محبت کے رشتوں میں دارا تھا میں
سخی ماں کی آنکھوں کا تارا تھا میں
مری ماں کی لہریں مجھے چومتی
سمندر سی ماں کا کنارا تھا میں
مرے دکھ چھپاتی تھی جانے کہاں
اگرچہ نہاں غم کا مارا تھا میں
کیا دفن ماں کو تو مجھ کو لگا
کہ دلبستگی کا سہارا تھا میں
گناہوں سے لُتھڑا تھا میرا بدن
مگر ماں کی آنکھوں میں پیارا تھا میں
مری ماں کی دنیا مرے دم سے تھی
امیدوں کا محور بھی سارا تھا میں
جو قائم بلاتی تھی کہہ کر قمر
اُسی ماں کے پاوں کا گارا تھا میں

سیّد حبدار قائم
اٹک