عقیدت دے رنگ میں حمد

عقیدت دے رنگ میں حمد


تبصرہ نگار:۔ سید حبدار قاٸم

گلستانِ سخن کے بلبل اپنی فکری عفت سے قرطاس کے مقدس سینے پر اپنا قلم رقص کناں کرتے رہتے ہیں ان کے قلم سے ادب کے شگوفے پھوٹتے رہتے ہیں اور یہ وہی قلم ہے جس کی اللہ رب العزت نے قرآن میں قسم کھاٸی ہے یہ وہی قلم ہے جس سے لوحِ محفوظ پر حسنِ قسمت لکھ دی گٸی ہے
مجھے یاد ہے جب ارشاد ڈیروی صاحب سے میری پہلی ملاقات ہوٸی تو یہ عارضی تعلق محبتوں اور عقیدتوں کا رنگ اختیار کر گیا ارشاد ڈیروی اپنی کتابیں مجھے عطا کرتے رہے ان ہی کتابوں میں سعید احمد راشد ڈیروی کی ایک پنجابی کتاب ” عقیدت دے رنگ “ ہے جس کو غلام مرتضٰی موہانہ نے مرتب کیا ہے
سعید احمد راشد ڈیروی سراٸیکی ادب کا وہ درخشاں ستارا ہیں جن کا کلام تلمیحات و استعارات سے مزین ہے عشقِ خدا ،عشقِ رسول ﷺ، عشقِ اہل بیتِ رسول ﷺ اور عشقِ صحابہؓ سے سرشار سعید احمد راشد جو لکھ کر گٸے ہیں وہ سراٸیکی ادب کے ماتھے کا جھومر ہے سراٸیکی زبان کے کٸی متروک الفاظ کو اس کتاب میں نٸی زندگی عطا کی گٸ ہے سلاست و بلاغت ہر کلام کا خاصہ ہے سہل ممتنع کلام کے حسن کو چار چاند لگا رہا ہے کلام پڑھتے ہوٸے الفاظ سے خوشبو آتی ہے جو دل و روح کو ایک خوش گوار طمانیت سے سرشار کرتی ہے عقیدت دے رنگ حقیقت میں خوبصورت رنگوں کا امتزاج ہے جس سے زندگی کا حسن نکھرتا ہوا نظر آتا ہے
اگر پوری کتاب کو ہی زیرِ بحث لایا جاٸے تو اس کتاب سے دو مزید کتابیں بہت سکون سے لکھی جا سکتی ہیں اور اگر کوٸی یونیورسٹی اس کتاب پر تھیسز لکھواٸے تو آنے والے تنقید نگاروں کو تنقید کے نٸے زوایے
ملیں گے اور سیکھنے کا ایک عمل جلا پاٸے گا جس کی روشنی طفلانِ سخن کے اذہان کو منور کرے گی

عقیدت دے رنگ میں حمد

سعید احمد راشد ڈیروی خود تو دنیاۓ فانی سے چلے گٸے لیکن ان کا کلام اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ ہے اور روشنی پھیلا رہا ہے سعید احمد راشد ڈیروی جہاں عشق و مستی میں گم ہو کر لکھتے ہیں وہاں ان کے ہاں عقیدت کا رنگ بھی جھلکتا ہے ان کی کتاب میری لاٸبریری میں ایک خوب صورت اضافہ ہے جو سراٸیکی ادب کے حسن و جمال کی آٸینہ دار ہے

سعید احمد راشد ڈیروی کی حمد جہاں کاٸنات کی وسعتوں کو بیان کرتی ہے وہاں فنا فی اللہ کے رموز بھی آشکار کرتی ہے کہیں حمد میں حسنِ کاٸنات کے رنگ ہیں اور کہیں اپنی عاجزی کی جھلک دکھاتے ہیں کہیں پر خالقِ دو جہاں سے مانگتے نظر آتے ہیں تو کہیں عطا کردہ نعمت تقسیم کرتے نظر آتے ہیں سعید احمد راشد ڈیروی جمالیات پسند شاعر ہیں وہ حسن و رعناٸی پسند کرتے ہیں انہیں ان کی شاعری دوسرے شعرا سے ممتاز کرتی ہے ان کی حمد میں سلاست اور بلاغت کے پہلو نمایاں ہیں اللہ پاک کی تعریف کرتے ہوٸے وہ جانتے ہیں کہ خدا وند قدوس ہر چیز پر قادر ہے اور وہ ہر چیز پر نظر رکھے ہوٸے ہے اس کی نگاہ پوری کاٸنات کا احاطہ کیے ہوٸے ہے کاٸنات کی وسعتوں کو جاننے والا رب اپنے انبیا کے معجزات اور اپنے اولیا کی کرامات تک جانتا ہے اس کے علم کے بغیر کوٸی پتہ تک نہیں جھڑتا ان ہی خیالات کا دل نشین اظہاریہ اپنے اشعار میں یوں کرتے ہیں :۔

مکاں توں لا مکاں تونڑیں جیرھا ہر اک ذرا ڈہدے
جو عرشاں دی بلندی توں جمیع تحت الثرٰی ڈہدے
جو فلکیں دی روش ڈہدے زمیناں دے لقا ڈہدے
نبی دے معجزے ڈہدے ولایت دی ولا ڈہدے

جیندی تخلیق دے کیتے اے کل کاٸنات کٸ شۓ نیں
اوندی ہک ذات برتر ہے اساڈی ذات کُٸ شۓ نیں

حمدِ خدا کے طریقے مختلف ہیں اللہ کی بات کہیں ختم نہیں ہوتی کیونکہ وہ کاٸنات کا خالق و مالک ہے اس کے اختیار میں ہے کہ وہ اپنے کُن سے دنیا تخلیق کر سکتا ہے اور اس میں جو چاہے بنا کر دکھا سکتا ہے موت و حیات کی کشمکش سب اس کے ہاتھ میں ہے وہ مردوں کو زندہ کر سکتا ہے اسی کے حکم سے انسان سولی پر لٹکاٸے جاتے ہیں اس کے حکم سے انسانوں کو آرے سے چیرا جاتا ہے وہی طوفان سے کشتی نکال سکتا ہے وہی پرندوں کو ہوا میں پر پھیلانے کی طاقت عطا کرتا ہے وہی مچھلی میں حضرت یونس کو زندہ رکھتا ہے اولاد کی نعمتیں عطا کرنے والی اسی کی ذات ہے سعید احمد راشد ڈیروی نے اپنے حمدیہ اشعار میں جو تلمیحات برتی ہیں ملاحظہ کیجیے:۔

او دنیا کوں بنا سگدے بنا کے ول مٹا سگدے
اونکوں اختیار ہے سارا جو چاہے کر ڈکھا سگدے
او جِیندے کوں مرا سکدے او مویاں کوں جوا سگدے
او سولی تے ٹنگا سگدے او آرے وچ چرا سگدے
او یونس جھٸیں نبی کوں مچھی دے پیٹ نے سگدے
او باجھوں پیو دے مانواں کوں پسر ڈیوے تاں ڈے سگدے

اللہ پاک کے اختیار میں کاٸنات کی سب نبضیں ہیں وہ جب چاہے الٹ سکتا ہے وہ جب چاہے آسمان لپیٹ سکتا ہے وہ جب چاہے ستارے بکھیر سکتا ہے وہ جب چاہے زلزلے لا کر تباہ و برباد کر سکتا ہے کیونکہ کاٸنات کی ہر چیز اسی کے تابع ہے زندگی کی ہر روش اسی کے دستِ قدرت میں ہے سعید احمد راشد ڈیروی کی فکر و آگہی ان ہی سر بستہ رازوں کے اردگرد طواف کرتی ہے یہاں بھی صنعت تلمیح حضرت بلال ؓ کی یاد دلاتی ہے ملاحظہ کیجیے:۔

فنا تابع بقا تابع فضا تابع ہوا تابع
اول آخر صحیفے دی تمامی منتہا تابع
شمس تابع قمر تابع ستاریں دا اُشا تابع
ہے لوح تابع قلم تابع کتابیں دا لکھا تابع

جیندا رونون پسند آندس پہر شب دا گزردا نٸیں
اذاں جے تٸیں ناں او ڈیوے فجر دا سجھ ابھردا نٸیں

مظاہرِ کاٸنات اسی وقت انسان کی دسترس میں آتے ہیں جب انسان حضور ﷺ سے عشق کرتا ہو جیسے اقبال نے سرکار کو نگاہ عشق و مستی میں اول بھی کہا اور آخر بھی ایسے عاشق جب حضور ﷺ سے عشق کرتا ہے تو وہ جانتا ہے کہ حضور پیغمبر حاکم ہیں وہ رہبر کامل ہیں وہ بدر و منیر ہیں وہ بشیر و نذیر ہیں وہ سراج منیر ہیں وہ سید ابرار ہیں وہ احمد مختار ہیں وہ مدنی تاجدار ہیں وہ حبیب غفار ہیں وہ محبوب ستار ہیں وہ خاصہ کردگار ہیں وہ شافع یوم قرار ہیں وہ صدر انجمن لیل و نہار ہیں وہ آفتاب نو بہار ہیں وہ سرور عالم ہیں وہ مونس آدم ہیں وہ قبلہ ٕ عالم ہیں وہ کعبہ ٕ اعظم ہیں وہ جانِ مجسم ہیں جب سب کچھ سرکار ﷺ ہیں تو مظاہرِ فطرت میں بھی ان کا نور آویزاں ہے کاٸنات کا حسن انہی سے مستنیر ہے
سعید احمد راشد ڈیروی اپنی حمد کے ان اشعار میں کہتے ہیں کہ خدا کی رضا کے حصول کے لیے آپ ﷺ کی رضا حاصل کی جاٸے ان اشعار کی رفعت سے لطف کیجیے :۔

ایں گل توں ظاہر اے تھیندے رضا محبوب شافعی ہے
خدا دے قرب دے کیتے محبت سٸیں دی کافی ہے
اندھے دی اکھ تے موتی ہِن کریندا تہوں تلافی ہے
منیدے رب اوندی حجت نظر جیندی صرافی ہے

جے منگنی منگ مدنی توں اتھاں حاجات کوٸ شٸے نٸیں
بنا بھر تول گھن راشد گنن دی بات کوٸ شٸے نٸیں

تبصرہ طوالت اختیار کر رہا ہے سعید احمد راشد ڈیروی کی حمد پر اتنی بات کافی ہے اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرماۓ۔آمین

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

انتظار باقی کی غزل کا سوالیہ انداز

منگل مارچ 26 , 2024
انتظار باقی اردو کے ممتاز شاعر ہیں، آپ کی شاعری سوالیہ انداز کی مقبول شاعری ہے، شاعر اپنے اشعار کے ذریعے سوالات کی
انتظار باقی کی غزل کا سوالیہ انداز

مزید دلچسپ تحریریں