یہ اقبال کا کلام نہیں
غالباً 2016ء کی بات ہے۔ میں آزاد جموں و کشمیر یونی ورسٹی کے شعبہ اردو میں جزوقتی لیکچرر کے طور پر کام کرتا تھا۔ ایک دن طلبہ کو بتایا گیا کہ اقبال کے حوالے سے سٹی کیمپس میں ایک تقریب کا انعقاد کیا جا رہا ہے لہذا سبھی طلبہ شریک ہوں۔ وقتِ مقررہ پر طلبہ کے ہم راہ میں بھی تقریب میں شریک ہو گیا۔ تقریب کے مہمانِ خصوصی سابق آئی جی پنجاب ، مشہور بیوروکریٹ اور دو ٹوک کے نام سے کالم لکھنے والے کالم نگار ذوالفقار احمد چیمہ تھے۔ نظامت کی زمہ داری یونی ورسٹی کی ایک پروفیسر ڈاکٹر کے سپرد تھی۔محترمہ نے تقریب کے آغاز میں طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:” بچوں علامہ اقبال نے یہ آپ کے لیے ہی لکھا ہے۔” اس کے بعد یہ اشعار پڑھے:
لکھنا نہیں آتا تو مری جان، پڑھا کر
ہو جائے گی مشکل تری آسان،پڑھا کر
یہ اشعار سن کر میں چونک پڑا۔ اقبال کے نام پر تقریب میں اتنی غیر ذمے داری۔ تقریب کے اختتام پر میں ان محترمہ سے ملا ۔ سلام کر کے عرض کی میڈم میں ایک طالب علم ہوں اور جاننا چاہتا ہوں کہ یہ کلام اقبال کے کون سے مجموعے میں شامل ہے؟محترمہ نے کمال شفقت سے جواب دیا بیٹا یہ تو مجھے نہیں پتا میں نے سوشل میڈیا پر پڑھا تھا۔ اس جملے سے مجھے شدید اذیت ہوئی ۔ ایک ذمے دار پروفیسر اور ایک بڑے پلیٹ فارم سے اتنی غیر ذمے داری کا مظاہرہ۔ میں نے کہا میڈم اگر ایسا ہے تو یہ کلام اقبال کا ہرگز نہیں ہے۔ کہنے لگیں اچھا میں دیکھوں گی۔
وہ تو یہ کہ کر چل دیں لیکن میں اس تگ و دو میں لگ گیا کہ یہ کلام کس کا ہو سکتا ہے۔ سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ پر یہ کلام واقعی علامہ اقبال کے نام سے موجود ہے۔ میں نے کلیات اقبال اور باقیات اقبال سمیت اقبال کے حوالے سے دیگر مآخذ بھی دیکھے مگر ہر جگہ سے مایوسی ہوئی۔
2018ء میں، میں اپنی اس تلاش میں کام یاب ہوا ۔ میری مادرِ علمی نیشنل یونی ورسٹی آف ماڈرن لینگویجز ،اسلام آباد میں کتاب میلے کا انعقاد کیا گیا۔ اس میلے میں کتابوں کے ایک اسٹال پر” لاوارث مصرعے” کے نام سے ایک کتاب نظر سے گزری۔ کتاب کا عنوان میری دل چسپی کا تھا فوراً کتاب اٹھا لی اور قیمت ادا کر کے خرید لی۔ یہ کتاب سرگودھا سے ڈاکٹر آصف راز کی تحقیق تھی۔ کتاب کے ابتدائی صفحات پر اقبال کے نام سے انٹرنیٹ پر مشہور یہ کلام بھی مل گیا۔ یہ کلام ڈاکٹر آصف راز صاحب کا ہی ہے۔ میں نے مزید کوشش کی اور آصف راز صاحب سے رابطہ قائم کیا۔ ان کو بتایا کہ میں بھی اس طرح کی تحقیق میں دل چسپی رکھتا ہوں۔ اس پر وہ بہت خوش ہوئی میری حوصلہ افزائی فرمائی اور مجھ سے پتا لے کر اپنا مجموعہ "نیا سورج گانا ہے” ارسال کر دیا۔
یاد رہے یہ غزل جو علامہ اقبال کے نام سے غلط مشہور ہےڈاکٹر آصف راز صاحب کے مجموعے”نیا سورج گانا ہے” میں صفحہ نمبر 79پر موجود ہے۔ آصف راز کا حقیقی نام رضا احمد آصف ہے جو 10 مارچ 1951ء شاہینوں کے شہر سرگودھا میں عبد الرحیم پراچہ اور ممتاز بیگم کے گھر پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر آصف راز نے شاعری کے علاوہ تحقیق، تنقید اور ڈراما نگاری میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔ بیسیوں کتب تصنیف کیں۔ آپ پاکستان رائٹرز گلڈ پنجاب کے نہایت فعال رکن ہیں۔ آپ کا پنجابی کلام سرگودھا یونی ورسٹی کے ایم اے پنجابی کے نصاب میں بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر آصف راز کا مجموعہ نیا سورج اگانا ہے فکشن ہاؤس ،لاہور سے جون 2012ء میں شائع ہوا۔ ان کی یہ خوش قسمتی سمجھیے کہ ان کی اس غزل کو اتنی پذیرائی ملی کہ اسے شاعرِ مشرق کے نام لگا دیا گیا۔ میں نے اپنے تئیں ہمیشہ کوشش کی کہ حوالے کے ساتھ درست معلومات کو اپنے دوستوں اور ادب کے محبین تک پہنچایا جائے۔ جناب ڈاکٹر آصف راز کی یہ موضوعاتی غزل قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
لکھنا نہیں آتا تو مری جان،پڑھا کر
ہو جائے گی مشکل تری آسان،پڑھا کر
پڑھنے کے لیے تجھ کو اگر کچھ نہ ملے
چہروں پہ لکھے درد کے عنوان پڑھا کر
اللہ نے کیا کیا تجھے نعمت نہیں بخشی
فرصت جو ملے ،سورۂ رحمان پڑھا کر
لاریب،تری روح کو تسکین ملے گی
تو کرب کے لمحات میں قرآن پڑھا کر
بے علم کوئی قوم ترقی نہیں کرتی
اس قوم میں ہے علم کا فقدان،پڑھا کر
پیدا ہو ترے بحر کی موجوں میں تلاطم
تو شاعرِ مشرق کے بھی دیوان پڑھا کر
آجائے گا آصف تجھے جینے کا قرینہ
تو سیدِ کونین کے فرمان پڑھا کر

مضمون نگار فرہاد احمد فگار کا تعلق آزاد کشمیر کے ضلع مظفرآباد سے ہے۔اردو زبان و ادب میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔کئی کتب کے مصنف ہیں۔ آپ بہ طور کالم نگار، محقق اور شاعر ادبی حلقوں میں پہچانے جاتے ہیں۔ لسانیات آپ کا خاص میدان ہے۔ آزاد کشمیر کے شعبہ تعلیم میں بہ طور اردو لیکچرر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ کالج میگزین بساط کے ایڈیٹر ہیں اور ایک نجی اسکول کے مجلے کاوش کے اعزازی مدیر بھی ہیں۔ اپنی ادبی سرگرمیوں کے اعتراف میں کئی اعزازات اور ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں۔آپ کی تحریر سادہ بامعنی ہوتی ہے۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |