اسرائیلی حملہ اور دو ریاستی حل
ایک طرف فلسطینیوں پر زمین مزید تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل نے ایران پر ایک اور حملہ کر دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس حملے میں ایران کی ٹاپ ملٹری قیادت، نیوکلئیر سائنس دانوں، میزائل کے اڈوں اور کم از کم ایک نیوکلئیر پلانٹ کو نشانہ بنایا گیا جس سے کچھ اہم ایرانی جنرل اور دو ٹاپ نیوکلئیر سائنس دان شہید ہوئے۔ اسرائیل نے دعوی کیا کہ ایرانی فوج کے سربراہ چیف آف اسٹاف جنرل محمد باقری شہید کر دئیے گئے۔ تاہم بعض ایرانی ذرائع اس کی تردید کر رہے ہیں۔ البتہ پاسداران اسلام کے چیف جنرل سلامی کی شہادت کنفرم ہو گئی ہے۔ جنرل غلام علی رشید اور نیوکلئیر سائنس دانوں ڈاکٹر تہرانچی اور فریدون عباسی کی شہادت کی بھی تصدیق ہوئی ہے۔
ایرانی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ شدید بدلہ لیں گے۔ امریکہ نے آفیشل سطح پر اس حملے کی واضح تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اس حملے میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں۔ اطلاعات ہیں کہ شائد صدر ٹرمپ اس موقعہ پر یہ کارروائی نہیں چاہتے تھے۔ لیکن امریکہ نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ایرانی حملوں کو روکیں گے۔ مڈل ایسٹ میں امریکہ نے اپنا عملہ اور ملٹری بیسز سے پہلے ہی طیارے نکال لیئے تھے۔ اس وقت ہر طرف ہائی الرٹ چل رہا ہے اور ایران کی طرف سے شدید جوابی حملے کی توقع کی جا رہی ہے۔
لگتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ کو اپنی "رئیل اسٹیٹ” بنانے کا منصوبہ اپنے آغاز کے قریب آ رہا ہے۔ اس حملے سے قبل اچانک سپین، جرمنی اور کچھ دیگر یورپی ممالک نے اسرائیلی بربریت پر اسے پابندیاں لگانے کی دھمکیاں دی تھیں۔ اس حملے سے قبل امریکہ نے بھی بظاہر اسرائیل پر دباو’ بڑھایا تھا تاکہ مشرق وسطی میں فلسطین کے مسئلے پر اگلے "گیم پلان” کو شروع کیا جا سکے۔
دوسری طرف جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ مشرقِ وسطی کے دورے پر گئے تھے تو وہ اسرائیل نہیں گئے تھے۔ ایک امریکی صدر مِڈل ایسٹ جائے اور اسرائیل نہ جائے، ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ اس دورے کے دوران اربوں ڈالر کی آرمز ڈیلز سائن ہوئیں، حماس کے ساتھ مذاکرات کے بعد ایک امریکی ہاسٹیج کی رہائی یقینی بنائی گئی، شام پر لگی امریکی پابندیاں ہٹانے کا اعلان کیا گیا، اور یمن میں حوثیوں کے خلاف فضائی حملے ختم کر دیئے گئے۔ اُدھر ایران کے ساتھ مذاکرات کی خبریں بھی آتی رہی تھیں، اور حماس نے بھی اِس بات کی تصدیق کی کہ وہ غزہ پر امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کر رہا ہے۔
عرب ممالک کی طرح اگر پاکستان بھی عقل مندی اور عالمی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرے تو فلسطین کے بارے میں اسے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اہل پاکستان فلسطینیوں کے پاکستان کے بارے نظریات اور خیالات سے بھی اچھی طرح آگاہ ہیں۔ اس معاملے میں مسلم ممالک کی بے حسی پر بات کریں تو وہ بہت حد تک علاقائی مسائل سے وابستہ ہے۔ اس کو بزدلی سے ہرگز تعبیر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس کی مثال پاک بھارت مئی 2025ء کی جنگ ہے جس میں پاکستان نے بھارت سے کئی گنا چھوٹے اور معاشی طور پر کمزور ہونے کے باوجود بھارت کو منہ توڑ شکست سے دوچار کیا۔
جب غزہ کی جنگ کا آغاز ہوا تھا تو اس میں حماس نے اسرائیل پر حملہ کرنے میں پہل کی تھی۔ پاکستان پر حملہ کرنے میں بھی بھارت نے پہل کی جسے منہ کی کھانی پڑی۔ اب اتنا نقصان کروانے کے باوجود فلسطین کا جلد کوئی حل نہیں نکلتا ہے چاہے وہ "دو ریاستی” حل ہی کیوں نہ ہو تو مصدقہ بات ہے کہ فلسطینیوں کی بے رحمانہ نسل کشی یونہی جاری رہے گی۔
دنیا کے جمہوریت اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کی معنی خیز خاموشی انتہائی تکلیف دہ ضرور ہے مگر جب ہم آزاد اور خود مختار "یہودی ریاست” کو تسلیم کرنے کی بات کرتے ہیں تو اس میں بہت سی علاقائی مصلحتیں ہمارے آڑے آتی ہیں۔ اگر آپ یہ کھوکھلا دعوی کریں کہ عرب بے حس ہیں تو وہ فلسطینیوں کی خاطر اسرائیل سے لڑ کر سبق سیکھ چکے ہیں.
انہیں فلسطینیوں کے کردار کا بھی علم ہے. شائد پاکستانی سوچے سمجھے بغیر امت امت پکارتے ہیں اور اس "خیالی امت” کے غم میں دبلے ہو رہے ہیں. مسلمانوں کی ساری تاریخ آپس میں لڑائی اور مار کٹائی سے عبارت ہے. ایران عراق جنگ کے دوران "مسلم امہ” کہاں سو رہی تھی؟ آج بھی آپ نظارہ کر لیں کہ عراق، شام، یمن، سوڈان، صومالیہ، لیبیا، اور خود اپنے عزیزم پاکستان میں مسلمان ہی مسلمان کو مار رہے ہیں۔ آپ اعداد و شمار نکال کر دیکھ لیں "غزہ” میں جتنے بچے مرے ہیں ان سے کہیں زیادہ "یمن” میں مر چکے ہیں. لیکن ہمارا المیہ ملاحظہ ہو کہ یمن کے نام پر پاکستان میں "چندہ” ملنا مشکل ہے. اس لئے یمن میں ہونے والی اموات کا کوئی ذکر ہی نہیں کرتا ہے۔
اسرائیل کو اگر مسلم امہ کی عظیم ترین عثمانی سلطنت کا جد امجد ترکی تسلیم کر سکتا ہے، مصر، اردن اور متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک تسلیم کر سکتے ہیں تو فلسطین کو مکمل آزادی ملنے کی قیمت پر پاکستان اسے کیوں تسلیم نہیں کر سکتا ہے؟ اسرائیل اور ترکی کے درمیان سنہ 1949ء میں اسرائیل کے قیام کے ایک سال کے اندر ہی سفارتی تعلقات قائم ہو گئے تھے اور ترکی مسلم اکثریت کا وہ پہلا ملک تھا جس نے سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کیا!
حالانکہ فلسطین کا مسئلہ حل ہونے کے عین قریب تھا اور یہ ان کی اپنی غلطی سے ہوا کہ انہیں فلسطین کا آباد علاقہ اور دیگر شہر مل رہے تھے. لیکن انہوں نے تقسیم قبول نہیں کی اور اسرائیل پر حملہ کر دیا، جس پر یہ مثال صادق آتی ہے کہ، "آدھی چھوڑ ساری کو جاوے ، آدھی رہے نہ ساری پاوے.”
بے شک ظُلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے اور انشااللہ یہ ظلم بھی مٹ کر ہی رہے گا۔ لیکن افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ خود مسلم دنیا "گریٹر اسرائیل” کو پروموٹ کرتی ہے کہ اس سے ہمسایہ عرب ممالک بھی ایک دن لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔ "تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے، ہے جُرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات!” مسلم دنیا کو چایئے کہ وہ اسرائیل کو آگے بڑھنے اور مزید طاقتور بنانے سے روکنے کے لیئے اس کی آزادی کو تسلیم کر لیں تاکہ خطے میں امن قائم ہو جائے اور اور غزہ میں سسکتی ہوئی انسانیت کو بھی زندہ رہنے کا حق مل سکے۔
غزہ کے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ ہونا افسوسناک ہے مگر اس کے بدلے میں غزہ کے مسلمان پناہ گزینوں کو قانونی طور پر یورپ، امریکہ، آسٹریلیا اور کنیڈا وغیرہ ایڈجسٹ کرتا ہے تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔ ٹھیک ہے مصر اور اردن غزہ کے برباد مسلمان بھائیوں کو قبول نہیں کرتے تو نہ کریں اس سے "امہ” کا تصور باقی بچتا ہی کہاں ہے کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے پر بضد ہے۔
اس دور میں سوشل میڈیا سب سے بڑی آواز اور ایک ناگزیر طاقت ہے، اس لئے ہم سب کو مظلوم فلسطینیوں کے لئے آواز اٹھاتے رہنا چاہیئے جتنا ہم کر سکتے ہیں اتنا ہمیں کرنا چایئے کہ جب تک اسرائیل کی طرح فلسطین کو ایک مکمل اور خود مختار ریاست کا درجہ نہیں ملتا ہے تب تک دنیا فلسطین کے مسئلے سے منہ موڑے رکھے گی۔
اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ واقعی غزہ کو ایک پرامن اور پرآسائش "سیر گاہ” بنانا چاہتے ہیں تو اس کا خوش دلی سے خیر مقدم کرنا چایئے تاکہ فلسطین کا مسئلہ حل ہو سکے جو نہ صرف مشرق وسطی کے امن کے لیئے خطرہ ہے بلکہ پوری دنیا کو بھی ایک دن آگ میں جھونک سکتا ہے۔
اسرائیل کے ایران پر اس تازہ حملے کا پس منظر بھی مسئلہ فلسطین کے ساتھ جڑا ہوا ہے کیونکہ ایران کے ایٹمی منصوبوں اور میزائل طاقت سے اسرائیل خوف زدہ ہے جس بناء پر وہ وقفے وقفے سے ایران پر حملے کرتا رہتا ہے۔ بلفرض، مسئلہ فلسطین دو ریاستی بنیادوں پر حل ہوتا ہے تو غزہ ایک "بفر سٹیٹ” کا درجہ حاصل کر لے گا، اور اس سے آئیندہ پوری دنیا کا امن بھی متاثر نہیں ہو گا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مشرق وسطی میں پائیدار امن قائم کرنے کے لیئے مسلم دنیا بشمول پاکستان مسئلہ فلسطین کے "دو ریاستی حل” کی تجویز پر آمادگی ظاہر کریں کیونکہ جب تک مشرق وسطی میں امن قائم نہیں ہوتا دنیا بھر کا امن مسلسل خطرے میں رہے گا۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |