاعرات کے حوالے سے تنقیدی مضامین اور نمونہ کلام)
آج میرا موضوع بحث شبیر ناقد کا مجموعی طور پر تیسرا شعری مجموعہ اور اردو کا دوسرا مجموعہ کلام
آہنگ خاطر ہے ۔ مجموعہ ہذا ایک کہنہ مشق شاعر کے قلب و خرد کی آواز ہے جو کبھی سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنے دیتا اس کتاب کا انتساب منظوم اور والدہ ماجدہ محترمہ کے نام ہے جو ایک خوبصورت نظم کا درجہ رکھتا ہے ۔ جس کے مطالعے کے بعد قاری پر ماں کے رشتے کی اہمیت و افادیت واضح ہو جاتی ہے ۔
کتاب مذکورہ کا آغاز حسبِ روایت حمد و نعت اور سلام امامِ عالی مقام علیہ السلام سے ہوتا ہے ، شبیر ناقد کی شاعری رنگوں کی حسیں قوسِ قزح ہے ، جس میں تصوف ، رومان ، مزاحمتی شاعری اور علامتی شاعری کے رنگ زیادہ نمایاں ہیں ۔ ان کی شاعری اپنے بے پناہ دولت تاثر رکھتی ہے اور دلوں پر اثر کرنے کی عمیق صلاحیت سے بھر پور ہے جدت تخیل کے ساتھ ساتھ رفعتوں کی حامل بھی ہے ۔ ان کے فنی اوصاف و جواہر فکر و فن اور ادب سے پورا پورا انصاف کرتے ہوئے محصوص ہوتے ہیں ، فصاحت و بلاغت کی خصوصیات واضح طور پر مشاہدہ کی جاسکتی ہیں ۔
جہاں خطیب یہ بات کہنے کے لیے کافی وقت درکار ہوتا ہے اور نثر نگار کو ایک باب اور پیش ہوتا ہے وہاں قادر الکلام شاعر اپنے فن کی بدولت ایک شعر میں وہ سب کچھ کہہ دیتا ہے اسی تناظر میں شبیر ناقد کا ایک خوبصورت شعر ملاحظہ ہو

میں بیزار تقلید سے ہوں سراسر
نہیں مجھ کو روضوں مزاروں سے نسبت

شاعر موصوف جہاں معاشرے کی اصلاح کرتا ہوا نظر آتا ہے اور یہ اصطلاح بھی عمرانی اور مذہبی نوعیت کی ہے وہاں ان کے ہاں محبوب کا ایک تصور بھی ملتا ہے ۔ اس کی غزل کا مطلع ملاحظہ ہو

میں قائل رہا ہوں تمہارے تقدس کا ناقد
رفاقت تمہاری رہی ہے خوابوں کے اندر

اس کے ہاں موضوع کی کمی نہیں ہے ۔ اس کا کلام بھی یاد گار نوعیت کا حامل ہے ، اس کی نظمیں جن میں خاتونِ خانہ سے ، اقبال کا شاہین ، قائد کے حضور ، وصیت ، بھکارن سے ، سنتری اور اہلِ برزخ سے خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں ، علاوہ ازیں انہوں نے چار طویل غزلیں بھی کہی ہیں ۔ جو قاری کو بوریت سے ہمکنار نہیں ہونے دیتے جن کا ہر شعر قابلِ تحسین ہے ۔ اہلِ فن کو اس نے یوں دعوتِ فکر و عمل دی ہے ۔ ایک آزاد نظم ملا حظہ ہو

٫٫رازنمو،،
فن بے انت سمندر
پہلے ڈوبو پھر نکلو گے

اس کا کلام لسانی اور فنی پختگی کا مظہر ہے ۔
عروضی محاسن بھی بخوبی پائے جاتے ہیں ۔ ٫٫آہنگ خاطر ،،میں شبیر ناقد کے فن پر ابو البیان ظہور احمد فاتح اور ڈاکٹر طاہر تونسوی جیسی مہان ادبی شخصیات کی آرا بھی موجود ہیں ۔ آخر میں شبیر ناقد کی ایک غزل نذر قارئین ہے

دوستی کو معتبر میں نے کیا
جس کو زیرِ نظر میں نے کیا

کس لیے بھیجا گیا تھا دہر میں
حرم کیا اے کوزہ گر میں نے کیا

جو جفاؤں کا رہا خوگر سدا
ہے اسی کو ہمسفر میں نے کیا

جو جہاں میں بے وفا مشہور ہے
اس کو اپنا چارہ گر میں نے کیا

بے فروغ و بے اثر تجلی دہر میں
شاعری کو پر اثر میں نے کیا

زندگی زندہ دلی میں کٹ گئے
دشت و صحرا کو نگر میں نے کیا

میں نہیں بیھٹا کہیں آرام سے
خود کو بھی ہے دربدر میں نے کیا

درد و رنج و غم جہاں بستے ہیں
اس نگر کو رہگزر میں نے کیا

جب دکھائی زندگی نے کج روی
اسے ناقد پھر مفر میں نے کیا

تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

وسوسے، دنیا اور خدا شناسی (حصہ اوّل)

پیر ستمبر 11 , 2023
خدا کے بارے دنیا میں مختلف تصورات اور عقائد پائے جاتے ہیں۔ ایک یہودی مصنف یوول نوعا حراری کہتا ہے کہ
وسوسے، دنیا اور خدا شناسی (حصہ اوّل)

مزید دلچسپ تحریریں