حاصل پور سے امریکہ تک

حاصل پور سے امریکہ تک

ماموں احسان (1950) حاصل پور (بہاولپور) میں پیدا ہوئے جہاں ان کا ننھیال رہتا تھا۔ وہ چھ بیٹیوں کے بعد پیدا ہونے والا پہلا بیٹا تھا اسی لیے ان کا نام احسان الحق رکھا گیا۔ اللہ کے کرم سے اسکے بعد رضوان، غفران اور عرفان اوپر تلے پیدا ہوئے۔
نانا جی 1962 میں نائب تحصیلدار کی حیثیت سے فتح جنگ سے ریٹائر ہوئے۔ تمام خاندان ملہو والا منتقل ہو گیا۔ ماموں نے چھٹی اور ساتویں جماعت کی تیاری گھر پر کی۔ 1964 میں ناناجی فتح جنگ پٹوار اسکول کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ احسان ان کے ساتھ فتح جنگ آ گئے اور آٹھویں کلاس میں پرائیویٹ طالب علم کے طور پر بیٹھ گئے انہوں نے پرائیویٹ امیدوار کے طور پر مڈل اسکول کا امتحان پاس کیا اور ہائی اسکول میں باقاعدہ طالب علم کے طور پر 9ویں جماعت میں بیٹھ گئے۔
وہ اپنے پھوپھی زاد قاضی عبدالقدوس سے ملنے اور سیر کرنے کوہاٹ گئے اس وقت عبدالقدوس صاحب کی تبدیلی نوشہرہ ہونے کے آرڈر ہو چکے تھے۔ ماموں نے ان کی الوداعی پارٹیوں میں شرکت کی۔

میٹرک میں انہوں نے اچھے نمبر لیے۔ نانا جی بہت خوش ہوئے اور اسے سیر کرانے نوشہرہ لے گئے۔ قاضی عبدالقدوس صاحب نے ان کو وادی سوات کی سیر کرائی ۔ ان دنوں میٹرک میں انہوں نے اچھے نمبر لیے۔ نانا جی بہت خوش ہوئے اور اسے سیر کرانے نوشہرہ لے گئے۔ قاضی عبدالقدوس صاحب نے ان کو وادی سوات کی سیر کرائی ۔ ان دنوں آرمی انجینر سوات گلگت روڈ بنا رہے تھے اور عبدالقدوس صاحب ملٹری اکاونٹس کی طرف سے ان کا آڈٹ کر رہے تھے۔آرمی انجینر سوات گلگت روڈ بنا رہے تھے اور عبدالقدوس صاحب ملٹری اکاونٹس کی طرف سے ان کا آڈٹ کر رہے تھے۔

احسان صاحب نے اصغر مال راولپنڈی سے ایف ایس سی پاس کیا اور 1968 میں کے ای میڈیکل کالج میں داخلہ لیا۔ راولپنڈی میں وہ اپنی بہن منیر صاحبہ کے پاس ٹھہرے۔ خالہ منیر کے پاس ایک کمرے والا کرائے کا مکان تھا اس لیے ماموں نے سکون سے پڑھائی کرنے کے لیے قریب ہی ایک بیٹھک کرائے پر لے لی۔
کے ای میں ان کی کلاس میں 130 طلباء تھے ۔ انہوں نے 1974 میں ایم بی بی ایس کیا ۔کالج میں ان کے دوستوں میں بختیار، عبدالقیوم اور صلاح الدین شامل تھے۔ یہ دوست ایک دفعہ ملہو والا دیکھنے آئے . ایڈونچر کے لیے وہ پدھی سٹاپ پر بس سے اتر گئے اور کس سے ہوتے ہوئے پانچ کلو میٹر کا فاصلہ طے کرتے ہوئے ملہو والا پہنچے۔
1970 کی دہائی میں فون نہیں تھے اور خطوط لکھنا ہی رابطے کا بنیادی ذریعہ تھا۔ ہاسٹل میں رہنے والے طالب علموں کے خط کا عام طور پر مطلب اخراجات کے لئے رقم کی درخواست ہوتا تھا۔ قاضی عبدالحق صاحب کو جب بھی لاہور سے ایسا خط ملتا تو وہ غفران کو غلام شاہ صاحب کے پاس قرض لینے کے لیے بھیجتے۔

. ونج لالے غلام شِاہ کولوں پیسے گھن آ

غلام شاہ صاحب نے کبھی بھی ادھار سے انکار نہیں کیا۔ وہ ملہو والا کے ایک معروف دکاندار اور قاضی عبدالحق صاحب کے پڑوسی تھے۔
1975 میں راقم نے کے ای میں داخلہ لیا ۔ ماموں احسان اس وقت میو ہسپتال میں ہاؤس جاب کر رہے تھے۔ انہوں نے مجھے ہاسٹل میں رہنے کے لئے کمرہ لے کر دیا۔ 1976 میں وہ USA چلے گئے .انہوں نے Pulmonoloy میں 4 سال کی تربیت حاصل کی اور امریکن بورڈ کوالیفائی کیا۔ وہ کیلیفورنیا میں چیری ویلی میں رہائش پذیر ہیں اور پرائیویٹ پریکٹس کر رہے ہیں۔
1977 میں نانا جی کو جگر کی تکلیف ہوئی وہ اس کے علاج کے لئے لاہور تشریف لائے۔اس وقت مگھیاں اٹک کے میجر ڈاکٹر عبداللطیف صاحب میو ہسپتال میں ڈیوٹی کر رہے تھے۔انہوں نے علاج میں مدد کی۔ الٹراساؤنڈ سے اب کافی ساری بیماریاں بر وقت پکڑی جاتی ہیں۔اس وقت میو ہسپتال میں صرف ایک الٹراساؤنڈ مشین تھی جو پروفیسر آف میڈیسن انصاری صاحب کے پاس تھی اس مشین کی زیارت کا موقعہ نہیں ملا۔ جگر کی بیماریوں کی تشخیص آئیسوٹوپ سکین سے ہوتی تھی۔
امریکہ سے ڈاکٹر احسان اپنے والد صاحب کی ںیماری کی خبر سن کر میو ہسپتال میں اپنے بیمار والد کو دیکھنے آئے۔ ان کے آنے کے کچھ دن بعد نانا جی کی طبیعت بہت بگڑ گئی اور ڈاکٹروں نے بےبسی اور مایوسی کا اعلان کردیا۔اس پر نانا جی کو لاہور سے راولپنڈی جنرل ہاسپیٹل بذریعہ ایمبولینس شفٹ کردیا۔ ایمبولینس کے ساتھ راقم، ماموں احسان،ماموں رضوان، خالو ریاض اور حاجی اقبال ترڈ تھے۔پنڈی پہنچ کر کچھ گھنٹوں میں ناناجی چل بسے۔ برسات کا موسم تھا کچی سڑک خراب تھی میت کو نانی بنی کے بیٹے رفیق کی ویگن میں کمڑیال تک لائے اس کے بعد دس کلومیٹر ملھوالے تک میت کندھوں پر اٹھا کے لائے ۔ جنازے کے بعد میرا لاھور واپسی کا سفر نیلہ،چکوال، جہلم کے رستے ہوا۔ اس وزٹ کے دوران ماموں جان نے مجھے ایک فینسی کوٹ تحفے میں دیا۔ اسے پہن کر خوشی ہوتی تھی۔ اس کی سلائی اتنی اچھی تھی کہ اکثر ساتھی طلباء پوچھتے کہ کوٹ کہاں سے لیا ہے۔
1984 میں نانی جی احسان صاحب سے ملنے امریکہ گئیں ۔ انہوں نے وہاں قیام کے دوران 1984 کے لاس اینجلس سمر اولمپکس دیکھیں ،خاص کر ھاکی میچ دیکھا۔اس اولمپکس میں پاکستان نے مغربی جرمنی کو فائنل میں شکست دے کر ہاکی کا گولڈ میڈل 🏅 جیتا تھا۔ احسان صاحب کی کوششوں سے آہستہ آہستہ دو اور ماموں اور ایک خالہ خاندانوں کے ساتھ امریکہ شفٹ ہو گئے۔

حاصل پور سے امریکہ تک
Image by Pexels from Pixabay

عرفان اور غفران 1985 میں امریکہ گئے۔ ڈاکٹر احسان نے اپنے ایک دوست سے کہا کہ وہ انہیں ڈرائیونگ سکھائیں اور علاقے میں گھمائیں پھرائیں۔ اس بھائی صاحب نے ان کے سامنے شراب پی اور اس کے بعد نشے میں بکواس کرنے لگا۔ غفران نے زندگی میں پہلی بار کسی شرابی کو نشے کی حالت میں دیکھا ۔ان کو عین الیقین سے بڑھ کر حق الیقین حاصل ہو گیا کہ واقعی شراب بہت بری شے ہے ۔
احسان ماموں نے اپنے بھائیوں کو کاروبار کرانے کا پروگرام / منصوبہ بنایا۔ ان کی ایک ہی ریزرویشن / خواہش تھی کہ ایسا کاروبار ہو جس میں شراب نہ بیچنی پڑے ۔ امریکہ میں جس چیز کی بھی دکان ہو اس میں شراب ایک ضروری آ ئیٹم ہوتا ہے ۔ کیتھی ڈاکٹر احسان کی اکاؤنٹنٹ تھیں۔ اس نے مشورہ دیا کہ گارمنٹس کی دکان ہی ایک ایسا بزنس ہے جس میں شراب دکان پر نہیں رکھنی پڑتی۔ چنانچہ غفران نے گارمنٹس کا کاروبار شروع کردیا۔
نانی جان اور عرفان قاضی 1990 میں حج کے لئے امریکہ سے حاضر ہوئے۔ اسی سال راقم کو بھی اہلیہ اور خالو اختر سمیت حج کی سعادت نصیب ہوئی تھی۔ عرفان ماموں سے میری پہلی ملاقات مسجد حرام میں ہوئی ۔وہ پہلے عمرے سے فارغ ہوکر ابھی احرام میں تھے ۔میں نے حلق کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ چند بال باربر نے قینچی سے کاٹ کر کہا ہے کہ اس سے گزارا ہو جائے گا۔ میں ان کو مدرسہ صولتیہ لے گیا ان سے مسئلہ پوچھا تو انہوں نے کہا اس طرح چند بال کٹوانے سے حلق ہیں ہوتا ۔اس وقت مدرسہ صولتیہ باب عمرہ کے پاس محلہ حارت الباب میں تھا ۔اس مدرسے کی وساطت سے ہم نے بڑی نانی اور نانا جان کا حج بدل کرایا۔یہ حضرات فقہ حنفی کی رعایت رکھتے ہوئے پوری ذمیداری سے حج بدل کرتے تھے ا ب مسجد حرام کی توسیع کی وجہ سے یہ مدرسہ دور چلا گیا ہے. مدرسہ والے حج کی قربانی کا بندو بست بھی کرتے تھے ۔ان کا شعبہ امانت بھی تھا جس میں حاجی حضرات پیسے اور کاغذات جمع کرا دیتے اور ضرورت کے مطابق واپس لے لیتے تھے۔
2005 میں ڈاکٹر احسان، غفران اور مسز غفران نے حج کیا 2008 میں اللہ نے ڈاکٹر احسان پر بڑا فضل کیا۔ انہوں نے جامع مسجد ملہو والا کے عظیم الشان مینار کی تعمیر کے لیے چندہ دیا۔ اکرام قاضی نے اس منصوبے کی نگرانی کی۔ ثاقب قاضی کہتے ہیں یہ مینار 300 فٹ بلند ہے۔ یہ اندرونی سیڑھیوں والا مینار میلوں سے نظر آتا ہے۔ گنڈاکس روڈ کی پدھی سے اسے آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر ثاقب ریاض قاضی کہتے ہیں مسجد کا مینار 300 فٹ بلند ہے، یہ ایفل ٹاور پیرس کی اونچائی کا ایک تہائی ہے جو 300 میٹر بلند ہے۔ ثاقب کو دونوں پر چڑھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ راقم 2013 میں ملھوالہ مینار پر چڑھا۔ خالہ منیر بھی ساتھ تھیں ان کی وجہ سے یہ ایونٹ اور بھی گریس فل ہو گیا ۔
2020 میں ڈاکٹر احسان نے اسلامک سینٹر Beaumont Ave، Beaumont Ca کے لیے عمارت کی خریداری کے لیے مالی اعانت فراہم کی۔ یہ جگہ ان کے گھر کے قریب ہے۔ اس اسلامی مرکز کی جگہ پر پہلے چرچ تھا New Creation Church۔
من بنى لله مسجدا، بنى الله له قصرا في الجنة.‏ جس نے اللہ کے لیے مسجد بنائی اللہ اس کے لیے جنت میں محل بنائے گا۔ (ابن ابی شیبہ)
بیومونٹ مسجد کی لاگت تیرہ لاکھ ڈالر تھی۔ اس کے نمازیوں میں 80 فیصد مسلمان عرب ہیں اور مسجد کے لیے چندہ دینے کے لیے فراخ دل ہیں۔ رمضان 2021 میں اس مسجد میں پہلا رمضان تھا ایک صومالی حافظ صاحب نے تراویح پڑھائی۔ جمعۃ المبارک کا اجتماع 60 سے زیادہ ہوتا ہے۔ بچوں کی تعلیم کے لیے مسجد میں سنڈے اسکول ہے اس میں پچاس کے قریب بچے آتے ہیں۔
ساجد زین قاضی (1956-2021) نے 1987 میں خالہ معصوم قاضی سے شادی کی۔ وہ راولپنڈی کی عدالتوں میں ملازمت کرتے تھے۔ یہ فیملی 2000 میں انڈیو کیلیفورنیا میں جاکر آباد ہوئی۔
اپریل 2017 میں ماموں رضوان کا برین ٹیومر کا آپریشن ہوا اس کے بعد ریڈیو تھیراپی ہوئی ۔پھر کیمو تھیراپی پر تھے ان کی وفات اگست 2018 میں ہوئی ۔غسل اور نماز جنازہ قاری سلیم جودڑا صاحب نے پڑھائی۔ رضوان صاحب کی بیماری کے آخری دنوں میں ساجد صاحب پاکستان آئے ہوئے تھے ۔
ساجد صاحب کا جنوری 2021 میں آئزن ہاور ہسپتال رینچو میراج میں COVID-19 کی وجہ سے انتقال ہو گیا۔ انہیں مسلم قبرستان کورونا سٹی کیلیفورنیا میں دفن کیا گیا۔ کورونا سٹی ایک پرانا شہر ہے اور اس کا COVID-19 سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
کیلیفورنیا کے صوبے میں اندلسی / ہسپانوی لوگ آبادی کا بیس فیصد ہیں۔یعنی ہر پانچواں بندہ اندلسی ہے ۔ان کے بالوں /آ نکھوں کی رنگت اور انکی شکل و صورت پاکستانیوں سے ملتی جلتی ھے۔ خدا جانے ان میں سے کتنے اندلسی مسلمانوں کی اولاد ہیں
جیسا کہ علامہ اقبال نے فرمایا
جن کے لہو کی طفیل آج بھی ہیں اُندلسی
خوش دل و گرم اختلاط، سادہ و روشن جبیں
آج بھی اس دیس میں عام ہے چشمِ غزال
اور نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دل نشیں

ماموں لوگوں کو ناواقف بندے اندلسی سمجھتے ہیں۔ ایک دفعہ ماموں مامی نوازش کے ساتھ ہمارے گھر عسکری چودہ تشریف لائے۔ مسجد کے وضو خانے میں ان کا پاؤں پھسل گیا اور ان کا بایاں بازو متاثر ہوا۔
امریکہ واپسی پر بازو کی سرجری ہوئی۔ سرجن آپریشن روم سے باہر ہسپتال کے لان میں آیا وہاں غفران کھڑا تھا۔وہ اسے دیکھ کر پریشان ہو گیا ۔کہنے لگا ڈاکٹر احسان ،میں ابھی آپ کو وارڈ میں دیکھ کر آیا ہوں آپ بےہوش تھے اور اب آپ یہاں سیر کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ غفران نے بتایا میں ڈاکٹر قاضی کا بھائی ہوں میری شکل اس سے ملتی جلتی ہے۔
اسی طرح ایک عربی نے غفران کو کہا(Brother I saw your pic on the highway
)اس پر غفران نے بتایا وہ میرے بھائی ڈاکٹر قاضی کی تصویر ہے۔
ڈاکٹر احسان 2017 میں ماموں رضوان کی بیماری پر راولپنڈی آئے تھے۔ آمد پر وہ چکلالہ ہوائی اڈے پر اترے۔ روانگی کے وقت انہوں نے نیو ایئرپورٹ اسلام آباد سے اڑان بھری، اس وقت تک چکلالہ ایئرپورٹ سول ایوی ایشن کے لیے بند ہو چکا تھا۔
ماموں احسان اور غفران مارچ 2022 میں امریکہ سے فیملی وزٹ پر G-15 اسلام آباد آئے ۔ خالہ معصوم ایک ماہ پہلے آئی تھیں۔ ہم لوگ 6 مارچ کو ان سے ملنے گیے۔ ماموں احسان نے میرے پوتے براہیم رافع اور میری بہو مسز عبداللہ کو سو سو ڈالر کا تحفہ دیا۔ وہ 8 مارچ کو ہمارے گھر ڈنرپر تشریف لائے۔ وسیم، ندیم اور ہاجرہ بتول کی فیملیز موجود تھیں۔ ایک غیر معمولی رونق اور گہما گہمی تھی تھا .ماموں احسان نے میرے نواسے / نواسی محمد اور حیا کو 100 ڈالر تحفے میں دیے۔
نو مارچ کو غفران اور میں اپنے میٹرگ کے کلاس فیلو مرتضیٰ سے ملنے کے لیے دلہہ چکوال گئے ہم نے چار گھنٹے اکٹھے گزارے۔ غفران نے خوشی خوشی اپنی بیگم صاحبہ کے روزمرہ کے معمولات بتائے۔
وہ تہجد اور دیگر نفل نمازیں باقاعدگی سے پڑھتی ھیں ۔روزانہ سورہ بقرہ پڑھتی ھیں۔ نماز تراویح کے لئے مسجد جاتی ہیں اور ان کو پتہ ہوتا ہے کہ کون سی سورتوں کی تلاوت کی گئی ہے۔ہر مہینے تین یا چار نفل روزے رکھتی ہیں۔
جب فرحان بچہ تھا تو بیگم اسے دس منٹ کی مسافت پر اسکول لے جاتی تھیں۔ ان کا معمول تھا کہ وہ بلند آواز سے سورہ فاتحہ، سورہ اخلاص اور رب زدنی علما رستے میں پڑھتی جاتی تھیں۔
ایک بار وہ مصروف تھیں انھوں نے غفران سے فرحان کو ڈراپ کرنے کو کہا۔ جب غفران نے گاڑی چلائی تو فرحان نے اسے یاد دلایا.( Let us start Bismillah and Dua) بابا بسم اللہ اور دعا شروع کریں۔ یہ سب ماں کی تربیت کی وجہ سے ہوا۔اللہ پاک ہمیں بھی ایسے اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
غفران ریور سائیڈ کاؤنٹی میں تین جگہوں پر گارمنٹس کا کاروبار کر رہا ہے۔ بیننگ، ہیمٹ اور پیریز چین کا نام ہے …. LA’s Nothing Over 9.99$ .ہر مال دس ڈالر۔
کورونا نے امریکہ میں بڑے کاروباری اداروں کو متاثر کیا لیکن چھوٹے اسٹورز نے اس عرصے میں خوب کمائی کی ۔ ان کا بزنس تین گنا بڑھ گیا۔ غفران ہیمیٹ Hemet میں رہتا ہے۔ اس کا بیٹا فرحان قاضی سکرپ ھیلتھ سان ڈیگو Scripp Health San Diego.ca میں جاب کرتا ہے۔
پہلے ہیمٹ مسجد سارے علاقے میں واحد مسجد تھی۔ لیکن ڈاکٹر قاضی نے بیومونٹ میں ایک چرچ کوخرید کر مسجد میں تبدیل کر دیا۔ اب اس نئی مسجد میں علاقے کے زیادہ تر مسلمان نماز پڑھتے ہیں۔
ہیمٹ مسجد غفران قاضی کے گھر کے قریب مسجد ہے۔ مسلمانوں کی آبادی کم ہے۔ بہت سے لوگوں کے پاس اس کی چابیاں ہیں – انہوں نے آپس میں باریاں مقرر کی ہوئی ہیں۔ کچھ فجر لازمی پڑھتے ہیں ۔کچھ ظہر لازمی پڑھتے ہیں ۔ اسی طرح باقی نمازوں کے لئے بندے مقرر ہیں ۔اس ترتیب سے مسجد تمام نمازوں میں آباد رہتی ہے۔ ورنہ یہ ممکن تھا کہ ایک نماز میں مسجد بھر جاتی اور دوسرے وقت بالکل بند رہتی۔ چند قریبی مسلمان اس مسجد میں صرف عشاء کے وقت آتے ہیں۔ جمعہ میں 50 افراد کا اجتماع ہوتا ہے۔غفران اکثر ڈاکٹر خیالی، ڈاکٹر اسلم اور ڈاکٹر عابد کے بارے میں بات کرتا ہے۔ یہ تمام پاکستانی ساتھی ریور سائیڈ کاؤنٹی میں رہ رہے ہیں۔
عرفان قاضی تھاؤزنڈ پام میں رہتے ہیں۔ ان کی بیٹی نے برکلے یونیورسٹی کے گولڈمین اسکول آف پبلک پالیسی (GSPP) سے تعلیم حاصل کی۔ اب وہ سیکرامینٹو کیلیفورنیا میں مالیاتی بجٹ کی تجزیہ کار ہیں۔عرفان قاضی کے بیٹےمحمد علی قاضی سان برناڈینو میں نیوٹریشنل سائنسز پڑھ رہے ہیں ۔حاثم قاضی ماموں عرفان کے سب سے چھوٹے بیٹے ہیں۔ ان کا نام امریکا کے مسلم باکسر Hasim کے نام پر رکھا گیا ہے وہ اسکول کی فٹ بال ٹیم کا ممبر ہے۔
نانی جی ، عرفان ماموں اور ندیم السلام 1979 میں حاصل پور میں ماموں رضوان کی منگنی کے سلسلے میں ایک ہفتہ ٹھہرے۔ ندیم اس وقت چھٹی کلاس میں تھا۔ ندیم پھر ماموں کی بارات کے ساتھ حاصل پور گیا۔
راقم کبھی حاصل پور نہیں گیا۔ 1996 میں جمیل کی شادی پر حاصلپور جانے کا بہترین موقع تھا لیکن مجھے راولپنڈی میں بخار ہو گیا ۔میری مسز اور عبداللہ سلام بارات کے ساتھ گئے۔

[email protected] | تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

ریل کا پہیہ

بدھ اکتوبر 11 , 2023
پہیہ کا نام یہ اصطلاح سنتے ہی گول دائری شکل میں گھومنے والا جسم ہمارے ذہن میں آتا ہے ۔
ریل کا پہیہ

مزید دلچسپ تحریریں