میرٹ اور مائگریشن

میرٹ اور مائگریشن

Merit vs Migration

ایک کالج سے دوسرے میں مائیگریشن کا قانون اس لئے بنا   ہوگا کہ بعض اوقات کسی خاص مجبوری سے طالب علم ایک شہر سے دوسرے شہر میں جانا چاھے تو اس کے لئے آسانی پیدا کی جائے ۔اس رعایت کے تحت ہمارے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کی کلاس میں ڈیڑھ سو لڑکے  لڑ لڑ کے ۔زور سے مائیگریشن کراکے آ گئے۔کلاس 180 سے 330 تک پہنچ گئی۔ کلاس روم ،  ہاسٹل، کینٹین ھر جگہ اوور کراؤڈنگ   ہو گئی۔ تعلیم کی اور زندگی کی کوالٹی پراثر پڑا۔

جائے تنگ است و مردماں بسیار

  راقم نے ایف ایس سی 1974 میں اٹک سے کی۔ایک صاحب کو میرٹ پر اٹک میں  داخلہ نہ ملا تو والد صاحب نے فرمایا۔

 پتر گل ای کوئی نئیں  

برخوردار کو تلہ گنگ میں داخل کرایا اور مائیگریشن کراکے اٹک پہنچا دیا ۔

  مائیگریشن ایک صوبے میں کہیں بھی   ہو سکتی ھے۔ پرانے زمانے میں موجودہ پورا پاکستان ایک صوبہ تھا اور اس کا نام مغربی پاکستان تھا۔ ربوہ کالج میں سٹوڈنٹ یونین کا کوئی رولا پھڈا مسئلہ تھا۔اس کے حل کے لیے  ایک جیدار ڈانگ مار احمدی پٹھان کی مردان سے ربوہ مائیگریشن کرائی گئی ( بحوالہ  احمقوں کی جنت)

   مجھے یاد پڑتا ھے کہ جمیعت کی تنظیم کو مضبوط کرنے کے لئے 1973 میں بہاولنگر سے ارشاد صاحب مائیگریشن کراکے اٹک آئے تھے۔

  مائیگریشن میں ایک کیٹاگری کا نام میوچل مائیگریشن تھا کہ دو طلباء آپس کی رضامندی سے اپنے کالج تبدیل کر سکتے تھے ۔تلہ گنگ کے وقار حیدر ملک کے ای میں ہمارے ساتھ داخل   ہوئے ان کا لا  ہور میں دل نہیں لگا وہ زاھد ملک کے ساتھ میوچل مائیگریشن کراکے راولپنڈی میڈیکل کالج  چلے گئے ۔ میوچل مائیگریشن میں سنا تھا کہ پیسے بطور ہدیہ دے کر لوگ دیہاتی میڈیکل کالجوں سے کے ای میں آتے تھے ایسا کوئی کیس راقم کے علم میں نہیں آیا۔

.  ہمارے اٹک کے ایک دوست،  دو اور لڑکوں  اور سرپرستوں کے ساتھ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں داخلے کے لئے لاہور آئے ۔ ان کا قیام دہلی مسلم ہوٹل انار کلی میں تھا۔ رات کو سب باجماعت پٹیالہ بلاک دیکھنے آئے   کالج کی پر شکوہ عمارت دیکھ کر ہمارے دوست پر ھیبت طاری   ہو گئی  وہ فرماتے ہیں میں نے سوچا۔

   ھیڈا  وڈا  کالج   

   اس کے بعد فرسٹ ایئر فولنگ اور میڈیکل کالج کی   ۔بہت مشکل  پڑھائی نے اپنا اثر دکھایا۔ اس پر وہ کالج سے فرار   ہو گئے ۔راقم انکے پیچھے پیچھے ریلوے اسٹیشن جی ٹی ایس کے اڈے پر پہنچا تو ان کی گاڑی سیٹ   بائی سیٹ پوری تھی ان سے گزارش کی کہ آپ  جا کر راولپنڈی اڈے پر انتظارِ کریں میں دوسری بس میں آ رہا ہوں ۔ پنڈی پہنچا تو ڈاکٹر صاحب غائب     اٹک پہنچ کر ڈاکٹر صاحب کے گھر گیا ان سے مذاکرات کئے تو انہوں نے لا  ہور سے راولپنڈی میوچل مائیگریشن کا مطالبہ کیا ۔

 پنڈی راجہ بازار میں غلام اللہ خان صاحب کی مسجد سے مائیگریشن کے بدلے میں پیسے / ھدیہ لینے کے جائز یا ناجائز   ہونے کا مسئلہ پوچھا۔ ان کا جواب یاد نہیں ۔ آخر کار منت سماجت کرکے ،سمجھا بجھا کر ڈاکٹر صاحب کو دوبارہ لا  ہور لے گیا اور ان کی اناٹومی کی پروفیسر میڈم توقیہ عابدی سے ملاقات کرائی ۔ ایڈجسٹمنٹ کی پریشانی میں ڈاکٹر صاحب کا ایک سال ضائع   ہو گیا لیکن پڑھائی کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ھی مکمل کی۔ بعد میں فوج جائن کی اور بطور فل کرنل ریٹائر ہوئے۔

  میرے  نمبر اور ہمارے گرائیں اشفاق صاحب اخلاصِ پنڈی گھیب   دونوں کے نمبر برابر تھے    697 اشفاق صاحب مجھ سے  عمر میں کچھ دن یا کچھ ھفتے بڑےتھے اس لئے برابر  نمبروں کے  باوجود  بزدگی کی وجہ سے ان کا میرٹ نمبر 150 تھا اور میرا 151 تھا   لیڈیز کی بیس سیٹیں تھیں ان کا میرٹ لڑکوں سے علیحدہ تھا۔ میرا خیال ھےکہں میرا   اخری دس لڑکوں میں نام آیا   ہوگا۔

  مطلب یہ ھے کہ کے ای میں ھماری جینوئن اور نجیب الطرفین کلاس 180 کی تھی۔ فائنل ائیر میں ھماری کلاس / جلسہ عام کی تعداد 330 تک پہنچ گئی ۔

    ھر دس دن بعد ایک مگ فائٹر Mig Fighter  بہاولپور ،ملتان، فیصل آباد یا راولپنڈی سے اڑتا اور سیدھا   پٹیالہ بلاک   میں لینڈ کرتا تھا ۔ پروفیسر صاحبان ان   مان نہ مان  میں تیرا مہمان    حضرات کا  نام مجبوری سے حاضری رجسٹر میں لکھ لیتے ۔

لیکن ان گیٹ کریشرز کے نام کے ساتھ   (Migration)  Mig   بڑے اھتمام سے لکھتے تاکہ سند رھے اور بوقت ضرورت کام آئے .

سال سوم ایم بی بی ایس کا امتحان تھا پروفیسر ظفر العزیز صاحب پیتھالوجی کا پریکٹیکل امتحان لے رہے تھے ۔ میرے ایک جواب سے وہ ناراض ہو گئے اور۔ فرمانے لگے تم تو مائیگریشن والے لگتے ہو ۔گزارش کی   ۔سر میں جینئون genuine کیمکولین ہوں Kemcolian  ہوں ۔اس پر پروفیسر صاحب کی شفقت جوش میں آئی اور ہم پاس ہو گئے

  ہمارے کلاس فیلو پروفیسر ڈاکٹر بلال ترین صاحب نے سپلی کے حوالے سے میں ایک یاد  شئیر کرتے ہوئے فرمایا۔میرا داخلہ راولپنڈی میڈیکل کالج میں ہوا تھا۔بڑے بھائی سراج صاحب کا داخلہ ایک سال پہلے  کے ای لا  ہور میں ہوا تھا۔اور میرے پ  ہوپی زاد بھائی طاہر خاکوانی کا داخلہ اسی طرح ایک سال پہلے بہاول پور میڈیکل کالج میں ہوا تھا۔ خاکوانی صاحب نے شوق کے ھات  ہوں مجبور   ہو کر کے ای میں مائیگریشن کرا لی۔ انیس سو اسی  کے گریجوایٹس کی کمیونٹی میڈیسن فورتھ ائیر  میں تھی۔پروفیسر زاہدہ میر نے قسم اٹھائی تھی کہ جنہوں نے مائیگریشن کروائی ہے اس کو  سالانہ میں پاس نہیں کرنا۔ اس فارمولے کے تحت خاکوانی صاحب کی سپلی لگ گئی   یعنی سالانہ امتحان میں فیل   ہو گئے ۔

 میں نے بھی خاکوانی صاحب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے راولپنڈی سے کے۔ای۔میں میں مائیگریشن کروالی۔ لیکن  پروفیسر زاھدہ   کا    اعلان جنگ  میرے لئے  بہت  پریشان کن  تھا۔سراج صاحب نے مجھے کہا کہ کمیونٹی میڈیسن کا کوئی لیکچر  مس نہیں کرنا ۔ امتحان پاس کرنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔ ورنہ فائنل میں لازمی سپلی لگے گی۔میں نے اپنے تئیں کوئی لیکچر نہ چ  ہوڑا۔کئی دفعہ صرف کمیونٹی کے لیکچر کے لئے ڈھائی بجے تک بیٹھا رہتا تھا   ۔

  وائیوا / زبانی امتحان کے وقت میں سخت گھبرایا ہوا تھا۔اندر گیا تو میڈم نے میری حاضریاں دیکھیں۔52/53 تھیں۔حیرت انگیز طور پر میڈم نے ایکسٹرنل ممتحن کو کہا    ۔ڈاکٹر صاحب   یہ میرا سب سے اچھا سٹوڈنٹ ہے۔اس سے جو پوچ  ہو گے بتائے گا   ۔یہ کہہ کر مجھ سے کوئی سوال کئے بغیر باہر چلی گئیں۔ ان کے جاتے ہی ایکسٹرنل  نے کہا ۔

 پتر    نس جا         

 اور میں نس گیا

  مجھے آج تک حیرت ہے میرا ایک لیکچر کیسے شارٹ ہوا تھا۔میں ان چند مائگریٹری میں تھا ا جو سالانہ امتحان میں پاس ہوئے تھے۔یہ اللہ کا بڑا کرم ہوا تھا۔

  فائینل ائیر میں سپلی بہت پریشان کرتی ہے ۔  ہاسٹل سے کمرہ سالانہ امتحان کے ساتھ ہی خالی کروالیا جاتا ہے ۔اور بندے کو   ہاسٹل میں اس پریشانی میں کسی جونئیر کی منت کر کے اس کے ساتھ رہنا پڑتا ہے ۔ کچھ لڑکوں کے فائینل ائیر میں سارے مضامین پاس تھے لیکن صرف کمیونٹی میڈیسن میں سپلی تھی ۔میڈم رضیہ سلطانہ جینئوئن اصلی کے آی کے لڑکوں اور صوفی ٹائپ کے بچوں پر شفقت فرماتی تھیں۔ مائیگریشن والوں اور شرارتی بچوں کو خوب رگڑتی تھیں۔ خوش قسمتی سے بندہ ناچیز میڈم کو خوش کرنے والی دونوں باتوں سے متصف تھا ۔ عملی امتحان میں راقم ایک سوال پر چکرا گیا تو میڈم فرمائے لگیں

   بیٹا پریشان مت ہو تم پاس ہو میں تو ایکسٹرا نمبر دینے کے لئے یہ سوال پوچھا ہے

  Sonny you are passing. I just want to give you extra Marks.

[email protected] | تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

سیاست کے فرعون

اتوار جنوری 28 , 2024
حکمرانوں کے بچے پیدا ہوتے ہی ارب پتی کیسے بن جاتے ہیں اور ان کے بچوں پر ہر سال آئی ایم ایف کے قرضوں کا بوجھ کیوں بڑھ جاتا ہے؟
سیاست کے فرعون

مزید دلچسپ تحریریں