ہیٹ سٹروک یا گرمی کا حملہ
تحریر محمد ذیشان بٹ
اپریل کا سورج جیسے ہی نصف آسمان پر پہنچتا ہے، اس کی تمازت شدت اختیار کرنے لگتی ہے۔ سال بہ سال موسمِ گرما پہلے سے زیادہ سخت ہو رہا ہے۔ خاص طور پر اپریل کے وسط سے جون تک کے مہینے پاکستان میں شدید گرمی لے کر آتے ہیں۔ رواں سال بھی محکمہ موسمیات نے آئندہ چند دنوں میں درجہ حرارت کے غیر معمولی اضافے کی پیش گوئی کی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا سکتا ہے، جو کسی بھی ذی شعور فرد کے لیے تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔
بدقسمتی سے ہمارا عمومی قومی رویہ لاپرواہی کا ہے۔ ہم موسم کی شدت کو نظر انداز کرتے ہیں، اور اسی غفلت کا نتیجہ ہے کہ ہر سال درجنوں قیمتی جانیں ہیٹ سٹروک جیسے جان لیوا مسئلے کی نذر ہو جاتی ہیں۔ اگر ہم تھوڑی سی سمجھداری اور احتیاط کا مظاہرہ کریں تو نہ صرف اپنی بلکہ دوسروں کی جان بھی بچا سکتے ہیں۔
ہیٹ سٹروک، جسے اردو میں "گرمی کی مار” بھی کہا جا سکتا ہے، ایک ایسا طبی مسئلہ ہے جو جسم کے درجہ حرارت کے معمول سے زیادہ بڑھ جانے کے باعث ہوتا ہے۔ جب جسم کا اندرونی درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ یا اس سے زیادہ ہو جائے اور پسینہ آنا بند ہو جائے تو یہ ہیٹ سٹروک کی خطرناک حالت ہوتی ہے۔ انسانی جسم کا قدرتی نظام جسم کو پسینے کے ذریعے ٹھنڈا رکھتا ہے، لیکن جب شدید گرمی، دھوپ اور نمی کے امتزاج سے یہ نظام ناکام ہو جاتا ہے تو جسم اندر سے اُبلنے لگتا ہے اور یہی صورتحال جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔
ہیٹ سٹروک کی علامات میں تیز بخار، جسم میں کمزوری، چکر آنا، دھڑکن کا تیز ہو جانا، سانس لینے میں دشواری، سر درد، متلی، قے، اور بعض صورتوں میں بے ہوشی شامل ہیں۔ اگر کسی شخص میں یہ علامات ظاہر ہوں، تو فوری طور پر اسے کسی ٹھنڈی جگہ پر لے جا کر فرش پر لٹایا جائے، اس کے کپڑے ڈھیلے کیے جائیں، جسم پر پانی کے چھینٹے مارے جائیں یا گیلا کپڑا رکھ کر جسم کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی جائے، اور جلد از جلد قریبی اسپتال منتقل کیا جائے۔
ہیٹ سٹروک سے بچاؤ کے لیے سب سے اہم اصول احتیاط ہے۔ جب درجہ حرارت زیادہ ہو، تو خاص طور پر دوپہر کے وقت (صبح 11 بجے سے شام 4 بجے تک) غیر ضروری طور پر باہر نہ نکلیں۔ اگر باہر جانا ناگزیر ہو تو ہلکے رنگ کے، ڈھیلے ڈھالے اور مکمل آستینوں والے کپڑے پہنیں، سر کو کسی کپڑے یا ٹوپی سے ڈھانپیں، اور دھوپ کے چشمے استعمال کریں۔ پانی کی بوتل ہمیشہ ساتھ رکھیں اور وقفے وقفے سے پانی پیتے رہیں، چاہے پیاس نہ بھی لگے۔ یاد رکھیں کہ جسم میں پانی کی کمی ہیٹ سٹروک کا پہلا قدم ہے۔
جو لوگ گرمی میں باہر کام کرتے ہیں، جیسے مزدور، ٹریفک پولیس، رکشہ یا موٹر سائیکل سوار، انہیں چاہیے کہ کام کے دوران وقفے وقفے سے سائے میں بیٹھیں، زیادہ پانی پئیں، اور اگر ممکن ہو تو دوپہر کے اوقات میں کام نہ کریں۔ حکومت اور نجی اداروں کو چاہیے کہ ان افراد کے لیے چھوٹے شیڈز اور پانی کے کولر فراہم کریں تاکہ یہ لوگ بھی گرمی سے محفوظ رہ سکیں۔
دکانداروں کو بھی چاہیے کہ دکانوں کے باہر صاف اور ٹھنڈا پانی رکھنے کا اہتمام کریں تاکہ راہگیر پیاس بجھا سکیں۔ یہ ایک چھوٹا سا عمل نہ صرف ثواب کا باعث بنے گا بلکہ کسی کی جان بچانے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص بے ہوش یا کمزور حالت میں سڑک کنارے بیٹھا ہو، تو اسے نظر انداز نہ کریں۔ اس سے بات کریں، پانی پلائیں، اور اگر ضرورت ہو تو اسے فوری طور پر طبی امداد دلائیں۔
بزرگ افراد، بچے، دل کے مریض، شوگر یا بلڈ پریشر کے مریض گرمی کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ بزرگوں کا خاص خیال رکھیں، انہیں دھوپ میں نہ نکلنے دیں، ان کے کمرے ٹھنڈے اور ہوادار رکھیں، اور ان کی خوراک میں پانی، دہی، لسی، اور پھل شامل کریں تاکہ جسم میں نمی برقرار رہے۔
مائیں بھی اس موسم میں اپنے بچوں پر خاص توجہ دیں۔ سکول اور کالج جانے والے بچوں کو دھوپ سے بچاؤ کے مکمل انتظامات کے ساتھ بھیجیں۔ انہیں ہدایت کریں کہ سکول میں زیادہ وقت دھوپ میں نہ گزاریں، پانی پیتے رہیں اور چست کپڑوں سے پرہیز کریں۔ خاص طور پر وہ بچے جو بس یا رکشے میں سفر کرتے ہیں، انہیں سر پر کیپ یا دوپٹہ ڈالنے کی عادت ڈالیں اور انہیں پانی کی بوتل ساتھ دینا ہرگز نہ بھولیں۔
موٹر سائیکل سوار افراد، جو اکثر ہیلمٹ کے باعث گرمی کا زیادہ شکار ہو جاتے ہیں، انہیں چاہیے کہ کپڑے کا ایک ٹکڑا سر پر باندھ کر ہیلمٹ پہنیں اور وقتاً فوقتاً پانی پی کر خود کو ٹھنڈا رکھیں۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ گرمیوں میں خوراک کا بھی خاص خیال رکھنا چاہیے۔ بھاری اور مصالحے دار کھانوں سے پرہیز کریں۔ تازہ پھلوں، سبزیوں اور ٹھنڈی اشیاء جیسے لسی، شربت، اور پانی زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔ گرم موسم میں اکثر معدے کی خرابی اور فوڈ پوائزننگ کے کیسز بھی بڑھ جاتے ہیں، اس لیے صفائی کا خاص خیال رکھیں، کھانا ہمیشہ ڈھانپ کر رکھیں اور باہر کا کھانا کھانے سے پرہیز کریں۔
یہ موسم ہر سال آتا ہے، لیکن ہم میں سے بہت سے لوگ ہر سال اسی لاپرواہی کے باعث بیمار پڑتے ہیں۔ ضروری ہے کہ ہم صرف اپنی نہیں، دوسروں کی بھی فکر کریں۔ حکومت کی طرف سے جو ہدایات جاری کی جاتی ہیں، ان پر عمل کریں، اور اپنے اردگرد کے لوگوں کو بھی ان سے آگاہ کریں۔ میڈیا، تعلیمی ادارے، اور سوشل تنظیمیں بھی عوامی شعور بیدار کرنے میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ ہم سب مل کر ہیٹ سٹروک جیسے خطرناک مسئلے کا مقابلہ کر سکیں۔
یاد رکھیے، احتیاط علاج سے بہتر ہے۔ تھوڑی سی توجہ، تھوڑی سی منصوبہ بندی، اور دوسروں کا خیال رکھ کر ہم اس گرم موسم کو آسان اور محفوظ بنا سکتے ہیں۔ خود بھی محفوظ رہیں، اور دوسروں کی حفاظت کا بھی ذریعہ بنیں۔
Title Image by cloud_purple from Pixabay

محمد ذیشان بٹ جو کہ ایک ماہر تعلیم ، کالم نگار اور موٹیویشنل سپیکر ہیں ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔ تدریسی اور انتظامی زمہ داریاں ڈویژنل پبلک اسکول اور کالج میں ادا کرتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں نجی ٹی وی چینل کے پروگراموں میں بھی شامل ہوتے ہیں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |