انتظار باقی کی غزل کا سوالیہ انداز

انتظار باقی کی غزل کا سوالیہ انداز

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*

انتظار باقی اردو کے ممتاز شاعر ہیں، آپ کی شاعری سوالیہ انداز کی مقبول شاعری ہے، شاعر اپنے اشعار کے ذریعے سوالات کی گہرائی سے تحقیق کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، اور قارئین کو ان سوالات کے جواب دینے اور ان پر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ پُرجوش اور فلسفیانہ افکار کے ذریعے انتظار باقی نے شناخت، صحبت اور مقصد کی پیچیدگیوں کی جانچ کرتے ہوئے وجود کے جوہر کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔
انتظار باقی کی غزل کی ابتدائی سطریں، “دھڑکن ہے کہ دستک ہے؟ تو آیا ہے کہ میں ہوں؟ تو ساتھ ہے میرے؟ مرا سایہ ہے کہ میں ہوں؟” خود کی دریافت کے سفر پر مبنی ہیں۔ یہ اشعار محبوب کی آمد کے ارد گرد کی غیر یقینی صورت حال کے ساتھ ساتھ اس وجودی مخمصے کو بھی گھیر لیتی ہیں کہ آیا ایک شخص واقعی دوسرے شخص کی موجودگی کے بغیر موجود رہ سکتا ہے۔

انتظار باقی کی غزل کا سوالیہ انداز
انتظار باقی


انتظار باقی کی غزل آرزو اور خود شناسی کے دھاگوں سے بُنی ہوئی ایک غزل ہے، جس کا ثبوت اس شعر میں دیکھئے ’’دل ، درد ، جگر ، سانس سبھی اپنے دیے ہیں
یہ بت جو تراشا ، تری چھایا ہے کہ میں ہوں ؟” یہاں شاعر شناخت کے تصور میں جکڑا ہوا دکھائی دیتا ہے، اور سوال کرتا ہے کہ کیا اس کے جوہر کی تعریف اس کے محبوب کے عکس سے ہوتی ہے؟
عقیدت اور قربانی کی منظر کشی اس شعر میں شامل ہے، خاص طور پر “سجدے میں پڑا تھا جو تری راہ میں ہمدم
یہ سنگ ہے ؟ جو تونے اٹھایا ہے کہ میں ہوں ؟” میں سجدہ کا عمل عزم کی گہرائیوں کی علامت ہے، پھر بھی “یہ ایک پتھر ہے؟ جو تونے اٹھا رکھا ہے کہ میں ہوں؟” میں غداری کا انکشاف، مایوسی اور دھوکہ دہی کا عنصر متعارف کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔


پوری غزل میں، انتظار باقی انسانی جذبات کی پیچیدگیوں کو نیویگیٹ کرتا ہوا نظر آتا ہے، جیسا کہ “الجھا ہوا رہتا ہوں رویے پہ ترے میں
اس دل میں ترے کوئی پرایا ہے کہ میں ہوں ؟” میں دیکھا گیا ہے۔ یہاں شاعر اپنے اندر کے جذبات کی الجھنوں سے جکڑا ہوا نظر آتا ہے، ایک اندرونی ہنگامے کی طرف اشارہ کرتا ہے جو بلاجواز محبت سے پیدا ہوتا ہے۔
یہ شعر ملاحظہ کیجئے “وحشی سا مسافر ہے، لیے آبلہ پائی
شہکار یہ کچھ اور بنایا ہے کہ میں ہوں ؟” میں وجودی موضوعات پھر سے سر اٹھاتے ہیں۔ جنگلی مسافر کا استعارہ انسانی روح کی بے چین فطرت کو سمیٹتا ہے، ہمیشہ کے لیے تکمیل کی جستجو میں یہ شعر ایک بہترین مثال کے طور پر ہمارے سامنے ہے۔ شاعر بالآخر اپنی کوششوں کے پورا نہ ہونے کا احساس کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
آپ کی غزل زمان و مکان سے ماورا شاعری کی لازوال طاقت کا ثبوت ہے، جو نسل در نسل ہر عمر کے قارئین میں یکسان مقبول ہے۔ آپ کا ہر شعر ایک آئینہ کے طور پر کام کرتا ہے جو عالمگیر انسانی تجربے کی عکاسی کرتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ انتظار باقی کی اردو غزل ایک لازوال شاہکار کے طور پر ہمارے سامنے ہے جو زبان اور ثقافت کی سرحدوں کو عبور کرتی ہے۔ اپنے وجودی موضوعات، سوالیہ انداز، مکالماتی اسلوب اور جذباتی گہرائیوں کی کھوج کے ذریعے یہ غزل قارئین کو خود کی دریافت کے ساتھ ساتھ شاعر کے سوالیہ اسلوب پر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتی ہے، جو آخری شعر کے پڑھنے کے کافی عرصے بعد بھی قارئین کے دلوں میں نقش ہوجاتی ہے۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے انتظار باقی کی غزل پیش خدمت ہے۔
*
غزل
*
دھڑکن ہے کہ دستک ہے؟ تو آیا ہے کہ میں ہوں؟
تو ساتھ ہے میرے؟ مرا سایہ ہے کہ میں ہوں؟

دل ، درد ، جگر ، سانس سبھی اپنے دیے ہیں
یہ بت جو تراشا ، تری چھایا ہے کہ میں ہوں ؟

سجدے میں پڑا تھا جو تری راہ میں ہمدم
یہ سنگ ہے ؟ جو تونے اٹھایا ہے کہ میں ہوں ؟

الجھا ہوا رہتا ہوں رویے پہ ترے میں
اس دل میں ترے کوئی پرایا ہے کہ میں ہوں ؟

وحشی سا مسافر ہے ، لیے آبلہ پائی
شہکار یہ کچھ اور بنایا ہے کہ میں ہوں ؟

مجھ سے نہ سمٹ پائے مرے ٹکڑے ابھی تک
شیشہ ہے ؟ جو پتھر پہ گرایا ہے کہ میں ہوں ؟

ہمت نہ تھی مجھ میں کہ تجھے ڈوبتا دیکھوں
ہاتھ اپنا تری سمت بڑھایا ہے کہ میں ہوں

کچھ غور تو کر تیری کمائی ہے بھلا کیا ؟
شہرت ہے کہ طاقت ہے ؟ یہ مایہ ہے کہ میں ہوں ؟

اک لاش سمجھ کر میں یونہی لیٹ گیا تھا
اک ٹیس اٹھی ، اس نے بتایا ہے کہ میں ہوں

تونے ہی مجھے ڈوبا ہوا سوچ لیا تھا
میں نے تو بہت ہاتھ ہلایا ہے کہ میں ہوں

گھیرے میں ہوں شعلوں کے ، سلگتا ہوں میں باقی
یہ دیپ ہے ؟ جو تونے جلایا ہے کہ میں ہوں ؟

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

پیر سپاہی سے حق پیر تک

بدھ مارچ 27 , 2024
ہمارا ملک لاحاصل افواہوں، فضول بحثوں اور چٹخارے دار گپ شپ کا “ٹی ہاوُس” بنتا جا رہا ہے۔
پیر سپاہی سے حق پیر تک

مزید دلچسپ تحریریں