فکر اقبالؔ کا امین :سلیم اخترؔ مکرانی

فکر اقبالؔ کا امین :سلیم اخترؔ مکرانی

یوم ہفتہ ۱۴؍ اکتوبر ۳ ۲۰۲ء کو جب سلیم اخترؔ مکرانی چچا سےملاقات کےلیےمحترم ڈاکٹر سفیان احمد انصاری صاحب اور برادروصی اللہ قاسمی صاحب کے ساتھ  جانے سے پہلے دوپہر کو کال کی تھی لیکن فون نہیں اٹھا تھا تو ہم لوگ بعد نمازِ مغرب آپ کے دولت کدہ پر حاضر ہوئے تھے کہ آپ کو شہر کے نگر پالیکا ہال میں ہونے والی رسم ِ اجرا کی  ایک ادبی تقریب  میں شرکت اور کتاب پر تبصرہ/اظہار ِخیال کے لیے بات کر لیں ،لیکن دستک دینے پر معلوم ہوا کہ آپ کی طبیعت ناساز ہے ، ڈرپ لگی ہوئی ہے اور اس وقت وہ سو رہے ہیں، اس لیے ہم لوگ یہ ارادہ کرکے واپس چلے آئےکہ صحتیاب ہونے کےبعد ملاقات کی جائے گی۔ واپس آنے کے تھوڑی ہی دیر بعد آپ کی کال آئی تو معلوم ہوا کہ چار،پانچ دن سے وائرل بخار میں مبتلا ہیں۔پھر آنے کا مقصد پوچھا ؛تو ہم نے بتایا کہ بزرگ شاعر ڈاکٹر عبرت بہرائچی مرحوم کی حیات وخدمات پر ڈاکٹر سفیان احمد انصاری کی مرتّب کتاب کی رونمائی کے موقع پرآپ کو کتابِ مذکور پر تبصرہ اوراظہار خیال کرنے کی درخواست کرنے گئے تھے۔ آپ نے ناسازیٔ طبع کی وجہ سے معذرت کر لی،اور کہا کہ سفیان صاحب سے کہیے کہ ہماری جگہ دوسرا انتظام کر لیں۔ اُس وقت میرے حاشیۂ خیال میں یہ بات نہیں تھی یہ آخری بات ہو رہی ہے اور اب دوبارہ پھر کبھی بات نہ ہو سکے گی۔چنانچہ  ۱۸؍اکتوبرکی شام کو جب آپ کے بچپن کے دوست جناب محمد عمر  للو مکرانی چچا نے بذریعہ فون بعد نمازِ مغرب آپ کے انتقال کی غم ناک خبر دی ،تو یقین ہی نہیں ہوا ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کل سے شہر کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں برین ہیمرج  کی وجہ سے زیر علاج تھے ؛اور ابھی کچھ دیر پہلے اپنے مالک ِحقیقی سے جاملے۔ پھرچارٹیڈ اکاؤنٹنٹ دانش ملک بھائی اور اُس کے بعد محترم غلام علی شاہ صاحب اور ابرارالحق چچا نے بھی یہی خبر سُنائی، تب یقین ہوا۔

مرحوم کا دنیا سے جانا بہرائچ کے اردو ادب کا ناقابل ِتلافی نقصان ہے ،آپ ماہر ِاقبالیات کے اہم ستون اورفکرِ اقبال کے سچے ترجمان تھے ، جوآپ کے کلام میں نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ طویل نظمیں ہو یا غزلیں سب میں آپ یکساں قدرت رکھتے تھے۔

ہنستا مسکراتا ،  دارھی سے بھرا ہوا نورانی  چہرہ، سر پر ٹوپی    ،سب سے ہنستےاور مسکراتے ہوئےملنا ،اور غم خواری کرنا ،یہ تمام خوبیاں ہمارے سلیم چچا میں پائی جاتی تھیں۔

سلیم اخترؔ مکرانی کی ولادت ۱۵؍ جولائی ۱۹۶۱ء کو شہر کے محلہ چھاؤنی میں ہوئی تھی۔آپ کے والد کا نام سبحان اللہ مکرانی تھا ۔آپ نے ابتدائی تعلیم جامعہ اشرفیہ مسعودالعلوم چھوٹی تکیہ سے حاصل کی۔اس کے بعد آپ نے انٹر تک کی تعلیم شہر کے مشہور تعلیمی ادارے آزاد انٹر کالج سے پوری کی۔جہاں  آپ کے ہم جماعت ساتھیوں میں یہ نام اہم ہیں: رئیس مرحوم احمد چونے والے (راقم کے والد )جناب مصباح الحسن (اسلم سائکل والے)، حاجی سید جمیل احمد علیگ(نامی دواخانہ بہرائچ) ، محمد شفیع مکرانی ۔آپ نے ایم اے کی تعلیم مقامی کسان ڈگری کالج سے حاصل کی تھی۔آپ محکمۂ ڈاک سے وابستہ تھے،جس سےجولائی ۲۰۲۱ء میں سکبدوش ہوئے۔ آپ کے فن کو نکھارنےمیں آپ کے کالج کے استاد اور مشہور و ممتاز محقق، شاعر و  ادیب  متعدد کتابوں کے مصنف ڈاکٹر محمد نعیم اللہ خاں خیالیؔ کا اہم کردار رہاہے۔ موصوف ہی کے  کہنے پر آپ نے افسانہ نگار ی کی طرف اپنی  توجہ مرکوز کی ،اور ایک کام یاب اور  ممتاز افسانہ نگار کے طور پر ادبی حلقوں میں معروف ہوئے۔ آپ کے سیکڑوں افسانے ملک کے مختلف رسائل،جرائد اور اخبارات میں مستقل شائع  ہوئے ،جن میں بیسویں صدی، لاریب ، امکان ، سب رس وغیرہ قابل ِذکر ہیں۔

فکر اقبالؔ کا امین :سلیم اخترؔ مکرانی
سلیم اخترؔ مکرانی

آپ قوم و ملت کی رہنمائی اپنے کلام کے ذریعے کرتے تھے۔ آپ کا مجموعۂ کلام ’’نوائے پریشاں‘‘ آپ کے فکر و فن کا مظہر ہے۔ آپ کی شہرت بطور افسانہ نگار تھی اور شہر کے ممتاز افسانہ نگار ہونے کا شرف آپ کو  حاصل تھا۔ آپ نے افسانے اور نظم کو ایک ساتھ پیش کرتے ہوئے’’افنانہ‘‘ کو اردو ادب میں متعارف کرایا ،اور اُس پر اپنا ایک تعارفی مضمون بھی لکھا جس کو اُس وقت لوگوں نے خوب خوب پسند کیا ۔

۲۰۰۶ء میں آپ کی اہلیہ ایک لمبی بیماری کے بعد اس دارِ فانی سے دارِ بقا کی جانب کوچ کر گئیں۔ اس ہول ناک اور غمگین  واقعہ سے آپ پوری طرح ٹوٹ گئے ، اور اپنے خیالات کو  شعری انداز میں لکھنے لگے ۔آپ کا شعری مجموعہ ’’نوائے پریشاں ‘‘صرف ایک سال کے اندر تیار ہو گیا تھا، اس میں جو کلام ہے وہ علامہ اقبال کے انداز کا ہے ۔اپنے مجموعہ کلام میں سلیم اخترؔ صاحب  اپنی شاعری کے متعلق لکھتے ہیں کہ

’’۱۲؍جنوری ۲۰۰۶ء کو میں نے  اپنے یارانِ ہم نفس محمد عمر مکرانی اور شفیع احمد مکرانی کے اُکسانے پر پہلی غزل کہی، یہ بناء تھی ’نوائے پریشاں‘ کی، کیوں کہ اُس کے بعد رحمت یزداں کانزول مسلسل جاری رہا،یاران ہم نفس روز و شب کیف وکم کی حیثیت سے اختیار کر گئے یعنی محمد عمر کو فکر تھی کلام میں کیف کی اور شفیع کوکم کی،کیا کہا اور کتنا کہا،ایک لامسدود دباؤتھا اور لامحدود حوصلہ افزائی جس نے مجھے فعال اور متحرک بنائے رکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں اس حقیقت کو پوری ایمان داری سے محسوس کرتا ہوں کہ شاعری کے فنی رموز سے مجھے قطعاً واقفیت نہیں اور نہ ہی خود کو شاعر متصور کرتاہوں۔اردو زبان کادرس اور ادبی ذوق مجھے ڈاکٹر محمد نعیم اللہ خیالیؔ(مرحوم) نے دیا اور میں افسانوی ادب کے خار زار میں ننگے پاؤں اتر گیا تھا اور اب شعری ادب۔۔۔‘‘

محمد عمر مکرانی لکھتے ہیں :

’ سلیم اختر مکرانی دراصل ایک افسانہ نگار تھا ۔بیسویں صدی جیسے مؤقر جریدے کے علاوہ دوسرے رسائل کے ذریعہ بھی دنیائے اردو سلیم اختر مکرانی کو بہ حیثیت افسانہ نگار پہچان چکی تھی لیکن شعری میدان میں یہ اس کی پہلی کاوش ہے جوآٹھ ماہ کی محنت شاقّہ پر محیط ہے۔ماسٹر محمد نعیم اللہ خیالیؔ سے اردو کی تعلیم اور ادبی ذوق حاصل کرنے کے بعد سلیم اختر ؔ نے افسانہ نگاری کے  میدان میں قدم رکھا تھا لیکن شریک حیات سے جدائی کے بعد اُس نےعلامہ اقبالؔ کی روحانی شاگردی کی اور اُن کی والہانہ محبت میں گرفتار ہو گیا۔نوائے پریشاں کا ایک بڑا حصہ اس حقیقت کا غماز ہے کہ سلیم اخترؔ مکرانی اقبالؔ کا عاشق ہے ۔اقبالؔ کی نوا اُس کےکلام میں پریشاں ہے                          ؎

اے محافظ ِ صحیفہ ، میں ہوں حافظِ صحیفہ
کوئی تیسرا ہے لیکن ترا مرکزِ عنایت

مشہور و معروف شاعرواصف ؔ فاروقی آپ کے مجموعہ کلام میں لکھتے ہیں:

’’سلیم اختر ؔمکرانی ایک افسانہ نگار تھا،نثر نگاری اس کے مزاج سے ہم آہنگی کے سبب اس کے لئے محبوب تھی ،مگر اچانک یہ عقدہ کھلتا ہے کہ انہیں اگر نثری تحریروں میں الفاظ کو برتنے کی چابکدستی دسترس میں ہو تو طبع موزوں کا تقاضہ ہو گا کہ لفظیات کو قید و بند کے زیورات سے آراستہ دو شیزگی کا حسن بھی عطا کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے بہت لمبی مسافت طے کرنے کی ضرورت بھی پیش نہیں آتی بل کہ ایک جست میں وہاں پہونچ کر لوگوں کو متحیرکیا جا سکتا ہےجسے منزلِ فراز کہا جاتا ہے ۔یہی حیرت انگیز کارنامہ ’’ نوائے پریشاں ‘‘کی شکل میں ہے جس نے سلیم اختر مکرانی کے اس جوہر کو آشکار کیا ہے جس پر حلقۂ ادب نہ صرف یہ کی مسرور ہوگی بلکہ اپنے اسلاف سے وابستگی کے احساس کو بھی نئی جلا ملتی ہے۔

چند مہینوں میں کم و بیش بارہ سو اشعار نظموں،غزلوں اور متفرقات یہ مجموعہ اُس راہِ سفرکا پہلا سنگِ میل ہے جس پر پہنچ کردم لینے کی ضرورت نہیں ہے بل کہ چشم احساس کو واکرکے یہ دیکھنے کی منزل ہے کہ آگے آگے دیکھئے ہوتاہے کیا۔

اقبالیات یا بہ الفاظ دگر اسلامیات کا فلسفہ ،زبان وبیان پر قدرت ،لسانی وقار اوراسلوب کے انداز کو پڑھ کرکوئی قاری یا سن کر کوئی سامع یہ یقین نہیں کر سکتا ہے کہ یہ سب صرف چند مہینوں کی مشقِ سخن ہے۔‘‘(نوائے پریشاں،۲۰۰۷ء )

آپ کے مجموعہ نوائے پریشاں کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے مشہور و معروف نقاد اور ادیب پدم شری شمس الرحمن فاروقی اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ:

’’میں نے آپ کی کتاب تھوڑی بہت دیکھی۔ماشاء اللہ آپ خوش فکر اور محنتی شاعر معلوم ہوئے ۔کلام میں پختگی بھی نظر آتی ہے۔‘‘(خط بہ تاریخ ۲۳؍جولائی ۲۰۰۸ء)

شفیع احمد مکرانی لکھتے ہیں:

                ’’صبر و استقلال کی منزل ہی اس کی آخری منزل بن کر خود اسے اور اس دنیا کو بھی نامعلوم ثمر سے محروم کر دیتی ہے، ویسے انسان فطری زندگی میں خلل بہت مشکل سے برداشت کرتا ہے ، مگر کچھ شخصیتیں انسان کی فطری زندگی میں صرف خلل ہی پیدا نہیں کرتی بلکہ ایک قیامت سی برپا کر دیا کرتی ہے۔کچھ ایسا ہی حال سلیم اخترؔمکرانی کا بھی رہا۔اللہ رب العزت نے جن خوبیوں سے سلیم اخترؔ کو نوازا ہے اس کا اظہار کرنے میں موصوف نے بہت تاخیر کی جس کا ہم سب کو صدمہ ہے، ایسا بہت کم دیکھنے کو ملا ہے کہ ایک ہی انسان میں جہاں مختلف قسم کی اچھائیاں موجود ہوں وہیں مختلف قسم کی پختہ صلاحیتیں بھی جاگزیں ہوں۔ایک اچھا مصنف جہاں زندگی کے نشیب وفراز کو کبھی تجربہ سے اور کبھی قیاس آرائی سے قلم بند کرتا ہے  وہیں ایک اچھا شاعر مذکورہ صورتِ حال کو اشعار کی شکل میں پیش کرتا ہے ،اگرچہ دونوں کے احساسات یکساں ہوتے ہیں مگرنتائج یکساں ہوں ضروری نہیں۔‘‘

محمد ارشادالحق ندوی لکھتے ہیں:

’’سلیم اخترؔ نے اقبالؒ کے گلستان سخن سے بھر پور خوشہ چینی کی ہے اور اقبالؒ کے افکار وخیالات کو اپنے کلام میں سمونے کی کوشش کی ہے اور اس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی نظر آتے ہیں۔سلیم اختر کا یہ شعر جب نگاہوں سے گذرتا ہے   ؎

رمزِ توحید کو سینوں میں بسایا میں نے
دار پر نغمۂ تمجید سنایا میں نے

تو بے ساختہ علامہ اقبالؒ کی نظم’’ شکوہ‘‘ یاد آجاتی ہے۔

علامہ اقبالؒ نے بہت سی جگہوں پر اپنی قوم کو ان کی روشن اور تابناک تاریخ دکھا کر جھنجھوڑا ہے، سلیم اختر نے اپنے انداز میں دلوں کو بیدار کرنے کی لئے یوں گویا ہیں                               ؎

تونے خیبر کو اُکھاڑا تھا یہ سچ بھول گیا
تونے روما کو پچھاڑ اتھا یہ سچ بھول گیا

اس کے علاوہ زندگی کا درد ،سوزو گداز،عزم وحوصلہ ،جہد مسلسل،کوششِ پیہم،عمل محکم سلیم اختر کے کلام کی نمایاں خصوصیات ہیں۔‘‘{ نوائے پریشاں ،سلیم اختر مکرانی۲۰۰۷ء}

آپ کا ایک شعری مجموعہ بنام ’’نوائے پریشاں‘‘۲۰۰۷ءمیں شائع ہو کر منظر عام پر آ چکا ہے ۔آپ نے حمد، نعت، غزل، نظم وغیرہ تمام اصناف سخن میں اپنی قسمت آزمائی ہے۔آپ کا مجموعہ کلام’’ نوائے پریشاں ‘‘ آپ کی طویل نظموں کا شاہکار ہے جو فکر ورنگِ اقبالؔ سے بھرپور ہے۔

                سلیم اختر ؔ مکرانی نہ صرف راقم الحروف کے والد کےہم جماعت تھے بل کہ  راقم الحروف سے بھی بہت محبت اور کرم فرمائی کا معاملہ کرتے تھے اور ہمیشہ مفید مشوروں سے نوازتے تھے۔راقم نے جب بابا جمالؔ بہرائچی کے مجموعہ ’’صدائے وطن ‘‘ کو مرتب کرنے کے بعد بہ غرض تصحیح آپ سے رابطہ کیا تو آپ نے راقم کے اسرار پر اس کام کو انجام  دینے کا فیصلہ کیا اور ۲۰۲۲ء کی سردیوں میں راقم ہفتہ میں ایک بار آپ کے دولت کدہ پر لیپ ٹاپ اور قلمی نسخے کے ساتھ حاضر ہوتا  اور سلیم اخترؔ صاحب  لیپ ٹاپ میں مرتب کردہ فائل اور قلمی نسخے سے ایک ایک شعر کو بغور پڑھتے اور جب تک مطمئن نہیں ہوتے تب تک اوکے نہیں کرتے   تھے ۔یہ کام مسلسل تین چار ماہ میں مکمل ہوا  تھا ۔ اکثر آپ اپنے کلام کو راقم کو واٹس ایپ کرتے تھے ۔میرےتصنیفی اور تحقیقی کاموں کو خوب سراہتے تھے اور ہمیشہ اپنی قیمتی دعاؤں سے نوازتے تھے۔افسوس اب ان کی کمی کوئی پوری نہیں کر سکتا ہے۔اللہ کریم سلیم اخترؔ صاحب کے درجات بلند فرمائے اور میں آخر میں ان کا ایک شعر نقل کرتے ہوئے اپنے مضمون کو ختم کرتا ہوں                                             ؎

کہاں تک قید رکھے گا ہواؤں کو مکانوں میں
عقابوں کے لئے حبسِ قفس ہے آشیانوں میں

٭٭٭
ہمارے شہر کا سورج بھی عجیب ہے
پس دیوار بھی سایہ نہیں ہے
محبت میں کئی پہونچے جنوں تک
کوئی میری طرح رسوا نہیں ہے

٭٭٭
پس آئینہ کن تو ہے، پیش آئینہ بھی تو
منم مجروح، کردم جستجو، اشکوں کو پینے دے
ابھی تک امرِ رب ہے پردۂ خاکی میں ہی اخترؔ
نظر آئے نہ جب تک ہو بہ ہو، اشکوں کو پینے دے

غزل
عوامل سب مرے ہیں ، جو ہے اس کا آسماں جانے
ثمر تو غیب میں ہے بندۂ ناداں کہاں جانے
تدارک شورشِ غم کا نہ تنہائی نہ ہنگامہ
مرا دل، میری آہِ شب گزیدہ رائگاں جانے
صدائے العطش مرے لبوں کو چھو کے گذری ہے
وہ ابر مست بھی اے کاش ، صحرا کی زباں جانے
ھو الاوّل ، ھو الآخر ، ھو الظاہر ، ھو الباطن
کہاں پر میں کھڑا ہوں ، یہ تو میرا پاسباں جانے
مرا عرفان ، میری کیفیت ہیں سر سربستہ
دل اخترؔ مجھے سمجھے ، یا شاہِ لا مکاں جانے

٭٭٭

 

تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

سائنسی سچائی

ہفتہ دسمبر 2 , 2023
اسلام ایک سچا, کھرا اور آفاقی و ہمہ گیر دین ہے۔ خود اہل اسلام نے اسی سوچ اور فکر کو اپناتے ہوئے عرفان و ایقان کی منازل طے کی ہیں
سائنسی سچائی

مزید دلچسپ تحریریں