سائنسی سچائی
سائنس اور ٹیکنالوجی وہ علوم ہیں جنہوں نے دنیا میں مادی ترقی کی بنیاد رکھی ہے. اس ترقی کو ہر کوئی اپنے زاویہُ نظر سے دیکھتا ہے. ملحدین اسے اللہ کے نظام ربوبیت کیلئے بہت بڑا خطرہ قرار دیتے ہیں اور اپنی سفلی سوچ کی تسکین کا سامان تلاش کرتے ہیں. مذاہب کو ماننے والے بھی تین طرح کے ہیں. ایک تو وہ جو مادی ترقی کے استیلاء کے سامنے بایں طور سرنگوں ہو چکے ہیں کہ وہ مکمل طور پر مائل بہ الحاد ہو گئے ہیں۔ دراصل ان کا معاملہ ملحدین جیسا ہی ہے۔ دوسری قسم ان کی ہے جو مادی ترقی کو مذہب کے مضبوط حریف کے طور پر لیتے ہیں اور دل ہی دل میں اس سے خوفزدہ بھی رہتے ہیں۔ در اصل یہ گروہ نہ تو اسلام کی توسیع اور آفاقیت کو کماحقہ سمجھ سکا ہے اور نہ ہی مادی ترقی کے سفر کو۔ تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جو متوازن فکر کے حامل دانشور حضرات سائنس اور مذہب میں اصولی طور پر کوئی ٹکراوُ محسوس نہیں کرتے بلکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مادی ترقی بالآخر ایک شعوری انسان کو اللہ کے قریب لے آئے گی بشرطیکہ وہ اس ترقی پر مخلصانہ غور و فکر کرے۔
یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ماضی میں اس کی سینکڑوں مثالیں مل جاتی ہیں کہ جب جدید علوم کے ارتقاء نے غیر مسلموں کے دلوں کے بند دروازوں پر دستک دی حتیٰ کہ وہ پکار اٹھے حق یہی ہے کہ اسلام ایک سچا, کھرا اور آفاقی و ہمہ گیر دین ہے۔ خود اہل اسلام نے اسی سوچ اور فکر کو اپناتے ہوئے عرفان و ایقان کی منازل طے کی ہیں۔ ہمارے فاضل بزرگ دوست معروف ایٹمی انجینئر محترم سلطان بشیر الدین محمود نے قرآن پاک کی آیات کی سائنسی تفسیر لکھی، انہوں نے کم وبیش چھ سو آیات پر گفتگو کرتے ہوئے قرآن حکیم کے دعووُں اور اسکی فراہم کردہ معلومات کو جدید سائنسی علوم کی روشنی میں ثابت کیا۔ فرانس کے معروف سکالر ڈاکٹر مارس بیوکائی نے تخلیق انسان کے تمام مراحل کو قرآن حکیم کی روشنی میں واضح اور منکشف کیا۔ جدید سائنس اب ان مراحل سے آشنا ہوئی ہے۔ ہمارے ایک اور سول انجینئر دوست محترم احمد نواز چیمہ نے جدید نظام آبپاشی کو جب قرآن حکیم کی آیات مبین کے تناظر میں دیکھا تو حقائق کی عجب کشائش ہوئی۔ انہوں نے اس پر ایک رسالہ بھی قلمبند کیا۔ الغرض علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے یہ کہہ کر گویا قلم توڑ دیا کہ:
ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بو
آں کہ از خاکش بروید آرزو
یا زِ نورِِ مصطفیٰ اُو را بہاست
یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفیؓ است
دُنیائے رنگ و بو میں جہاں بھی نظر دوڑائیں اس کی مٹی سے جو بھی آرزو ہویدا ہوتی ہے، وہ یا تو نورِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیضان سے بیش بہا ہوئی یا ابھی تک مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں ہے۔
جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو آفاقی دین جا بجا انسان کو مطالعہ آفاق و انفس کی دعوت دیتا ہے۔ سورہ فصلت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
سَنُرِيْهِـمْ اٰيَاتِنَا فِى الْاٰفَاقِ وَفِىٓ اَنْفُسِهِـمْ حَتّـٰى يَتَبَيَّنَ لَـهُـمْ اَنَّهُ الْحَقُّ ۗ اَوَلَمْ يَكْـفِ بِرَبِّكَ اَنَّهٝ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ شَهِيْدٌ (53)
ترجمہ: عنقریب ہم اپنی نشانیاں انہیں کائنات میں دکھائیں گے اور خود ان کے نفس میں یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے گا کہ وہی حق ہے، کیا ان کے رب کی یہ بات کافی نہیں کہ وہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔
بعض اہل تاویل نے ان سے مراد وہ کافرین لئے ہیں جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو قبول نہ کیا یعنی اللہ رب العزت انہیں عنقریب آفاق و انفس میں اپنی نشانیاں دکھائے گا کہ انکے پاس دین حق کی قبولیت کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا لیکن یہ تاویل درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ ایک اور مقام پر سورہ الذریات میں اللہ رب العزت یوں ارشاد فرماتے ہیں۔
وَفِى الْاَرْضِ اٰيَاتٌ لِّلْمُوْقِنِيْنَ (20)
ترجمہ: اور زمین میں یقین کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔
وَفِىٓ اَنْفُسِكُمْ ۚ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ (21)
ترجمہ: اور خود تمہارے نفسوں میں بھی، پس کیا تم غور سے نہیں دیکھتے۔
یہاں خطاب صاحبان ایقان کو ہے اور ایقان در حقیقت ایمان کا ہی درجہ ہے۔ اسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ایمان کا ابتدائی درجہ اقرار بالسان ہے جو ہم مسلمانوں کو موروثی طور پر حاصل ہو جاتا یے پھر تصدیق بالقلب کی منازل ہیں جنہیں ایک بندہ ُُ مومن اپنی صلاحیت، اخلاص اور محنت کے مطابق طے کرتا ہے۔ قرآن حکیم میں اسی لئے اہل ایمان سے خطاب کرتے ہوئے ان سے ایمان لانے کا تقاضہ کیا گیا ہے۔ حالانکہ بظاہر یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ جب انہیں اہل ایمان بھی کہا جا رہا ہے تو پھر مطالبہ ُُُ ایمان کیسا؟ سورہ النسا میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اٰمِنُـوْا بِاللّـٰهِ وَرَسُوْلِـهٖ وَالْكِتَابِ الَّـذِىْ نَزَّلَ عَلٰى رَسُوْلِـهٖ وَالْكِتَابِ الَّـذِىٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ ۚ وَمَنْ يَّكْـفُرْ بِاللّـٰهِ وَمَلَآئِكَـتِهٖ وَكُتُبِهٖ وَرُسُلِـهٖ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيْدًا (136)
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول پر یقین لاؤ اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر نازل کی ہے اور اس کتاب پر جو پہلے نازل کی تھی، اور جو کوئی انکار کرے اللہ کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کی کتابوں کا اور اس کے رسولوں کا اور قیامت کے دن کا تو پس وہ شخص بڑی دور کی گمراہی میں جا پڑا۔
یہاں جس ایمان کا مطالبہ کیا جا رہا ہے وہ تصدیق بالقلب اور ایقان و عرفان ہی ہے اور ایقان و عرفان کی یہ منازل آفاق و انفس میں پھیلی ہوئی ہیں، اس کی نشانیاں تلاش کرنے سے ہی ملتی ہیں۔ اسی لئے قرآن نے متعدد مقامات پر ان میں غور و فکر کی دعوت دی ہے۔
سورہ آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے ۔
اَلَّـذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللّـٰهَ قِيَامًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰى جُنُـوْبِهِـمْ وَيَتَفَكَّرُوْنَ فِىْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (191)
ترمہ: وہ جو اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے یاد کرتے ہیں اور آسمان اور زمین کی پیدائش میں فکر کرتے ہیں، (کہتے ہیں) اے ہمارے رب تو نے یہ بے فائدہ نہیں بنایا تو (اللہ) سب عیبوں سے پاک ہے سو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔
یہاں اہل ایمان کی دو صفات کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک یہ کہ وہ اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور دوسری یہ کہ وہ زمین و آسمان کی تخلیق میں خوب غور و فکر کرتے ہیں۔ لہذا یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اس زمین و آسمان میں ظاہر ہونے والے تغیرات سے بے خبر رہیں کیونکہ یہ ترقی و تبدل بھی تو اسی کائنات میں ظہور پذیر ہو رہا ہے۔ آفاق کی وسعتیں اپنی جگہ لیکن انفس میں پھیلی ہوئی کائنات بھی خوب ہے۔ ایک ایک عضو انسانی ساخت اور اسکی کارکردگی پر سائنسی انکشافات کی روشنی میں غور و فکر کر لیا جائے تو انسان اپنے خالق و رب کی عظمتوں کا صدق دل کے ساتھ معترف ہو جاتا ہے اور اس کے حضور عجز و انکسار اور تشکر کے سجدے بجا لاتا ہے۔
زیر نظر کتاب اسی اہم موضوع پر لکھی گئی ہے یعنی “خدا کی سائنسی پہچان”، یہ کتاب اپنے اندر یہ خوبصورت پیغام لئے ہوئے ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ہونے والی مادی ترقی کو مذہب کا حریف نہ سمجھا جائے بلکہ اسی سے اللہ رب العزت کے عرفان اور ایقان کی راہیں تلاش کی جائیں۔ بلاشبہ یہی متوازن سوچ اور مثبت طرز عمل ہے۔ انہوں نے یہ بات کتاب کے شروع ہی میں واضح کر دی ہے کہ اللہ کی معرفت کا سب سے بڑا ذریعہ وحیُ الہی ہے البتہ کائنات و انفس میں غور و فکر اور ان میں ظہور پذیر ہونے والی ہمہ پہلو ترقیاں اور ارتقاء سے بھی ایقان و عرفان کی منازل طے ہوتی ہیں. ان کی بات درست ہے ورنہ اسلام کبھی بھی کائنات و انفس میں غور و فکر پر اس قدر زور نہ دیتا۔ دعا ہے اللہ رب العزت انکی اس کاوش کو قبول و منظور فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.
(کالم نگار کی زیرہ طبع کتاب سے اقتباس، تبصرہ: محمد خلیل الرحمٰن قادری ناظم اعلیٰ جامعہ اسلامیہ لاہور ، رکن مرکزی روئیت ہلال کمیٹی پاکستان)
Title Image by Pexels from Pixabay
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ “خبریں: اور “نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ “اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ “جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔