سیاسی دیمک

سیاسی دیمک

Dubai Naama

سیاسی دیمک

انسانوں اور دیمکوں کا کوئی جوڑ نہیں ہے۔ انسان ہونے کے ناطے ہم لکڑی کو کھانے والے ان دیمکوں سے البتہ نفرت ضرور کرتے ہیں۔ انسانوں کی دیمکوں سے نفرت کی ایک وجہ یہ ہے کی دیمک ہمیشہ کسی کام کی لکڑی کو کھاتے ہیں یا اسے کھاتے کم ہیں اور کتر کتر کر اس کا آٹا زیادہ بناتے ہیں۔ دیمک لکڑی کو کھانے والا ایسا موذی کیڑا ہے کہ وہ جس لکڑی کو لگتا ہے وہ سمجھو کام سے گئی یعنی جہاں ہمیں پتہ چلے کہ اس لکڑی کو دیمک لگ گیا ہے پھر ہم سو بار اس قیمتی لکڑی کو بچانے کی کوشش کریں وہ لکڑی کسی کام کی نہیں رہتی۔

دیمک کو پنجابی زبان میں “گُھن” کہتے ہیں اور ہم سب جانتے ہیں کہ جس کارآمد لکڑی کو گُھن لگ جاتا پے وہ اندر سے بلکل کھوکھلی ہو جاتی ہے۔ گُھن لکڑی کو ہمیشہ اندر سے لگتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ گُھن سخت جان لکڑی کے اندر کیسے داخل ہوتا ہے، یہ جاننے تک لکڑی کا کام تمام ہو چکا ہوتا ہے۔ لکڑی کو گُھن سے بچاو’ کا واحد طریقہ لکڑی سے بنی چیزوں یعنی فرنیچر وغیرہ پر پالش کی تہہ چڑھانا ہوتا ہے تاکہ گُھن لکڑی کے اندر داخل ہو کر اس کے گودہ (یا مغز) تک پہنچ کر اسے برباد نہ کر سکے۔

ہمارے معاشرے میں اس حوالے سے اداروں میں موجود ان رشوت خوروں، بددیانت اور نااہل افراد کو بھی دیمک کہا جاتا ہے جو اداروں کے اندر گھس کر انہیں اندر ہی اندر تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔ محاورہ مشہور ہے کہ، “وہ ملک کو دیمک کی طرح کھا رہے ہیں۔” ادارے سے باہر کے افراد کو صرف اس وقت خبر ہو پاتی ہے جب وہ ادارے اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں۔

دیمک دو قسم کے ہو سکتے ہیں یعنی دیہاتوں میں رہنے والے دیمک اور شہروں میں رہنے والے دیمک، دیمک شہروں کے ہوں یا دیہاتوں کے ہوں، ان کے بارے میں یہ دیکھا، کہا اور سنا جاتا ہے کہ یہ اونچی اونچی کالونیاں بنا کر رہتے ہیں جنہیں پرانی جگہوں پر بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آسٹریلیا کے مختلف علاقوں میں ان کی کالونیاں بہت نمایاں، اونچی اور دیدہ زیب ہوتی ہیں۔ خاص طور پر وہاں پائے جانے والے دیمک اپنی افزائش نسل اور اپنے بچوں کی پیدائش کے لیئے بڑے بڑے اونچے یعنی ٹاور نما گھر بناتے ہیں۔ اگرچہ دیمک غیرانسانی مخلوق ہیں جو انسانوں کی طرح سکائی سکریپیرز یعنی فلک شگاف عمارتیں بناتے ہیں۔ آسٹریلیا کے دیمکوں کو بہت خاص مخلوق مانا جاتا ہے جو ناردرن ٹیریٹوریز میں آٹھ میٹر تک طویل گھر بناتے ہیں جنہیں آسٹریلیا میں “دیمکوں کے ٹیلے” (Termite Mounds) کہا جاتا ہے۔

انسانوں نے مشینوں، آلات اور دیگر ٹیکنالوجی کی مدد سے “برج خلیفہ” بنایا ہے۔ متحدہ عرب امارات دبئی ہی میں برج خلیفہ سے بھی اونچی عمارت زیر تعمیر ہے اور اسی طرح سعودی عرب میں اس بھی اونچی عمارت بنانے کا منصوبہ تیار ہے جو مستقبل قریب میں دنیا کی سب سے اونچی اور لمبی عمارتیں ہونگی۔

لیکن دیمک کی جسامت اور کاریگری کے اعتبار سے یہ دیمک اپنے رہنے کے لئے جو ٹیلے بناتے ہیں ان میں ایک ایک ٹیلہ 4 برج خلیفہ کی عمارت کے برابر ٹیلے بناتے ہیں۔ یعنی اگر دیمک کے ایک جوڑا کو انسان بنا کر موقع دیا جائے تو یہ دونوں دیمک چار برج خلیفہ کی اونچائی کے مطابق عمارت بنا سکتے ہے!

دیمکوں کے یہ ماؤنڈز مٹی، تھوک اور دیمک کے فضلے سے تیار کئے جاتے ہیں۔ ایسے ماؤنڈز درختوں پر بھی ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ پولز اور عمارتوں کے اندر بھی کالونیاں تعمیر کرتے ہیں۔ دیمک کی یہ کالونیاں اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا عجیب و غریب مظہر ہیں۔ اللہ نے اپنی مخلوقات کو بڑی نعمتوں اور صلاحیتوں سے نوازا یے۔

دیمک کو پسو یا سفید چیونٹی بھی کہا جاتا ہے۔ دیمک کا تعلق کاکروچ گروپ سے ہے جس سے عورتیں بہت زیادہ ڈرتی ہیں۔ کاکروچوں سے بہت زیادہ گِھن آتی ہے کیونکہ یہ انتہائی بدبودار ہوتے ہیں۔ دیمک کی 3100 سے زیادہ انواع دریافت ہو چکی ہیں۔ دیمک لکڑی کے علاوہ پودوں کے سڑے پتے اور جانوروں کا فضلہ وغیرہ بھی کھاتے ہیں۔ دیمک لکڑی کے اندر بھی گھونسلہ بنا لیتے ہیں۔ دیمک کی جسامت 4 سے 15 ملی میٹر تک ہوتی ہے۔ بہت سے دیمک کی انواع کے کارکنوں اور محافظوں کی آنکھیں نہیں ہوتی ہیں اور کچھ کی ہوتی ہیں۔ ابتدائی دنوں میں ملکہ دیمک روزانہ کے حساب سے 10 سے لے کر 20 انڈے دیتی ہے اور کچھ دنوں کے بعد روزانہ کے حساب سے 1000 سے زائد انڈے دیتی ہے اور دیمک کی کچھ انواع دن میں 4000 تک بھی انڈے دے سکتی ہے۔ کیڑوں میں سب سے زیادہ زندگی دیمک کے بادشاہ اور ملکہ کی ہوتی ہے جن کی عمر 50 سے لے کر 60 سال تک ہوتی ہے۔

دیمک کی آبادی کو کنٹرول میں رکھنے کے لیئے اللہ نے دیمک اور چیونٹی کھانے والے جانور مثلاً سیہہ وغیرہ بنائے ہیں۔ ہمارے ہاں سیاست کے پیشہ سے وابستہ انسانوں کو دیکھیں کہ وہ ملک کو اندر ہی اندر گھن (دیمک) کی طرح کھا رہے ہیں۔ کرپٹ سیاستدان دیمکوں سے زیادہ قابل نفرت ہیں مگر انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

Title Image by Roy Buri from Pixabay

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

کھلاڑی اور لکھاری طارق محمود ملک

پیر اپریل 29 , 2024
یہ محترم طارق محمود ملک ہیں۔ میں ان کا بہت بڑا مداح ہوں کیونکہ تلہ گنگ اور چکوال میں ان سے زیادہ محنت اور محبت سے مقامی تاریخ
کھلاڑی اور لکھاری طارق محمود ملک

مزید دلچسپ تحریریں